عیدالفطر کی روایتی خوشیاں کیوں دم توڑ رہی ہیں
سماجی رویے، مہنگائی، اخلاقی گراوٹ، سہل پسندی اور جدید ٹیکنالوجی نے دوریاں بڑھا دیں
عید وہ مذہبی تہوار ہے، جس کی آمد پر پورا عالم اسلام خوشیوں، مسکراہٹوں اور مسرتوں سے جگمگا اُٹھتا ہے۔ عید عربی زبان کا لفظ ہے، جو عود سے مُشتق ہے۔
عید کا لغوی معنی تو کسی چیز کا بار بار آنا لیکن اصطلاحی معنی نہایت خوشی ہے۔ یعنی رمضان المبارک کے روزوں، نزول قرآن، لیلۃ القدر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی منادیوں کے باعث عید کو مومنین کے لئے ''خوشی کا دن قرار'' دیا گیا ہے۔
عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے، جس کے انتظار میں بھی ایک لطف ہوتا ہے اور اس لطف کو تہنیتی پیغامات کے ذریعے دوسروں کے ساتھ شیئر بھی کیا جاتا ہے۔ اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں اور مرد حضرات عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں، جہاں وہ شکرانہ کے طور پر دو رکعت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز عید کے بعد عید ملنے اور مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
لوگ ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں، پھر کھاؤ اور کھلاؤ کا دور شروع ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہے، تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بنا کر مہمانوں اوردیگر احباب واقارب کی ضیافت کرتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، یہاں ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے...... لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عید سے منسلک کچھ روایات، رجحانات اور چیزیں تبدیل ہوئیں تو کچھ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر کر ترقی کرتی چلی آ رہی ہیں۔
عید یوں تو مجموعی طور پر ہر عمر اور صنف کے افراد کے لئے خوشیوں سے بھرا تہوار ہے، لیکن بچوں اور خواتین کی خوشی تو خصوصاً دیدنی ہوتی ہے۔ اس پُرمسرت موقع پر کوئی خاتون مہندی نہ لگائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ شائد اسے عید کی خوشی ہی نہیں ہوئی۔ یوں مہندی عید کے موقع پر خوشی کا خاص استعارہ بن چکی ہے۔ مہندی کا پودا اپنے سرخ رنگ اورطبی خوبیوں کی وجہ سے قدیم زمانے سے برصغیر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
مہندی کی تاریخ 5000 سال قبل مصر سے شروع ہوتی ہے۔ قدیم مصری اس عقیدے کے ساتھ فرعون کی ممی بناتے وقت نعش کے ہاتھوں اور ناخن پر مہندی لگاتے تھے کہ موت کے بعد ان کی شناخت بطور فرعون ہوسکے۔ جبکہ قدیم زمانے میں عرب کے علاقوں میں مہندی کی پتیوں سے کپڑے کو خوشبودار بنانے کے لئے رنگا جاتا ہے۔ مہندی کی بے پناہ خصوصیات کی بناء پر عرب میں اسے ''سید الریحان'' یعنی خوشبودار پودوں کا سردار کہا گیا ہے۔
خاص طور پر دمشق کے باریک کپڑے مہندی سے رنگے جاتے تھے۔ مغل بادشاہوں نے پہلی بار برصغیر میں مہندی کو بارہویں صدی میں متعارف کروایا۔ اس وقت صرف ملکہ، شہزادیاں اور امیر خواتین ہی مہندی لگاتی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مہندی کا رواج عام ہوگیا۔ ہمارے ہاں پنجاب میں سب سے زیادہ مہندی بھیرہ اور میلسی جبکہ سندھ میں سب سے زیادہ مہندی نواب شاہ میں کاشت ہوتی ہے۔ مہندی سے ہاتھوں اور پیروں پر نہ صرف دیدہ زیب ڈیزائن بنائے جاتے ہیں بلکہ یہ اسلامی نقطہ نگاہ سے خواتین کے لئے کارِ ثواب بھی ہے۔
زمانہ قدیم میں مہندی کے پتوں کو گھروں میں رگڑ کر استعمال کیا جاتا تھا، پھر زمانے نے کروٹ بدلی تو اس کا پاؤڈر استعمال کیا جانے لگا، آج دنیا اس پاؤڈر کو پانی میں مکس کرکے استعمال کرنے کی مشقت سے بھی آزاد ہو چکی ہے کیوں کہ اب بنی بنائی مہندی ''کون'' اور دیگر اشکال میں موجود ہے، جو خواتین براہ راست ہاتھوں اور بازوؤں پر ڈیزائننگ کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
خواتین کے لئے چوڑیوں کے بغیر عید کی تیاری ادھوری تصور کی جاتی ہے، جس کی واضح دلیل چاند رات میں چوڑیوں کے اسٹالز پر خواتین کا بے پناہ رش دکھائی دینا ہے۔ چوڑیوں کی سریلی کھنک کانوں کو مسرت کا احساس دلاتی ہے۔ پہلے زمانے میں عورتیں تانبے کی چوڑیاں استعمال کرتی تھیں، پھر سی شیل ، تانبہ، سونا، سمندری سیپی ، کاشی، سفیہ قیمتی دھات اور موتی کی بھی چوڑیاں بنائی جانے لگیں۔
چوڑیاں بنانا اور پہننا وہ قدیم رواج ہے، جو آج بھی زور و شور سے موجود ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ چوڑیاں بنانے کے میٹریل میں تبدیلیاں ضرور رونما ہوتی رہی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے چوڑیوں کا رجحان اور رواج موئن جو دڑو سے (2600-BC) میں شروع ہوا، اس کے بعد انڈیا سے تانبے کی چوڑیاں بننا شروع ہوئیں۔ پاکستان میں چوڑیوں کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ مشہور چوڑیاں حیدرآباد (سندھ) کی ہیں ، حیدرآبادی چوڑیوں کا ڈیزائن اور بنانے میں جو محنت درکار ہوتی ہے وہ قابل دید ہے، حیدرآباد کی چوڑیاں اپنے خوبصورت ڈیزائن کی وجہ سے ملک بھر میں شہرت رکھتی ہیں۔
مسلمانوں کے خاص تہوار کی مناسبت سے مہندی اور چوڑیوں کے رجحانات میں تو وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی اور ترقی کا عمل کارفرما رہا، لیکن عید کے موقع پر کچھ روایات ایسی بھی ہیں، جو معدوم ہوتی جا رہی ہیں، جیسے آج سے لگ بھگ 25 سال قبل تک عید کارڈز کے ذریعے اپنے عزیزواقارب کے ساتھ جس خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا، آج وہ قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ دوستوں، رشتہ داروں اور اساتذہ وغیرہ کے لئے عیدکارڈز کی خریداری کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔
پہلے پہل سادہ، پھر رنگ برنگے اور بعدازاں کاغذ کے عید کارڈز میں الیکٹرانک ڈیوائسز والے عید کارڈز محبت کی شدت کا احساس دلاتے تھے، لیکن آج موبائل فون کے ذریعے ''فاروڈ'' ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پیغام بھیج کر اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے۔ کبھی زمانہ تھا جب عام دنوں میں کیا عید پر بھی کپڑوں کی سلائی گھروں پر ہوتی تھی، جس میں مردانہ کپڑے بھی شامل ہوتے تھے۔ کپڑوں کی سلائی کے لئے گھر میں موجود ماں، بہن اور بیوی کو ایک خاص مقام حاصل ہوا کرتا تھا لیکن آج پیشہ ور درزیوں کے سلے کپڑوں سے بھی بات آگے نکل چکی ہے، آج کی نوجوان نسل برینڈڈ کپڑوں کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ نئے کپڑوں کے ساتھ پورے خاندان کا گروپ فوٹو آج ترجیحات میں شامل نہیں کیونکہ ہر جیب میں موبائل کی صورت ہر وقت کیمرہ موجود ہے۔
روز افزاں ترقی نے راستے سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھا دیئے ہیں، اب عید کے روز شہری مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج سے تین، چار دہائی قبل عید کے رنگ ہی نرالے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، بچوں کی عیدی کے لئے ضد، تحائف کا تبادلہ بھی اب کہیں کہیں ہی دیکھنے میں آتا ہے، جس کی ایک وجہ مہنگائی کو تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر سماجی رویوں نے ہمارے اطوار میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔
ہمارا اجتماعی خاندانی نظام زوال پذیر ہونے سے اب عید تہوار پر ہی خاندان اکٹھے ہو پاتے ہیں اوراس دوران بھی خاندان کے بیشتر نوجوان، بچے موبائل اور کمپیوٹر پر وقت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ بڑے، بوڑھے پرانے وقتوں کو یاد کرکے کڑھتے نظر آتے ہیں۔ بڑوں کے ذہنوں اور دلوں پر عید کے جو نقوش کندہ ہیں، موجود زمانے میں وہ اسے یاد کر کے صرف آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری روز چھتوں پر چڑھ کر مشترکہ طور پر چاند دیکھنے کی رسم بھی معدوم ہو چکی ہے، اب تو گھر والے اکٹھے ہو بھی جائیں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر باقاعدہ اعلان ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج دم توڑ گیا ہے۔
اس کے برعکس چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی سارا خاندان بازاروں کا رخ کرتا ہے تاکہ خریداری میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کرلیا جائے۔ ساری رات بازاروں میں گزارنے کے بعد گھر کے بیشتر افراد صبح سو جاتے ہیں اور محلہ یا شہر کی عید گاہ میں اکٹھے ہو کر نماز عید کی ادائیگی کے لئے جانے کی بجائے گھر میں نیند پوری کی جاتی ہے۔
بچوں کو عید پر ملنے والی عیدی سے جھولے لینا، کھلونے خریدنا، گول گپے، قلفیاں، چورن وغیرہ کھانا، تانگے کی سیر، کرائے پر سائیکل حاصل کرنا اور لاٹری نکالنے جیسے معصومانہ رجحانات ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی ان خوشگوار اور محبت بھری روایات کو پھر سے زندگی بخشنے کی کوشش کی جائے، جس کے لئے سب سے ضروری نکتہ ہمارا خود پر انحصار کرنے کے ساتھ اپنے اندر دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے، کیوںکہ اسی مشق سے ہم اپنی پھیکی پڑتی زندگی اور عیدوں میں دوبارہ سے رنگ بھر سکتے ہیں۔
عید کا لغوی معنی تو کسی چیز کا بار بار آنا لیکن اصطلاحی معنی نہایت خوشی ہے۔ یعنی رمضان المبارک کے روزوں، نزول قرآن، لیلۃ القدر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی منادیوں کے باعث عید کو مومنین کے لئے ''خوشی کا دن قرار'' دیا گیا ہے۔
عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے، جس کے انتظار میں بھی ایک لطف ہوتا ہے اور اس لطف کو تہنیتی پیغامات کے ذریعے دوسروں کے ساتھ شیئر بھی کیا جاتا ہے۔ اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں اور مرد حضرات عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں، جہاں وہ شکرانہ کے طور پر دو رکعت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز عید کے بعد عید ملنے اور مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
لوگ ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں، پھر کھاؤ اور کھلاؤ کا دور شروع ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہے، تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بنا کر مہمانوں اوردیگر احباب واقارب کی ضیافت کرتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، یہاں ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے...... لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عید سے منسلک کچھ روایات، رجحانات اور چیزیں تبدیل ہوئیں تو کچھ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر کر ترقی کرتی چلی آ رہی ہیں۔
عید یوں تو مجموعی طور پر ہر عمر اور صنف کے افراد کے لئے خوشیوں سے بھرا تہوار ہے، لیکن بچوں اور خواتین کی خوشی تو خصوصاً دیدنی ہوتی ہے۔ اس پُرمسرت موقع پر کوئی خاتون مہندی نہ لگائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ شائد اسے عید کی خوشی ہی نہیں ہوئی۔ یوں مہندی عید کے موقع پر خوشی کا خاص استعارہ بن چکی ہے۔ مہندی کا پودا اپنے سرخ رنگ اورطبی خوبیوں کی وجہ سے قدیم زمانے سے برصغیر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
مہندی کی تاریخ 5000 سال قبل مصر سے شروع ہوتی ہے۔ قدیم مصری اس عقیدے کے ساتھ فرعون کی ممی بناتے وقت نعش کے ہاتھوں اور ناخن پر مہندی لگاتے تھے کہ موت کے بعد ان کی شناخت بطور فرعون ہوسکے۔ جبکہ قدیم زمانے میں عرب کے علاقوں میں مہندی کی پتیوں سے کپڑے کو خوشبودار بنانے کے لئے رنگا جاتا ہے۔ مہندی کی بے پناہ خصوصیات کی بناء پر عرب میں اسے ''سید الریحان'' یعنی خوشبودار پودوں کا سردار کہا گیا ہے۔
خاص طور پر دمشق کے باریک کپڑے مہندی سے رنگے جاتے تھے۔ مغل بادشاہوں نے پہلی بار برصغیر میں مہندی کو بارہویں صدی میں متعارف کروایا۔ اس وقت صرف ملکہ، شہزادیاں اور امیر خواتین ہی مہندی لگاتی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مہندی کا رواج عام ہوگیا۔ ہمارے ہاں پنجاب میں سب سے زیادہ مہندی بھیرہ اور میلسی جبکہ سندھ میں سب سے زیادہ مہندی نواب شاہ میں کاشت ہوتی ہے۔ مہندی سے ہاتھوں اور پیروں پر نہ صرف دیدہ زیب ڈیزائن بنائے جاتے ہیں بلکہ یہ اسلامی نقطہ نگاہ سے خواتین کے لئے کارِ ثواب بھی ہے۔
زمانہ قدیم میں مہندی کے پتوں کو گھروں میں رگڑ کر استعمال کیا جاتا تھا، پھر زمانے نے کروٹ بدلی تو اس کا پاؤڈر استعمال کیا جانے لگا، آج دنیا اس پاؤڈر کو پانی میں مکس کرکے استعمال کرنے کی مشقت سے بھی آزاد ہو چکی ہے کیوں کہ اب بنی بنائی مہندی ''کون'' اور دیگر اشکال میں موجود ہے، جو خواتین براہ راست ہاتھوں اور بازوؤں پر ڈیزائننگ کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
خواتین کے لئے چوڑیوں کے بغیر عید کی تیاری ادھوری تصور کی جاتی ہے، جس کی واضح دلیل چاند رات میں چوڑیوں کے اسٹالز پر خواتین کا بے پناہ رش دکھائی دینا ہے۔ چوڑیوں کی سریلی کھنک کانوں کو مسرت کا احساس دلاتی ہے۔ پہلے زمانے میں عورتیں تانبے کی چوڑیاں استعمال کرتی تھیں، پھر سی شیل ، تانبہ، سونا، سمندری سیپی ، کاشی، سفیہ قیمتی دھات اور موتی کی بھی چوڑیاں بنائی جانے لگیں۔
چوڑیاں بنانا اور پہننا وہ قدیم رواج ہے، جو آج بھی زور و شور سے موجود ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ چوڑیاں بنانے کے میٹریل میں تبدیلیاں ضرور رونما ہوتی رہی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے چوڑیوں کا رجحان اور رواج موئن جو دڑو سے (2600-BC) میں شروع ہوا، اس کے بعد انڈیا سے تانبے کی چوڑیاں بننا شروع ہوئیں۔ پاکستان میں چوڑیوں کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ مشہور چوڑیاں حیدرآباد (سندھ) کی ہیں ، حیدرآبادی چوڑیوں کا ڈیزائن اور بنانے میں جو محنت درکار ہوتی ہے وہ قابل دید ہے، حیدرآباد کی چوڑیاں اپنے خوبصورت ڈیزائن کی وجہ سے ملک بھر میں شہرت رکھتی ہیں۔
مسلمانوں کے خاص تہوار کی مناسبت سے مہندی اور چوڑیوں کے رجحانات میں تو وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی اور ترقی کا عمل کارفرما رہا، لیکن عید کے موقع پر کچھ روایات ایسی بھی ہیں، جو معدوم ہوتی جا رہی ہیں، جیسے آج سے لگ بھگ 25 سال قبل تک عید کارڈز کے ذریعے اپنے عزیزواقارب کے ساتھ جس خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا، آج وہ قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ دوستوں، رشتہ داروں اور اساتذہ وغیرہ کے لئے عیدکارڈز کی خریداری کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔
پہلے پہل سادہ، پھر رنگ برنگے اور بعدازاں کاغذ کے عید کارڈز میں الیکٹرانک ڈیوائسز والے عید کارڈز محبت کی شدت کا احساس دلاتے تھے، لیکن آج موبائل فون کے ذریعے ''فاروڈ'' ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پیغام بھیج کر اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے۔ کبھی زمانہ تھا جب عام دنوں میں کیا عید پر بھی کپڑوں کی سلائی گھروں پر ہوتی تھی، جس میں مردانہ کپڑے بھی شامل ہوتے تھے۔ کپڑوں کی سلائی کے لئے گھر میں موجود ماں، بہن اور بیوی کو ایک خاص مقام حاصل ہوا کرتا تھا لیکن آج پیشہ ور درزیوں کے سلے کپڑوں سے بھی بات آگے نکل چکی ہے، آج کی نوجوان نسل برینڈڈ کپڑوں کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ نئے کپڑوں کے ساتھ پورے خاندان کا گروپ فوٹو آج ترجیحات میں شامل نہیں کیونکہ ہر جیب میں موبائل کی صورت ہر وقت کیمرہ موجود ہے۔
روز افزاں ترقی نے راستے سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھا دیئے ہیں، اب عید کے روز شہری مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج سے تین، چار دہائی قبل عید کے رنگ ہی نرالے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، بچوں کی عیدی کے لئے ضد، تحائف کا تبادلہ بھی اب کہیں کہیں ہی دیکھنے میں آتا ہے، جس کی ایک وجہ مہنگائی کو تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر سماجی رویوں نے ہمارے اطوار میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔
ہمارا اجتماعی خاندانی نظام زوال پذیر ہونے سے اب عید تہوار پر ہی خاندان اکٹھے ہو پاتے ہیں اوراس دوران بھی خاندان کے بیشتر نوجوان، بچے موبائل اور کمپیوٹر پر وقت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ بڑے، بوڑھے پرانے وقتوں کو یاد کرکے کڑھتے نظر آتے ہیں۔ بڑوں کے ذہنوں اور دلوں پر عید کے جو نقوش کندہ ہیں، موجود زمانے میں وہ اسے یاد کر کے صرف آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری روز چھتوں پر چڑھ کر مشترکہ طور پر چاند دیکھنے کی رسم بھی معدوم ہو چکی ہے، اب تو گھر والے اکٹھے ہو بھی جائیں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر باقاعدہ اعلان ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج دم توڑ گیا ہے۔
اس کے برعکس چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی سارا خاندان بازاروں کا رخ کرتا ہے تاکہ خریداری میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کرلیا جائے۔ ساری رات بازاروں میں گزارنے کے بعد گھر کے بیشتر افراد صبح سو جاتے ہیں اور محلہ یا شہر کی عید گاہ میں اکٹھے ہو کر نماز عید کی ادائیگی کے لئے جانے کی بجائے گھر میں نیند پوری کی جاتی ہے۔
بچوں کو عید پر ملنے والی عیدی سے جھولے لینا، کھلونے خریدنا، گول گپے، قلفیاں، چورن وغیرہ کھانا، تانگے کی سیر، کرائے پر سائیکل حاصل کرنا اور لاٹری نکالنے جیسے معصومانہ رجحانات ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی ان خوشگوار اور محبت بھری روایات کو پھر سے زندگی بخشنے کی کوشش کی جائے، جس کے لئے سب سے ضروری نکتہ ہمارا خود پر انحصار کرنے کے ساتھ اپنے اندر دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے، کیوںکہ اسی مشق سے ہم اپنی پھیکی پڑتی زندگی اور عیدوں میں دوبارہ سے رنگ بھر سکتے ہیں۔