ہر سال 70 ہزار بچے پیدائشی طور پر دل کے امراض میں مبتلا علاج کی سہولتیں ناکافی
مائیں متوازن خوراک اورزندگی معالج کی ہدایات کے مطابق گزاریںتوبچے دل کے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں
پاکستان میں سالانہ 70 ہزار سے زائد بچے پیدائشی طورپر دل کے امراض میں مبتلا پیدا ہورہے ہیں جب کہ بچوں میں دل کا سب سے بڑا مرض ان کے دل میں سوراخ کا ہونا ہے۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں سرکاری طور پر صرف قومی ادارہ برائے امراض قلب میں بچوں کے دل کے امراض کا علاج کیا جا رہا ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حمل کے دوران مائیں اپنی خوراک کو متوازن اور طرز زندگی ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق گزاریں تو ان کے بچے دل کے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے 15 سے 20 فیصد بچے انتقال کر جاتے ہیں جبکہ 80 فیصد بچے علاج سے صحت مند رہتے ہیں۔
یہ بات قومی ادارہ برائے امراض قلب میں شعبہ بچوں کی سرجری یونٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سہیل خان بنگش نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہی انھوں نے کہا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں بچوں کے دل کے امراض کے فزیشن اور سرجنز کی شدید کمی کا سامنا ہے اس وقت پاکستان میں بچوں کے دل کے امراض کے فزیشن کی تعداد 100 جبکہ بچوں کے دل کی سرجری کرنے والے ماہر سرجنز کی تعداد صرف 25 ہے۔ جس میں کراچی میں 7 سرجنز موجود ہیں ان میں 4 قومی ادارہ برائے امراض قلب ، ایک آغا خان اسپتال ، ایک لیاقت نیشنل اسپتال اور ایک ایس آئی یو ٹی میں موجود ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 80 ہزار سے زائد بچے دل میں سوراخ اور دل کی مختلف بیماریاں لے کر پیدا ہو رہے ہیں جس میں 80 فیصد بچوں کے دل میں سوراخ اور 20 فیصد بچوں کے وال خراب اور دیگر امراض ہوتے ہیں ان بچوں کی عمریں ایک دن سے لے کر 14 سال تک ہوتی ہیں۔
امراض دل میں مبتلا بچوں کے علاج کی سہولتیں کم ہیں
پروفیسر ڈاکٹر سہیل خان بنگش نے بتایا کہ بچوں میں دل کی بیماریوں کی وجوہات مختلف ہیں جن میں موروثی ، کزنز میرج ، حمل کے دوران ماؤں میں وائرل انفیکشن ، غذائی قلت اور سیلف میڈیکیشن کا استعمال شامل ہیں، انھوں نے بتایا کہ جو بچے پیدائشی طور پر دل کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں ان میں اس بیماری کی علامات مختلف ہوتی ہیں جس میں بار بار سینے میں انفیکشن کا ہونا ، ماں کے دودھ پلانے کے دوران بچے کو ٹھنڈے پسینے آنا ، سانس پھولنا اور دودھ پیتے ہوئے تھک جانا یا چھوڑدینا شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دل کے امراض میں مبتلا بچوں کے علاج کی سہولیات ملک بھر میں بہت کم ہیں اس وقت پورے ملک میں بچوں میں دل کے امراض کے علاج کا سب سے بڑ ا قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی ہے ، جہاں 3 ماہ سے لے کر 10سال سے زائد عمر کے بچوں کی سرجریز ہوتی ہیں انھوں نے سرجری کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ دل کے امراض میں مبتلا بچوں کے ہر ماہ 150 مختلف نوعیت کے پیچیدہ آپریشن کیے جاتے ہیں ، جن میں 110 اوپن ہارٹ سرجریز اور 35 سے زائد کلوز ہارٹ سرجریز شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی میں کی جانے والی سرجریز کی کامیابی کا تناسب 90 فیصد سے زائد ہے انھوں نے بتایا کہ این آئی سی وی ڈی بچوں کے دل کی سرجریز بالکل مفت کرتا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کی اجازت سے این آئی سی وی ڈی میں شام کے اوقات میں بچوں کے دل کے امراض کے علاج نجی سہولیات بھی موجود ہیں جہاں آپریشن پر دیگر نجی اسپتالوںکی نسبت ساڑھے 5 لاکھ روپے پیکیج کے تحت یہ سہولت موجود ہے۔
70ہزاربچے کانگنیٹل ہارٹ ڈیزیزکیساتھ پیدا ہوتے ہیں
کارڈک فزیشن ڈاکٹر حمید اللہ ملک نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 70 ہزار سے زائد بچے کانگنیٹل ہارٹ ڈیزیز کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، کانگنیٹل ہارٹ ڈیزیز 35 سے زائد اقسام کی ہوتی ہیں جس میں سے کچھ اقسام پیچیدہ ہوتی ہیں اور اسے پیدائش کے بعد فوری طور پر علاج کرنے کی ضرورت ہے، کانگنیٹل ہارٹ ڈیزیز کا ماں کے حمل کے دوران پتہ لگایا جا سکتا ہے اس کے فوری علاج سے 85 فیصد بچے مریض زندہ رہ سکتے ہیں، ترقی پذیر ممالک سمیت پاکستان میں 60 فیصد بچے خراب تشخیص اور علاج کے ناقص انتظام کی وجہ سے انتقال کرجاتے ہیں دنیا بھر سے پاکستان میں اس مرض کی شرح زیادہ ہے اور صرف کچھ اسپتالوں میں اس کے علاج کی سہولت موجود ہے، سی ایچ ڈی کے مریضوں کو زندہ رہنے کے لیے جلد تشخیص کرنے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی بہت کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سی ایچ ڈی اس وقت ہوتا ہے جب دوران حمل غیر مناسب غذا متوازی اور غیر مناسب غذا ملنے کی وجہ سے بچوں کو یہ مرض لاحق ہوتا ہے انھوں نے کہا کہ اگر بروقت پتہ لگ جائے تو بہت سے بچوں کو بچایا جاسکتا ہے انھوں نے کہا کہ سندھ بھر کے اضلاع میں بچوں کے دل کے امراض کے اسپتال ہونے چاہئیں۔
این آئی سی وی ڈی میں پوتے کی سرجری کا نمبر6 ماہ بعد آیا تھا، تسلیم جتوئی
میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے خاندان کے سربراہ تسلیم جتوئی نے بتایا کہ ان کے 2 سالہ پوتے کو دل میں سوراخ کی بیماری کا علم 2 سال بعد ہوا تھا جب بار بار سینے میں انفیکشن کی وجہ سے بیمار ہوتا اور روتے وقت سانس روک لیتا تھا ڈاکٹروں نے تشخیص کے بعد بتایا کہ اس کے دل میں پیدائشی سوراخ ہے اس بیماری کا علاج میرپور خاص میں نہیں تھا، این آئی سی وی ڈی لے کر آئے جہاں اس کا کامیاب آپریشن ہوا لیکن اسپتال میں یہ صورتحال دیکھنے میں آئی کہ اسپتال میں بچوں میں دل کے امراض بہت زیادہ ہیں اور سہولیات ناکافی ہیں میرے پوتے کا آپریشن 6 ماہ کے طویل انتظار کے بعد ہوا جو کامیاب رہا، خاتون فہمیدہ نے بتایا کہ ان کی بچی کے پیدائشی طور پر دل کے وال میں نقص تھا، نجی اسپتال میں اس کا علاج کرایا گیا جس پر تقریبا 7 لاکھ روپے سے زائد اخراجات آئے۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں سرکاری طور پر صرف قومی ادارہ برائے امراض قلب میں بچوں کے دل کے امراض کا علاج کیا جا رہا ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حمل کے دوران مائیں اپنی خوراک کو متوازن اور طرز زندگی ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق گزاریں تو ان کے بچے دل کے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے 15 سے 20 فیصد بچے انتقال کر جاتے ہیں جبکہ 80 فیصد بچے علاج سے صحت مند رہتے ہیں۔
یہ بات قومی ادارہ برائے امراض قلب میں شعبہ بچوں کی سرجری یونٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سہیل خان بنگش نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہی انھوں نے کہا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں بچوں کے دل کے امراض کے فزیشن اور سرجنز کی شدید کمی کا سامنا ہے اس وقت پاکستان میں بچوں کے دل کے امراض کے فزیشن کی تعداد 100 جبکہ بچوں کے دل کی سرجری کرنے والے ماہر سرجنز کی تعداد صرف 25 ہے۔ جس میں کراچی میں 7 سرجنز موجود ہیں ان میں 4 قومی ادارہ برائے امراض قلب ، ایک آغا خان اسپتال ، ایک لیاقت نیشنل اسپتال اور ایک ایس آئی یو ٹی میں موجود ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 80 ہزار سے زائد بچے دل میں سوراخ اور دل کی مختلف بیماریاں لے کر پیدا ہو رہے ہیں جس میں 80 فیصد بچوں کے دل میں سوراخ اور 20 فیصد بچوں کے وال خراب اور دیگر امراض ہوتے ہیں ان بچوں کی عمریں ایک دن سے لے کر 14 سال تک ہوتی ہیں۔
امراض دل میں مبتلا بچوں کے علاج کی سہولتیں کم ہیں
پروفیسر ڈاکٹر سہیل خان بنگش نے بتایا کہ بچوں میں دل کی بیماریوں کی وجوہات مختلف ہیں جن میں موروثی ، کزنز میرج ، حمل کے دوران ماؤں میں وائرل انفیکشن ، غذائی قلت اور سیلف میڈیکیشن کا استعمال شامل ہیں، انھوں نے بتایا کہ جو بچے پیدائشی طور پر دل کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں ان میں اس بیماری کی علامات مختلف ہوتی ہیں جس میں بار بار سینے میں انفیکشن کا ہونا ، ماں کے دودھ پلانے کے دوران بچے کو ٹھنڈے پسینے آنا ، سانس پھولنا اور دودھ پیتے ہوئے تھک جانا یا چھوڑدینا شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دل کے امراض میں مبتلا بچوں کے علاج کی سہولیات ملک بھر میں بہت کم ہیں اس وقت پورے ملک میں بچوں میں دل کے امراض کے علاج کا سب سے بڑ ا قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی ہے ، جہاں 3 ماہ سے لے کر 10سال سے زائد عمر کے بچوں کی سرجریز ہوتی ہیں انھوں نے سرجری کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ دل کے امراض میں مبتلا بچوں کے ہر ماہ 150 مختلف نوعیت کے پیچیدہ آپریشن کیے جاتے ہیں ، جن میں 110 اوپن ہارٹ سرجریز اور 35 سے زائد کلوز ہارٹ سرجریز شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی میں کی جانے والی سرجریز کی کامیابی کا تناسب 90 فیصد سے زائد ہے انھوں نے بتایا کہ این آئی سی وی ڈی بچوں کے دل کی سرجریز بالکل مفت کرتا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کی اجازت سے این آئی سی وی ڈی میں شام کے اوقات میں بچوں کے دل کے امراض کے علاج نجی سہولیات بھی موجود ہیں جہاں آپریشن پر دیگر نجی اسپتالوںکی نسبت ساڑھے 5 لاکھ روپے پیکیج کے تحت یہ سہولت موجود ہے۔
70ہزاربچے کانگنیٹل ہارٹ ڈیزیزکیساتھ پیدا ہوتے ہیں
کارڈک فزیشن ڈاکٹر حمید اللہ ملک نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 70 ہزار سے زائد بچے کانگنیٹل ہارٹ ڈیزیز کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، کانگنیٹل ہارٹ ڈیزیز 35 سے زائد اقسام کی ہوتی ہیں جس میں سے کچھ اقسام پیچیدہ ہوتی ہیں اور اسے پیدائش کے بعد فوری طور پر علاج کرنے کی ضرورت ہے، کانگنیٹل ہارٹ ڈیزیز کا ماں کے حمل کے دوران پتہ لگایا جا سکتا ہے اس کے فوری علاج سے 85 فیصد بچے مریض زندہ رہ سکتے ہیں، ترقی پذیر ممالک سمیت پاکستان میں 60 فیصد بچے خراب تشخیص اور علاج کے ناقص انتظام کی وجہ سے انتقال کرجاتے ہیں دنیا بھر سے پاکستان میں اس مرض کی شرح زیادہ ہے اور صرف کچھ اسپتالوں میں اس کے علاج کی سہولت موجود ہے، سی ایچ ڈی کے مریضوں کو زندہ رہنے کے لیے جلد تشخیص کرنے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی بہت کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سی ایچ ڈی اس وقت ہوتا ہے جب دوران حمل غیر مناسب غذا متوازی اور غیر مناسب غذا ملنے کی وجہ سے بچوں کو یہ مرض لاحق ہوتا ہے انھوں نے کہا کہ اگر بروقت پتہ لگ جائے تو بہت سے بچوں کو بچایا جاسکتا ہے انھوں نے کہا کہ سندھ بھر کے اضلاع میں بچوں کے دل کے امراض کے اسپتال ہونے چاہئیں۔
این آئی سی وی ڈی میں پوتے کی سرجری کا نمبر6 ماہ بعد آیا تھا، تسلیم جتوئی
میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے خاندان کے سربراہ تسلیم جتوئی نے بتایا کہ ان کے 2 سالہ پوتے کو دل میں سوراخ کی بیماری کا علم 2 سال بعد ہوا تھا جب بار بار سینے میں انفیکشن کی وجہ سے بیمار ہوتا اور روتے وقت سانس روک لیتا تھا ڈاکٹروں نے تشخیص کے بعد بتایا کہ اس کے دل میں پیدائشی سوراخ ہے اس بیماری کا علاج میرپور خاص میں نہیں تھا، این آئی سی وی ڈی لے کر آئے جہاں اس کا کامیاب آپریشن ہوا لیکن اسپتال میں یہ صورتحال دیکھنے میں آئی کہ اسپتال میں بچوں میں دل کے امراض بہت زیادہ ہیں اور سہولیات ناکافی ہیں میرے پوتے کا آپریشن 6 ماہ کے طویل انتظار کے بعد ہوا جو کامیاب رہا، خاتون فہمیدہ نے بتایا کہ ان کی بچی کے پیدائشی طور پر دل کے وال میں نقص تھا، نجی اسپتال میں اس کا علاج کرایا گیا جس پر تقریبا 7 لاکھ روپے سے زائد اخراجات آئے۔