ڈیما گوگ کیا ہے؟

سرور منیر راؤ  اتوار 7 اپريل 2024
msmrao786@hotmail.com

[email protected]

ڈیماگوگ ایک ایسے رہنما کو کہتے ہیں جس کا کوئی نظریہ نہ ہو لیکن وہ عوام کو بیوقوف بنانے اوران کے جذبا ت سے کھیلنے کا ہنر بخوبی جانتا۔ اس کے پیرو کار اسے اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں۔

ایسے رہنما لوگوں کو ترقی کا قابل عمل روڈ میپ دینے کے بجائے خیالی جنت کا گروہ بناتے ، اپنی شعلہ بیانی سے اپنے پیروکاروں پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔ ہٹلر اور مسولینی ڈیماگوگ کی اعلیٰ مثال قرار دیا جاتا ہے، جنھوں نے اپنی قوم کے جذبات کو ایک مخصوص ایجنڈے پر ابھارا اور اپنے ملک اور قوم کو جنگ اور بربادی کے راستے پر ڈال دیا۔ڈیموگاگ یونانی زبان کا لفظ ہے۔

’’ڈیما‘‘ کا مطلب عوام اور ’’گاگ‘‘ کا مطلب حکمران یا لیڈر ہے۔قدیم یونان کی ریاستوں کے ایسے حکمران یا لیڈرز جو عوام کے جذبات سے کھیلتے تھے انھیں ڈیموگوک کا خطاب دیا گیا۔ ۔ صدیوں پہلے استعمال ہونے والے اس لفظ کو سیاست میں اب تک تسلسل سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈیموگاگ قیادت اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو متاثر کرتی ہے۔ وہ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیتے ہیں جو لوگوں کو متاثر کرے اور انھیں سبز باغ دکھائے۔ ڈیموگاگ قیادت میں کرشمہ سازی کی خصوصیات ہوتی ہیں، اس لیے وہ عوام میں خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت بھی ہوتی ہے کہ وہ حقائق اور شہادتوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے ماہر ہوتے ہیں، وہ دلیل سے بات کرنے کے بجائے جذبات کو استعمال کرتے ہیں۔

تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ڈیموگاگ قیادت ان ملکوں میں زیادہ موثر ہوتی ہے جہاں سیاسی نظام طلاطم کا شکار ہو، عوام غیر مطمئن ہوں۔ڈیماگوگ قسم کے لیڈروں کی نمایاں خصوصیات یا نشانیاں کچھ اس طرح ہیں۔ ڈیموگاگ قیادت کی سب سے بڑی پہچان ان کا پاپولزم ہے۔ڈیموگوگ کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ مسائل کے حل کے بجائے عوام کو وہ ایسا منظر نامہ پیش کرنا چاہتے ہیں جو ان کا دلکش خواب ہوتا ہے۔جس سے عوام تو خوش ہوجاتے ہیں لیکن وہ خواب کبھی سچے ثابت نہیں ہوتے ہیں اور مسائل کبھی حل نہیں ہوتے ہیں۔

ڈیماگوگ لیڈر، عوام کو خوف اور غصہ دلا کر آپس میں تقسیم کردیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ شخصیت پرستی کے ذریعے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کریں۔میڈیا میں ان کو ایک فرشتہ صفت شخصیت کے طور پر پیش کیا جائے۔ڈیماگوگ کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ دلیل نہ سنیں بلکہ جذبات سے سوچیں۔ وہ اپنے منشور پر بات کرنے کے بجائے دوسروں کی کردار کشی کو انتخابی مہم کا حصہ بنائیں گے۔جھوٹے وعدے کرنا اور اپنے قول سے پھر جانا ان کا وطیرہ ہوتا ہے۔

ڈیماگوگ کا کوئی واضح نظریہ نہیں ہوتا۔ وقت، حالات اور اپنے مفادات کے تابع نظریات تبدیل کر لیتے ہیں۔ان کی دوستی اور تعلق سب ان کے ذاتی مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ ڈیماگوگ طاقت اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر اصول توڑ دیتے ہیں۔الیکشن ہاریں تو دھاندلی کا راگ الاپیں گے اور اگر جیت جائیں تو اسے اپنی کرشماتی شخصیت کا نتیجہ قرار دیں گے۔ ڈیماگوگ لیڈر کبھی تنقید برداشت نہیں کرتے۔ تنقید کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے بد زبانی یا گالی گلوچ پر اتر آئیں گے۔

ڈیماگوگ لیڈر اپنے فالورز کو ہمیشہ یہ کہتے رہیں گے کہ مخالفین اسے کسی نہ کسی طرح ختم کرنا چاہتے ہیں۔مخالفین اسے زہر دے دیں گے یا گولی مار دیں گے۔ ڈیماگوگ ہر مشکل مسلہ کا سادہ حل بتاتے ہیں جو اصل میں حل نہیں ہوتا لیکن مقصد عوام کو بیوقوف بنانا ہوتا ہے۔ ڈیماگوگ لیڈرکی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ وہ اگر کسی قسم کے جذبات دکھاتے بھی ہیں تو صرف دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں۔

محققین جوزف اسٹالن اور ہوگو شاویز کو بھی ڈیماگوگ لیڈرز میں شامل کرتے ہیں۔اگر ہم ایشیائی ممالک کی قیادتوں کا جائزہ لیں تو کئی حکمرانوں کو ڈیموگوک کا خطاب دیا گیا ہے، ان میں فلپائن کے صدر روڈ ریگو ڈو ٹرٹی، نریندر مودی، پیوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کو بھی اسی فہرست میں رکھا جاتا ہے ۔ دیکھنا ہے کہ تاریخ ان کو حتمی طور پر کس فہرست میں شامل کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔