اسٹریٹ کرائمز ایم کیو ایم کا کراچی میں چوکیداری سسٹم بنانے کا اعلان
کراچی اور سندھ میں رینجرز کو یکساں اختیارات دیے جائیں، خواجہ اظہار الحسن
شہر قائد میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتوں پر ایم کیو ایم نے چوکیداری سسٹم بنانے کا اعلان کردیا۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینیٹر فیصل سبزواری نے ارکان صوبائی اسمبلی ہمراہ پاکستان ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا، ہم اعلان کرتے ہیں کہ محلہ چوکیداری سسٹم بنائیں گے، پہلے وزرائے داخلہ کی کراچی دوڑیں لگی رہتی تھیں، پیپلز پارٹی کے پاس 16 سال وزارت داخلہ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی کو ووٹ دوں یا نا دوں امن قائم کرنا وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے، ہم نے پولیس حکام اور ڈی جی رینجرز سے ملاقات کی ہے اور صدر سے بھی کریں گے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نا کریں سنجیدگی دکھائیں، کوئی سلطان راہی نا بنے کہ یہ نہیں کروں گا وہ نہیں کروں گا، آپ نیبرہڈ سیکیورٹی سسٹم نہیں بنائیں گے تو ایم کیو ایم بنائے گی، کوئی روک سکے تو روک لے۔
اُنہوں نے کہا کہ آپ پورے سندھ کے وزیرِ داخلہ ہیں کسی سیاسی شخصیت کے کوآرڈینیٹر نہیں، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کراچی بے امنی کیس لگائیں، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب آپ تمام اداروں کو بلائیں اور ان سے پوچھیں، اسٹریٹ کرائم اب انڈسٹری بن چکی ہے، پولیس عیدی کلیکشن کیلئے نہیں، جرائم پیشہ عناصر کو لگام ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اپنی کامیابی کے خمار سے باہر نہیں آ رہی، رمضان میں ڈکیتی مزاحمت پر بہت سے شہریوں کو قتل کیا گیا۔ کراچی میں اربوں روپے کے موبائل فون چھینے جاتے ہیں، لنجار صاحب وزیرِ داخلہ ضرور بنیں لیکن رویہ درست کرنا ہو گا، سندھ میں امن و امان کی صورتِ حال ٹھیک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ داخلہ صاحب منہ کھولنے سے پہلے آنکھیں کھولیں، آپ پر بھاری ذمے داری ہے خود کو اہل بنائیں، پولیس کی کالی بھیڑوں کے بغیر جرائم نہیں ہو سکتے، ایرانی ڈیزل سے اربوں روپے کے چوری شدہ فون کی مارکیٹ میں پولیس شامل نہیں؟ کراچی والوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اس کی مثال نہیں، سندھ حکومت کی عوام پر توجہ ہی نہیں ہے۔
انہوں کہا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے پوری انتظامیہ کو بلایا، آئی جی سندھ پہلے بھی آئی جی رہ چکے ہیں۔ پولیس کی معاونت کے بغیر کوئی بھی جرم کا اڈا نہیں چل سکتا، مڈل کلاس علاقوں میں پولیس کی پٹرولنگ بڑھائیں۔
اس موقع پر رکن قومی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن نے کہا ہے کہ مبارک ہو آپ کا من پسند آئی جی آگیا، لگتا ہے کچے کے ڈاکوؤں میں خوشی دوڑ گئی ہے، کراچی میں رینجرز کو مکمل اختیارات ہیں باقی سندھ میں نہیں، کراچی اور سندھ میں رینجرز کو یکساں اختیارات دیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک آئی جی کے ہوتے ہوئے کہا گیا من پسند آئی جی نہ آیا تو امن و امان کا مسئلہ ہوگا، سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو بلیک میل کر کے اپنی مرضی کا آئی جی لگوایا۔ کراچی تا کشمور کچے اور پکے کے ڈاکوؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، منتخب حکومت آتے ہی ملزمان لوگوں کو کچھ ہزار کے موبائل کے لیے مار رہے ہیں۔ لگتا ہے ان ڈاکوؤں کو 'لائسنس ٹو کل' دے دیا گیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینیٹر فیصل سبزواری نے ارکان صوبائی اسمبلی ہمراہ پاکستان ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا، ہم اعلان کرتے ہیں کہ محلہ چوکیداری سسٹم بنائیں گے، پہلے وزرائے داخلہ کی کراچی دوڑیں لگی رہتی تھیں، پیپلز پارٹی کے پاس 16 سال وزارت داخلہ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی کو ووٹ دوں یا نا دوں امن قائم کرنا وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے، ہم نے پولیس حکام اور ڈی جی رینجرز سے ملاقات کی ہے اور صدر سے بھی کریں گے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نا کریں سنجیدگی دکھائیں، کوئی سلطان راہی نا بنے کہ یہ نہیں کروں گا وہ نہیں کروں گا، آپ نیبرہڈ سیکیورٹی سسٹم نہیں بنائیں گے تو ایم کیو ایم بنائے گی، کوئی روک سکے تو روک لے۔
اُنہوں نے کہا کہ آپ پورے سندھ کے وزیرِ داخلہ ہیں کسی سیاسی شخصیت کے کوآرڈینیٹر نہیں، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کراچی بے امنی کیس لگائیں، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب آپ تمام اداروں کو بلائیں اور ان سے پوچھیں، اسٹریٹ کرائم اب انڈسٹری بن چکی ہے، پولیس عیدی کلیکشن کیلئے نہیں، جرائم پیشہ عناصر کو لگام ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اپنی کامیابی کے خمار سے باہر نہیں آ رہی، رمضان میں ڈکیتی مزاحمت پر بہت سے شہریوں کو قتل کیا گیا۔ کراچی میں اربوں روپے کے موبائل فون چھینے جاتے ہیں، لنجار صاحب وزیرِ داخلہ ضرور بنیں لیکن رویہ درست کرنا ہو گا، سندھ میں امن و امان کی صورتِ حال ٹھیک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ داخلہ صاحب منہ کھولنے سے پہلے آنکھیں کھولیں، آپ پر بھاری ذمے داری ہے خود کو اہل بنائیں، پولیس کی کالی بھیڑوں کے بغیر جرائم نہیں ہو سکتے، ایرانی ڈیزل سے اربوں روپے کے چوری شدہ فون کی مارکیٹ میں پولیس شامل نہیں؟ کراچی والوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اس کی مثال نہیں، سندھ حکومت کی عوام پر توجہ ہی نہیں ہے۔
انہوں کہا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے پوری انتظامیہ کو بلایا، آئی جی سندھ پہلے بھی آئی جی رہ چکے ہیں۔ پولیس کی معاونت کے بغیر کوئی بھی جرم کا اڈا نہیں چل سکتا، مڈل کلاس علاقوں میں پولیس کی پٹرولنگ بڑھائیں۔
اس موقع پر رکن قومی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن نے کہا ہے کہ مبارک ہو آپ کا من پسند آئی جی آگیا، لگتا ہے کچے کے ڈاکوؤں میں خوشی دوڑ گئی ہے، کراچی میں رینجرز کو مکمل اختیارات ہیں باقی سندھ میں نہیں، کراچی اور سندھ میں رینجرز کو یکساں اختیارات دیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک آئی جی کے ہوتے ہوئے کہا گیا من پسند آئی جی نہ آیا تو امن و امان کا مسئلہ ہوگا، سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو بلیک میل کر کے اپنی مرضی کا آئی جی لگوایا۔ کراچی تا کشمور کچے اور پکے کے ڈاکوؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، منتخب حکومت آتے ہی ملزمان لوگوں کو کچھ ہزار کے موبائل کے لیے مار رہے ہیں۔ لگتا ہے ان ڈاکوؤں کو 'لائسنس ٹو کل' دے دیا گیا ہے۔