بات کچھ اِدھر اُدھر کی کیا سائنس کی ترقی ہمارے خلاف ہے
جو طلبہ انگریزی مضمون میں فیل ہوجاتے ہیں وہ بقیہ مضامین میں کونسے تیر مارتے ہیں؟
KARACHI:
اِسے ایک قوم کی بدقسمتی نہیں تو کیا کہا جائے کہ جوپچھلے لگ بھگ ایک سو تیس سالوں سے حصولِ تعلیم کیلئے ایک زبان پر متفق نہ ہو سکے۔ جب ہندوؤں نے انگریزی تعلیم کی طرف توجہ دی تو ہم بحیثیتِ قوم انگریزی اور سائنسی تعلیم کے خلاف تھے۔ بعد میں جب ہندوؤں کو اُسی تعلیم کی وجہ سے سرکاری نوکریاں ملنے لگی تو باشعور مسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ پس مسلم زعماء نے انگریزی تعلیم کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنا شروع کر دیا۔ مسلم لیگ کی قیادت بھی اُسی شخص کو سونپی گئی جو فر فر انگریزی بول سکتاتھا۔ انگریزی کا اتنا اثر ہوا کہ پاکستان بننے کے بعد سرکاری زبان بھی انگریزی ہو گئی۔
پاکستان میں گاہے بگاہےیہ واویلا مچایا جاتا ہے کہ قومی زبان میں تعلیم حاصل کرکے جدید دنیا کے ساتھ شانہ بشانہ چلا جا سکتاہے۔ خدا کا خوف کرنا چاہئے کیسے عجیب عجیب مفروضات ہم لوگ گڑھ لیتے ہیں۔ ماہرینِ تعلیم کب یہ کہتے ہیں کہ قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے قومی ترقی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ وہاں مادری زبان کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہ بھی چند ابتدائی بنیادی سالوں کیلئے۔ اُردو تو اکثریت کی قومی زبان ہے بھی نہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اسی کی دہائی تک ایف اے تک کی تعلیم اُردو زبان میں تھی لیکن تب بھی ہم نے سائنسدانوں کی فوج تو تیار نہیں کی۔
تاریخ سے ناواقف لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے دوسری اقوام کی کتابوں کا ترجمہ کیا اور ترقی کی۔ خدا کی پناہ ۔ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ وہ دور مسلمانوں کے عروج کا تھا اور ایسی حالت میں کوئی قوم دوسری زبان سیکھتی نہیں بلکہ اپنی زبان کو مفتوحہ علاقوں میں ترویج دیتی ہے۔ یہ بھی تو بتاتا جائے کہ جب مسلمان کے عروج کا زمانہ تھاتو باقی اقوام مسلمانوں کی زبان سیکھ کر علم حاصل کرتے تھے۔
اُردو میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ پاکستانی طلباء کو بیرونی یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں ملے گا۔ ترقی یافتہ انگریزی زبان بولنے والے ممالک کے تعلیمی ویزے کیلئے تو انگریزی کے کافی مشکل امتحانات پاس کرنے ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کا تو پتہ نہیں کہ روزگار کے مواقع کب پیدا ہونگے لیکن اُردو میں تعلیم حاصل کرکے ہم بیرونی دنیا کے روزگار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ آج ایک صحافت کا طالب علم صحافت انگریزی میں پڑھ کر دنیا کے کسی بھی کونے میں روزگار کے مواقع سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور نہیں تو کسی یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں کسی طرح خود کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں یا پھر بیرونِ ملک کسی انگریزی اخبار میں بھی چھوٹی موٹی جاب حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ اُردو میں جرنلزم کی ڈگری لیکر صرف اُردو صحافت تک ہی محدود ہو کر رہ جائیں گے۔ ایسا ہی حال باقی مضامین کا ہوگا۔
آج عرب ممالک میں ہمارے ان پڑھ یا پھر کم تعلیم یافتہ مزدور کام کرنے جاتے ہیں تو جس کو تھوڑی بہت انگریزی بولنی یا لکھنی آتی ہے اُسے فوراََ سوپرویژن کا کام دے دیا جاتاہے کیونکہ وہ وہاں عربیوں اور مغربی ممالک کے باشندوں کے ساتھ با آسانی گفتگو کر سکتا ہے۔ اور اگر کمپیوٹر کا استعمال آتا ہے تو پھر دن بھر ائیر کنڈیشن کمروں میں سکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتاہے۔
اکثر یہ مثال دی جاتی ہے کہ انگریزی مضمون کی وجہ سے ستر فیصد طلباء فیل ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہی طلباء اسلامیات اور اُردو میں بھی بمشکل پاس ہوتے ہیں۔ انگریزی کے علاوہ باقی مضامین میں اُنہوں نے کونسے تیر مارے ہوتے ہیں۔ نالائق طلبا ء کے فیل ہونے کا مسئلہ صرف انگریزی پر ڈال کر ہم اُن کی نااہلی پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ میرا بیٹا اول جماعت میں پڑھتا ہے۔ انگریزی سکول ہونے کی وجہ سے اُردو پڑھائی میں دقت محسوس کرتا ہے لیکن انگریزی ایسے پڑھتا ہے جیسے ہم دسویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ ابتداء ہی سے اگر بچوں کو انگریزی تعلیم فراہم کی جائے تو یہ فیل ہونے کا مسئلہ بخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بھی قومی زبان کے ساتھ ساتھ ایک دوسری زبان پڑھائی جاتی ہے۔ مغربی ممالک کے لوگوں کے فیس بُک اکاونٹ دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ بچپن سے ہی دوسری زبانیں سیکھتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں ہم اگر انگریزی جو کہ آج سائنس کی زبان بھی ہے، نہیں سیکھیں گے تو کیا فارسی سیکھیں گے۔
یہ بڑا آسان ہے کہ چند ممالک کی یہ مثال دے دیں کہ وہاں انگریزی تعلیم نہیں لیکن ترقی کا دور دورہ ہے لیکن یہ بہت ہی مشکل ہے کہ قوم کو یہ بتایا جائے کہ جہاں بھی ترقی ہوئی ہے وہاں قدامت پرستی اور بنیاد پرستی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ جب تک ایسے موزی امراض ہمیں لاحق ہونگے کوئی بھی زبان تعلیم کیلئے منتخب کرلیں ترقی کرنا صرف ایک خواب ہوگا۔ جہاں میٹرک کے طلباء کو یہ کہہ کر ڈارون کا نظریہ نہ پڑھایا جائے کہ یہ اسلام کے خلاف ہے اور امتحان میں بھی نہیں آتا وہاں سائنسی ترقی کا سوچنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اِسے ایک قوم کی بدقسمتی نہیں تو کیا کہا جائے کہ جوپچھلے لگ بھگ ایک سو تیس سالوں سے حصولِ تعلیم کیلئے ایک زبان پر متفق نہ ہو سکے۔ جب ہندوؤں نے انگریزی تعلیم کی طرف توجہ دی تو ہم بحیثیتِ قوم انگریزی اور سائنسی تعلیم کے خلاف تھے۔ بعد میں جب ہندوؤں کو اُسی تعلیم کی وجہ سے سرکاری نوکریاں ملنے لگی تو باشعور مسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ پس مسلم زعماء نے انگریزی تعلیم کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنا شروع کر دیا۔ مسلم لیگ کی قیادت بھی اُسی شخص کو سونپی گئی جو فر فر انگریزی بول سکتاتھا۔ انگریزی کا اتنا اثر ہوا کہ پاکستان بننے کے بعد سرکاری زبان بھی انگریزی ہو گئی۔
پاکستان میں گاہے بگاہےیہ واویلا مچایا جاتا ہے کہ قومی زبان میں تعلیم حاصل کرکے جدید دنیا کے ساتھ شانہ بشانہ چلا جا سکتاہے۔ خدا کا خوف کرنا چاہئے کیسے عجیب عجیب مفروضات ہم لوگ گڑھ لیتے ہیں۔ ماہرینِ تعلیم کب یہ کہتے ہیں کہ قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے قومی ترقی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ وہاں مادری زبان کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہ بھی چند ابتدائی بنیادی سالوں کیلئے۔ اُردو تو اکثریت کی قومی زبان ہے بھی نہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اسی کی دہائی تک ایف اے تک کی تعلیم اُردو زبان میں تھی لیکن تب بھی ہم نے سائنسدانوں کی فوج تو تیار نہیں کی۔
تاریخ سے ناواقف لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے دوسری اقوام کی کتابوں کا ترجمہ کیا اور ترقی کی۔ خدا کی پناہ ۔ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ وہ دور مسلمانوں کے عروج کا تھا اور ایسی حالت میں کوئی قوم دوسری زبان سیکھتی نہیں بلکہ اپنی زبان کو مفتوحہ علاقوں میں ترویج دیتی ہے۔ یہ بھی تو بتاتا جائے کہ جب مسلمان کے عروج کا زمانہ تھاتو باقی اقوام مسلمانوں کی زبان سیکھ کر علم حاصل کرتے تھے۔
اُردو میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ پاکستانی طلباء کو بیرونی یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں ملے گا۔ ترقی یافتہ انگریزی زبان بولنے والے ممالک کے تعلیمی ویزے کیلئے تو انگریزی کے کافی مشکل امتحانات پاس کرنے ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کا تو پتہ نہیں کہ روزگار کے مواقع کب پیدا ہونگے لیکن اُردو میں تعلیم حاصل کرکے ہم بیرونی دنیا کے روزگار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ آج ایک صحافت کا طالب علم صحافت انگریزی میں پڑھ کر دنیا کے کسی بھی کونے میں روزگار کے مواقع سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور نہیں تو کسی یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں کسی طرح خود کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں یا پھر بیرونِ ملک کسی انگریزی اخبار میں بھی چھوٹی موٹی جاب حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ اُردو میں جرنلزم کی ڈگری لیکر صرف اُردو صحافت تک ہی محدود ہو کر رہ جائیں گے۔ ایسا ہی حال باقی مضامین کا ہوگا۔
آج عرب ممالک میں ہمارے ان پڑھ یا پھر کم تعلیم یافتہ مزدور کام کرنے جاتے ہیں تو جس کو تھوڑی بہت انگریزی بولنی یا لکھنی آتی ہے اُسے فوراََ سوپرویژن کا کام دے دیا جاتاہے کیونکہ وہ وہاں عربیوں اور مغربی ممالک کے باشندوں کے ساتھ با آسانی گفتگو کر سکتا ہے۔ اور اگر کمپیوٹر کا استعمال آتا ہے تو پھر دن بھر ائیر کنڈیشن کمروں میں سکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتاہے۔
اکثر یہ مثال دی جاتی ہے کہ انگریزی مضمون کی وجہ سے ستر فیصد طلباء فیل ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہی طلباء اسلامیات اور اُردو میں بھی بمشکل پاس ہوتے ہیں۔ انگریزی کے علاوہ باقی مضامین میں اُنہوں نے کونسے تیر مارے ہوتے ہیں۔ نالائق طلبا ء کے فیل ہونے کا مسئلہ صرف انگریزی پر ڈال کر ہم اُن کی نااہلی پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ میرا بیٹا اول جماعت میں پڑھتا ہے۔ انگریزی سکول ہونے کی وجہ سے اُردو پڑھائی میں دقت محسوس کرتا ہے لیکن انگریزی ایسے پڑھتا ہے جیسے ہم دسویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ ابتداء ہی سے اگر بچوں کو انگریزی تعلیم فراہم کی جائے تو یہ فیل ہونے کا مسئلہ بخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بھی قومی زبان کے ساتھ ساتھ ایک دوسری زبان پڑھائی جاتی ہے۔ مغربی ممالک کے لوگوں کے فیس بُک اکاونٹ دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ بچپن سے ہی دوسری زبانیں سیکھتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں ہم اگر انگریزی جو کہ آج سائنس کی زبان بھی ہے، نہیں سیکھیں گے تو کیا فارسی سیکھیں گے۔
یہ بڑا آسان ہے کہ چند ممالک کی یہ مثال دے دیں کہ وہاں انگریزی تعلیم نہیں لیکن ترقی کا دور دورہ ہے لیکن یہ بہت ہی مشکل ہے کہ قوم کو یہ بتایا جائے کہ جہاں بھی ترقی ہوئی ہے وہاں قدامت پرستی اور بنیاد پرستی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ جب تک ایسے موزی امراض ہمیں لاحق ہونگے کوئی بھی زبان تعلیم کیلئے منتخب کرلیں ترقی کرنا صرف ایک خواب ہوگا۔ جہاں میٹرک کے طلباء کو یہ کہہ کر ڈارون کا نظریہ نہ پڑھایا جائے کہ یہ اسلام کے خلاف ہے اور امتحان میں بھی نہیں آتا وہاں سائنسی ترقی کا سوچنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔