پریشر

ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان سب کا اب آخری سہارا انارکی ہے

Jvqazi@gmail.com

علامہ آئی آئی قاضی ہمارے روحانی دادا تھے اور میرے والد کے روحانی باپ۔1910 میں ان کی جرمن زوجہ ایلسا کے ساتھ ایک تصویر میرے والد کے چیمبر میں ، دیوار پر آویزاں تھی، جس پر اے کے بروہی کا جملہ بھی درج تھا۔'' یہ تصویر بھائی میں آپ کو علامہ کے کہنے کے مطابق ارسال کر رہا ہوں۔''

علامہ آئی آئی قاضی بیرسٹر تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ریاست خیر پور میں چیف جسٹس تھے۔ایک کیس ان کے پاس آیا اور ساتھ خیرپور ریاست کے سربراہ کی چٹھی بھی آئی کہ ان پر ہاتھ ہلکا رکھیں۔اس بات کا تذکرہ میرے والد نے اپنی سوانح حیات میں کیاہے۔انھوں نے بس چٹھی پڑھی، اسی وقت استعفیٰ لکھا،اور گھر آگئے، اہلیہ ایلسا کو کہا کہ(نواب اکبر بگٹی ان کے شاگرد تھے) سامان تیار کریں، یہاں سے اب ہجرت کرنی ہے۔جب سندھ یونیورسٹی کو کراچی سے جامشورو منتقل کیا گیا تو آپ اس کے وائس چانسلر بنے۔

سندھ یونیورسٹی کی جگہ کا انتخاب بھی آپ نے کیا۔ایک دن اپنے آفس میں بیٹھے تھے کہ اچانک شور مچا ، وہ آفس سے نکل کر باہر آئے اور پوچھا'' یہ کیسا شورہے''بتایا گیا کہ طلبہ نے امتحان کا بائیکاٹ کردیا ہے ،کہتے ہیں کہ پرچہ بہت سخت ہے۔'' توکیا طلبہ نوجوان ہیں، میری طرح بوڑھے نہیں، اگر ایسا یہ کہتے ہیں تو پھر کیا بچ جاتا ہے۔''یہ پریشر تھا جو نوجوان بر داشت نہ کرسکے اور وہ بھی پریشر تھا جس کے دبائو میں آنے سے علامہ نے انکار کردیا تھا۔

آجکل پریشر کی بازگشت ہے، ہر طرف شور برپا ہے۔سوشل میڈیا سے جھوٹی خبروں کی یلغار ہے۔تصدق جیلانی صاحب ہتھیار ڈال چکے ہیں۔پروپیگنڈا پھیلانے والوں کی چاندی لگی ہوئی ہے، یوں کہیے کہ سپریم کورٹ نے پریشر میں آکر سوموٹو لے لیا۔ابھی دو دن تھے سماعت میں اور پورے دو دن مجھ سمیت وہ تمام لوگ اداس تھے جو اس ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے خواہاں تھے۔بہرحال تین اپریل کو پریشر ککر کی ہوا نکال دی گئی اور جو ظالم، مظلوم بن گئے تھے ان کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیا گیا۔جب محترمہ سرینہ قاضی عیسیٰ انصاف کے لیے دروازے کھٹکھٹاتی رہیں۔

سب کو پتا تھا کہ یہ نتیجہ ان کے شوہر کے لکھے ہوئے فیصلے کا تھا جو انھوں نے فیض آباد دھرنے کے حو ا لے سے دیا تھا،یہ بھی پریشر تھا،وہ بھی ایک پریشر تھا جس کا ذکر جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے انٹرویو کیا تھا کہ کس طرح سپریم کورٹ کے چار ججوں نے ضیاء الحق کے پریشر میں آکر بھٹو کو سولی پر چڑھادیا۔یہ بھی انھوں نے اعتراف کیا مگر کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ بھی علامہ آئی آئی قاضی کی طرح استعفیٰ دے دیتے۔یہ ججز دراب پٹیل جیسے ججز نہ تھے، ان کو مظاہر نقوی، ثاقب نثاراور بندیال جیسے ججز درکار تھے۔

ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان سب کا اب آخری سہارا انارکی ہے۔جمہوری روایتوں سے اب ہٹ کر کھیلنا چاہتے ہیں اور ایک بین الاقوامی سرطان ہے جو جمہوریت کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے، وہ ہے جھوٹی نیوز اور وڈیوز اور ان کا سوشل میڈیا اور ڈیجٹل میڈیا کے مختلف ٹولز پر پھیلاؤ ۔ ایک شور و غوغا ہے ڈس انفارمیشن کا۔ اب کسی گالی، افواہ، بے حرمتی وغیرہ میں کوئی فرق نہیں اور یہ سب اظہار رائے کی آزادی کے جھنڈے تلے ہو رہا ہے۔

اب سپریم کورٹ اپنی عدالتی کارروائی سرعام پوری دنیا کو دکھا رہی ہے، اس سے افواہوں کے گرم بازار کو نقصان پہنچا ہے۔چھ ججز کو خطوط کی خبرنے جن افواہوں کو جنم دیا، فل کورٹ میٹنگ جو جوڈیشل نہیں بلکہ انتظامی ہوتی ہے، اس کے مطابق جو میٹنگ وزیراعظم کے ساتھ ہوئی، وہ ایک مقننہ کے انتظامی سربراہ کی عدلیہ کے سربراہ کے ساتھ ہوئی۔جو کمیشن بنا اور جو اس کمیشن کا چیف بنا اس کا نام کس نے تجویز کیا؟یہ سب عدالت کی کارروائی براہِ راست دکھائی گئی، اس سے یہ سب عیا ں ہوا اور سارا پروپیگنڈہ ہوا ہوگیا اور فیک خبروں کو کامیابی نہ مل سکی۔


اس وقت پاکستانی قوم ، تمام اقوام کی بہ نسبت ایک اعصابی کیفیت کا شکار ہے اور یہی وجہ ہے ذیابیطس کے مرض کی۔یہ دباؤ یا پریشر ہمارا قومی المیہ ہے۔اس ملک میں سیدھے راستے سے گزر کر کوئی امیر نہیں بنا۔ نواب ، رائے بہادر، خان بہادر اور سر کے خطابات انگریزوں نے ایسے ہی نہیں دیے تھے۔ تاج برطانیہ کی خدمت کے صلے میں یہ خطابات ملے ، جاگیریں اور سرما یہ انگریزی سرکار کی عنایت ہے ۔یہ ان وفاداریوں کی قیمت تھی جو دیسی نوابوں، رائے بہادروں، گدی نشینوں اور ''سر'' کہلانے والوں نے انگریز سامراج کے ساتھ نبھائیں۔

ایسے مراعات یافتہ لوگ دباؤ میں نہیں کھیل سکتے، جو دباؤ میں کھیلتے ہیں،ان کو جعفر جمالی کی طرح، فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہونے کی سزا کاٹنی پڑتی ہے۔ جنرل مشرف کے ساتھ اکبر بگٹی کے ٹکراؤ کی حقیقت بھی ہمیں پتا ہے۔ایسی متعدد مثالیں موجود ہیںلیکن تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہوتے ہیں ایسے لوگ اپنے وقت کا سچ بولتے ہیں جو ہوا سو ہو، پریشر میں نہیں آئے، ٹینشن لی نہیں بلکہ ٹینشن دی۔

اس راہ پر جو گذرتی ہے وہ گذری

تنہا پس زنداں کبھی رسوا سر بازار

(فیض)

اب روزگار کے لیے ایک ہی ہنر کافی ہے وہ یہ کہ سنسنی خیزی پھیلاؤ۔ہمارا جھگڑا بھی یہی رہا کہ ان عوامی نمایندگان کو غیر مستحکم رکھو، ان کو مضبوط نہ ہونے دو۔ہم نے بیانیہ بھی ایسا ہی دیا جس میں ہم نے ریاست اور مذہب کو ہمیشہ خطرے میں ظاہر کیا۔ ہم نے خوب سرٹیفکیٹ بانٹے غداری کے۔ تو پھر سنسنی خیز خبروں کی دیمک تو ہمیں لگنی تھی۔

اپنی سرحدوں کے اس پار بھی ہمیں جھانکنا چاہیے ۔ ہندوستان اور چین کہاں کھڑے ہیں جب کہ افغانستان اور ایران کدھر کھڑے ہیں، اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔

یہ کالم ختم کرتے کرتے آپ کو میں بتاتا چلوں کہ علامہ آئی آئی قاضی ایک انتہائی حساس انسان تھے،ان کی کوئی اولاد نہ تھی،دو بچوں کو اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے جن میں ایک میرے والد اور دوسرے تھے ایکے بروہی۔جب ان کی بیوی ایلساکا انتقال ہو اتو میرے والد اور چند قریب دوست ان کے ساتھ تھے۔ علامہ صاحب کا انتقال ایک سال بعد ہوا ۔ ان کی عمر چوراسی برس تھی ۔ پاکستان بننے کے بعد انتہائی مایوسی کا شکار تھے۔ جامشورو دریائے سندھ تک خود چل کر گئے اور اور خود کو دریا کے حوالے کردیا۔
Load Next Story