ماہ رمضان اور ہمارا معاشرہ

ذخیرہ اندوز رمضان کی تیاریاں اور اس کا استقبال اس طرح کرتے ہیں کہ اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں

nasim.anjum27@gmail.com

ماہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوچکا ہے اور اب عید روزے داروں کو اپنی سمت بلا رہی ہے کہ آؤ روزے داروں اپنا انعام عید کی شکل میں حاصل کرو، خوشیاں مناؤ اور اپنے مسلمان بھائیوں کو اس میں شریک کرو، لیکن امت مسلمہ اس نکتے سے واقف ہونے کے باوجود روزے کو روایت اور فیشن کے طور پر دیکھتی ہے۔

دنیا کے سارے کام اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے گزرتے ہیں ، بہت کم لوگ ہیں جو اپنا احتساب اور استغفار کثرت سے کرتے ہیں تاکہ وہ بخش دیے جائیں اور اللہ ان سے راضی ہوجائے، جبکہ ان کے برعکس دنیا پرست صرف روزہ رکھتے ہیں اور روزوں کی روح سے ناواقف رہتے ہیں، ایمان کی سرشاری سے محروم یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دنیا بہت عزیز ہے ، وہ ماہ رمضان کے تقدس اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہیں اور نہ جھوٹ اور بددیانتی سے باز آتے ہیں۔

جونہی ماہ رمضان شروع ہوتا ہے ذخیرہ اندوز رمضان کی تیاریاں اور اس کا استقبال اس طرح کرتے ہیں کہ اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں ہر معاملے میں دروغ گوئی کر کے کامیابی اور ترقی حاصل کرتے ہیں اور خوب منافع کماتے ہیں، ہر سال خیانت اور بد عنوانی کو پروان چڑھا کر مال دار بن جاتے ہیں انہیں اپنی عاقبت کی ہرگز فکر نہیں ہوتی ہے ، جیسے وہ ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور اس دنیا سے کبھی رخصت نہیں ہونگے ۔

کئی برسوں سے نوجوانوں اور خصوصا کراچی کے نوجوانوں کا قتل باقاعدگی سے ہو رہا ہے ، یہ سلسلہ ماہ رمضان میں بھی نہیں رک سکا ، لوگ خریداری کر رہے ہیں ، بازاروں کی رونق بڑھتی جا رہی ہے لیکن مقتولین کے گھروں میں اندھیرے اور مایوسی نے پنجے گاڑ لیے ہیں اور یہ دکھ ایسا ہے جو ہمیشہ دلوں کو ویران رکھے گا اور اپنوں کی یادیں موسم خزاں کی طرح پروان چڑھیں گی، جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے ، چوروں اور ڈاکوؤں نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت خاموش ہے، نہ روک تھام کرتی ہے اور نہ پرسہ دینے میت والے گھر میں جاتے ہیں کہ مرنے والوں کے بوڑھے والدین اور بہن بھائیوں کو دلاسہ ہی دینے پہنچ جائیں، کچھ مالی مدد کریں کہ ان کا کمانے والا، بڑھاپے کا سہار ا ٹوٹ چکا ہے ، لیکن حکومت خاموش تماشائی ہے ، اپنی سیٹوں کے استحکام کے لیے صبح و شام کام کر رہی ہے۔

کراچی کے لوگ ان حالات میں کس طرح سرکار کے حامی اور وفادار ہوسکتے ہیں، اپنی دعاؤں میں نہیں بلکہ بد دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھتے ہیں، جہاں ہر گھر سے جنازے نکلنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، وہاں پر سزا بھی ہے اپنے برے اعمال کی، جس رب نے پیدا کیا بے شمار نعمتوں سے نوازا، اس کی ہی اطاعت کرنے سے غافل، ماہ رمضان میں خصوصاً رقص و موسیقی اور بے مقصد و بے سروپا ڈرامے دکھائے جاتے ہیں، جس سے نئی نسل کچھ سیکھنے کی بجائے اپنے روشن مستقبل کو بھول کر جہالت و گمنامی کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہے، ہر روز وحشیانہ طرز عمل اور درندگی کے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

ماریہ کا واقعہ بھی ماہ رمضان میں سامنے آیا، یہ واقعہ نہایت شرمناک تھا، ماریہ کا بھائی اور باپ کتنے غلیظ اور مکروہ کردار کے تھے کہ جن کے کام سن کر جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ، ایسے واقعات کیوں جنم لیتے ہیں ؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں ، انہی میں سے ایک خاص وجہ حکومت کا اپنے شہریوں سے لاتعلقی اور بے پرواہی ہے۔ حکومت کو ہوش ہی نہیں کہ قلم اور کتابیں چھیننے کے بعد ایسے درندہ صفت لوگ ہی سامنے آئیں گے یہ وہ لوگ ہیں جن کی کئی نسلیں گمراہی اور بدکاری کی نذر ہوگئی ہیں، تعلیم کے دروازے ان کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔


روزگار کی سہولتوں کا فقدان ہے ، پیٹ بھوکا ہو اور کوئی نیکی کا راستہ بتانے والا بھی نہ ہو تو پھر انسان کو درندہ بنتے دیر نہیں لگتی ہے۔ ہزاروں واقعات اخباروں اور کتابوں میں درج ہیں کہ کس طرح مدارس میں طالب علموں کو بے دردی سے مار پیٹ کر موت تک پہنچا دیا گیا ، تشدد نے معصوم بچوں اور ان کے گھر والوں کو برباد کیا ہے۔

ہمارے غریب والدین اپنے بچوں کو مدارس میں جہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور درازکے علاقوں میں بھیج دیتے ہیں، وہاں ایک مسئلہ غربت اور بھوک کا بھی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا فراہم نہیں کرسکتے ہیں، وہ اپنے اس عمل سے دہرا فائدہ حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں لیکن ان کی خواہش پوری نہیں ہوتی ہے ، یہاں بھی حکومتوں کا کردار بڑا ہی کمزور نظر آتا ہے، مساجد و مکاتب کی انتظامیہ کو ملازمت دیتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا ناگزیر ہے کہ آیا جو شخص صرف ناظرہ پڑھ کر آیا ہے، اسے معلوم نہیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں ضابطہ حیات کی تعلیم دی ہے، کس طرح زندگی گزاری جائے، اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید میں والدین، بہن بھائی، پڑوسی اور رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔

صلہ رحمی ، نرم مزاجی ، عفو و درگزر اور دیانت داری کا درس دے کر انسان کو ایک بہترین انسان بنانے کے لیے احکامات صادر کیے ہیں تاکہ انسان اور جانوروں میں واضح فرق نظر آئے اور وہ ایک دوسرے کا ہمدرد و غمگسار بن کر انسانیت کی خدمت کریں، لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب انسان دینی تعلیم سے اپنا سینہ منور کر لے، دولت کی ہوس، اقربا پروری، منافقت کو اپنانے والے نقصان کا سودا کرتے ہیں، جب علم و شعور، آگہی سے بشر دور ہوجاتا ہے تب یہ صورتحال بقول اقبال نظر آتی ہے ؎

اللہ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ

املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ

ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
Load Next Story