خواجہ احمد عباس کی باتیں تیسرا اور آخری حصہ

انھوں نے ارباب اقتدارکی عیاری اور مکاری پر کھل کر لکھا تو مذہب کی آڑ میں ہونے والی بدعتوں کی بھی مذمت کی

zahedahina@gmail.com

خواجہ احمد عباس کے بارے میں یہ لکھنا غلط نہ ہوگا کہ ایک انسان کا بیک وقت افسانہ نگار، صحافی، فلم ساز، ڈرامہ نگار اور ناول نویس ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔

اس لحاظ سے خواجہ احمد عباس کی عظمت کا تو اندازہ ہوتا ہی ہے اور شاید یہی عظمت اور یہی کثیر الجہتی ان کی ناکامیوں کا سبب بھی بنی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو ایک رخ پر اور ایک راہ پرنہ استعمال کرسکے۔ اس کا خمیازہ انھیں یوں بھگتنا پڑا کہ اردو ادیبوں نے یہ سمجھ کر ان پر کچھ نہ لکھا کہ یہ صحافت کے آدمی ہیں۔

صحافیوں نے اس لیے جگہ نہ دی کہ یہ تو فلم کے مردِ میدان ہیں اور فلم نے اس لیے دور دور رکھا کہ یہ تو ادب کا سپاہی ہے ۔ اپنے اس انتشارکا خود خواجہ احمد عباس کو بھی احساس رہا ہے ۔ چنانچہ کئی مقام پر اس احساس کو الفاظ بھی دیے ہیں کہ :

'' تقریباً سب بھاری بھرکم نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ میں ادیب نہیں اخبار نویس ہوں اور میرے افسانوں میں صحافتی اندازسرا سر جھلکتا ہے ۔ یہ بھی آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ میں اعلیٰ ادب تخلیق کرنے کے بجائے اخباروں میں پڑھی پڑھائی خبروں کو افسانوی رنگ دے کر افسانے کے نام سے چھپوا دیتا ہوں ۔ اس لیے آپ کو کوئی تعجب نہ ہوگا کہ کہانی مجھ پر وحی کی طرح نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی ذاتی تجربے اور مشاہدے یا سنے ہوئے یا کسی اخبار میں پڑھے ہوئے واقعات پر مبنی ہوتی ہے۔''

ان کے افسانوں کے زیادہ تر وہی موضوعات ہیں جو صحافت کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ اس لیے ان کے افسانوں اور ناولوں میں صحافت کا رنگ آجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بنیادی طور پر وہ صحافی ہی تھے۔ صحافت کے ذریعے ہی انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا اور یہ صحافت ان کے مزاج اور ذہن سے ہم آہنگ بھی تھی۔ کیونکہ وہ صحافت کے ذریعے سماجی انقلاب لانا چاہتے تھے۔

چنانچہ خواجہ احمد عباس نے وہی راہ اختیار کی جو اُن کے ذوق اور مزاج سے ہم آہنگ تھی اور اس راہ کے انتخاب کا بنیادی مقصد اس نظام کے خلاف احتجاج کرنا تھا جس میں عوام کا استحصال ہو، غریبوں پر ظلم ہو، صحافت ان کا پیشہ نہیں ان کا مشن تھا اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے صحافت کو اپنی منفعت کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ عوام کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس ذریعے کا استعمال کیا۔ ان کے ذہن میں ایک ہی چیز بس گئی تھی کہ کس طرح اخبار کے ذریعے عوام کو بیدارکیا جائے۔

چنانچہ انھوں نے نیشنل کال اور ہندوستان ٹائمز میں بلا معاوضہ بھی اپنی خدمات انجام دیں، انھوں نے پیسے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ انھوں نے ہمیشہ خسارے کا سودا کیا۔ انھوں نے بلٹز میں لکھتے ہوئے ایڈیٹر سے یہ شرط رکھی کہ ان کے کالم میں کسی بھی طرح کی تراش خراش نہیں کی جائے گی۔ اس کے لیے انھوں نے کم معاوضے پر بھی رضا مندی ظاہر کردی۔ ظاہر ہے کہ ان کا مقصد صحافت کے ذریعے فکری اور سماجی انقلاب لانا تھا۔

انھیں مظلوموں کی داد رسی عزیز تھی۔ استحصالی سماج کے خلاف لکھنا انھیں پسند تھا۔ آزادی سے قبل انھوں نے سامراجیت کے خلاف لکھا اور آزادی کے بعد انھوں نے جاگیرداری نظام کے خلاف مسلسل احتجاج کیا۔ ان کا ذہن ایک ایسے سماج کا حامی تھا جہاں مساوات ہو، اونچ نیچ میں کوئی تفریق نہ ہو ۔ سیکولر ازم اور سوشل ازم پر ان کا یقین تھا اسی لیے انھوں نے جبر واستحصال سے پاک سماج کی تشکیل پر زور دیا اور ہمیشہ ایسے مسائل اور موضوعات پر کالم لکھا جس سے معاشرے میں اتحاد و ہم آہنگی پیدا ہو۔


دنیا کے کسی بھی کونے میں انسانوں پر ظلم ہوتا تھا تو چیخ اٹھتے تھے اور ان کا قلم حرکت میں آجاتا تھا۔ ان کے عہد میں بہت ساری جنگیں ہوئیں۔ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جارحیت کے سلسلے شروع ہوئے، غریبوں کا قتل ہوا۔ اس پر کبھی خاموش نہیں ہوئے، جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ سماج میں رونما ہوتا اس پر وہ ضرور لکھتے۔ اسرائیل کی جارحیت ہو، ایران عراق تصادم ہو، ویت نام کی جنگ ہو، ان کا قلم امن کے لیے متحرک ہوجاتا تھا۔

انھوں نے عالمی مسائل پر بھی لکھا تو انسان دوستی کے جذبے کو پیش نظر رکھا اور ہمیشہ حق کی طرف داری کی۔ دنیا کا کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس پر انھوں نے اپنے قلم کو جنبش نہیں دی۔ خاص طور پر غریبوں اور مزدوروں کے حق میں انھوں نے آوازیں بلند کیں۔ ان کا ہرکالم ایک انقلاب اور احتجاج کی آواز ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے ہمیشہ بے خوف و خطر لکھا کسی ملامت یا لعن طعن کی پروا نہیں کی۔ وہ اقتدار سے بھی کبھی خائف نہیں رہے جسے سچ سمجھا وہی تحریرکیا۔

ان کے سچ کی راہ میں کوئی مفاد، کوئی لالچ، کوئی حرص وطمع حائل نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین بھی ان کی تحریروں کی صداقت پر یقین رکھتے تھے اور انھیں یہ پتہ تھا کہ خواجہ احمد عباس کا نقطہ نظر انسانی درد مندی سے عبارت ہے۔ انھیں انسانیت سے پیار اور محبت تھی۔ انھوں نے کبھی مذہبی نسلی تفریق کو پسند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب، نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والے ان کی تحریروں کو نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ اعتبار اور وقار کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

بلٹز میں ان کے شایع ہونے والے کالم ہر طبقے میں مقبول تھے، کیونکہ وہ عوام کے بنیادی مسائل پر اپنی توجہ مرکوزکرتے تھے۔ انھوں نے اپنے کالموں میں عوامی مسائل کو ترجیح دی اور انھی موضوعات کو پیش کیا جو عام آدمی سے متعلق تھے۔ ان کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ ان کے خیالات ہر خاص وعام تک پہنچیں۔ ان کے کالموں میں مقصدیت تھی۔ معیار تھا اور آخری عمر تک مقصدیت کو قائم رکھا۔

انھوں نے ارباب اقتدارکی عیاری اور مکاری پر کھل کر لکھا تو مذہب کی آڑ میں ہونے والی بدعتوں کی بھی مذمت کی۔ بلٹز میں ان کے شایع ہونے والے کالم کے موضوعات پر نگاہ ڈالی جائے تو ان کے تنوع کا اندازہ ہوگا۔ دنیا کا کوئی بھی ایسا ملک یا کوئی بھی ایسا انسانی مسئلہ نہیں ہے جس پر انھوں نے نہ لکھا ہو حتیٰ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مسائل پر بھی انھوں نے لکھا ہے۔

خواجہ احمد عباس نے صرف سیاست پر نہیں بلکہ زبان و ثقافت کے حوالے سے بھی بہت سے کالم لکھے ہیں اور ان کالموں میں بھی زبان و ادب کے تعلق سے بہت سے اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواجہ احمد عباس صرف سماج اور سیاست نہیں بلکہ زبان و ثقافت پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے اور ادب کے بدلتے رجحانات اور رویے پر ان کی نظر رہتی تھی۔ یہ تنقیدی یا تحقیقی نوعیت کی تحریریں نہیں ہیں جو بہت ہی اسپاٹ ہوتی ہیں بلکہ خواجہ احمد عباس کی ان تحریروں میں بھی ادب و ثقافت کے تعلق سے کچھ ایسے نکات ضرور ہوں گے جن کا تعلق سماج اور سیاست سے ہوگا۔ انھوں نے فاشزم، فرقہ واریت اور ہندو مسلم تنازعہ کے حوالے سے بہت ہی فکر انگیز اور معنی خیزکالم لکھے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو دائمی نوعیت کے ہیں۔ ان کی شکلیں اور صورتیں وقت اور حالات کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں مگر بنیادی طور پر فرقہ واریت اور فاشزم کی جڑیں ایک جیسی ہیں۔

خواجہ احمد عباس نے خواتین کے مسائل کو بھی اپنے کالم کا موضوع بنایا ہے۔ عورتوں کے دکھ درد کو اپنے کالم میں پیش کیا ہے انھیں احساس ہے کہ عورتیں مظلوم ہیں، مجبور ہیں، مقہور ہیں ۔ اسی لیے انھوں نے عورتوں کے حق میں بھی آواز بلند کی۔ ان کے کئی کالم ایسے ہیں جس میں انھوں نے عورتوں کے دکھ درد کی بہترین عکاسی کی ہے اور اس طبقہ نسواں کے ساتھ ظلم و جبر کا جو سلسلہ ہے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ایسے کالموں میں ' جہیز کی لعنت یا اگنی پریکشا، عورتوں کی عفت اور غریبی' عورتوں کو عزت بیچنے پر کون مجبور کرتا ہے، طلاق طلاق طلاق ، نوعورتیں اور ساٹھ کروڑ کا مسئلہ، تین عورتیں چار عورتیں، تیس کروڑ عورتیں، جہاں لڑکی والے جہیز مانگے ہیں' عورت کو کب شہرت ملتی ہے؟ عورتوں کا قتل اور قتل سے بھی بدتر، عورتوں کی منڈی' جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر، بیٹا ہوگا یا بیٹی ، قابل ذکر ہیں۔

انھوں نے ہریجنوں ، دلتوں اور پسماندہ طبقات پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی کھل کر لکھا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ انھوں نے کسی بھی موضوع کو نہیں چھوڑا۔ ان میں سے بیشتر وہی موضوعات ہیں جن کی آج بھی معنویت برقرار ہے۔

خواجہ احمد عباس کے دہائیوں پر بکھرے ہوئے کالموں کو تلاش کرنا اور پھر انھیں بڑی محنت سے آٹھ جلدوں پر مشتمل ایک کلیات میں یکجا کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن پروفیسر ارتضیٰ کریم نے یہ کام کر دکھایا۔ ان کا کہناہے کہ ''میںنے ان کالموں کی مقصدیت اور معنویت کے پیش نظر مختلف لائبریریوں میں بلٹز کی فائلیں تلاش کیں مگر المیہ یہ ہوا کہ کسی بھی کتب خانے میں بلٹزکی مکمل فائلیں نہ مل سکیں بلکہ 1963سے 1968 تک کی تمام فائلیں باوجود کوشش کے دستیاب نہ ہوسکیں ، پھر بھی میری حتی المقدور سعی ہوگی کہ تمام کالموں کو یکجا کرکے آپ کے سامنے پیش کرسکوں یاکوئی اور جویائے حق اس کام کو آگے بڑھائے۔'' اب دیکھنا ہے کہ کیا ایسے لوگ موجود ہیں جو اس نوعیت کا مشکل کام کرنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہیں؟
Load Next Story