کوچۂ سخن

بچپن دکھائی دیتا ہے عہدِ شباب میں<br /> ہر رات دیکھتا ہوں کھلونے میں خواب میں

فوٹو: فائل

غزل
بچپن دکھائی دیتا ہے عہدِ شباب میں
ہر رات دیکھتا ہوں کھلونے میں خواب میں
دھرتی کے سب حسیں ہیں اِسی پر فریفتہ
جانے خدا نے رکھا ہے کیا کیا گلاب میں
یہ بھی تو بے بسی ہے کسی لکھنے والے کی
غم کھلکھلا رہے ہیں غزل کی کتاب میں
سارے حسین لمحے فقط آپ کے لیے
میں نے بچا کے رکھ دیے فرصت کے باب میں
اچھا تو پھر سنو جو ہوا ہے تمہارے بعد
آنسو ملا کے میں نے پیے ہیں شراب میں
(اسد رضا سحر۔ جھنگ)


غزل
آئینے نے یہ کیا دکھایا مجھے
اپنا چہرہ لگا پرایا مجھے
تیرے ابرو کی ایک جنبش نے
تین سو ساٹھ پر گھمایا مجھے
ساری دنیا سے ہائے روٹھا رہا
تُو نے جب تک نہیں منایا مجھے
میرے ہمدرد تیرے جانے کے بعد
زندگی نے بڑا ستایا مجھے
روح تک دل فریب اتری مٹھاس
کس کے ہونٹوں نے گنگنایا مجھے
اے خوشی کے سفیر یہ مت پوچھ
غم کدہ کیسے راس آیا مجھے
ضبط ٹوٹا رواں ہوئے مرے اشک
جب کسی نے گلے لگایا مجھے
میں تو مدّت سے سو رہا تھا مگر
آپ نے کس لیے جگایا مجھے
زندگی کے عروج پر طاہرؔ
خلق کا احترام لایا مجھے
(طاہر ہاشمی۔ لاہور)


غزل
رہ گیا دنیا میں وہ بن کر تماشا عمر بھر
جس نے اپنی زندگی کو کھیل سمجھا عمر بھر
تم امیرِ شہر کے گھر کو جلا کر دیکھنا
گھر میں ہو جائے گا مفلس کے اجالا عمر بھر
ایسا لگتا ہے کہ اب وہ قبر تک جائے گی ساتھ
دل کے خانوں میں نہاں تھی جو تمنا عمر بھر
قرض میری قوم وہ کیسے چکائے گی بھلا
سود خود کو بیچ کر جس کا اتار عمر بھر
جانتا ہوں مجھ کو ڈس لے گا وہ مار آستیں
جس کو اپنا خوں پلا کر میں نے پالا عمر بھر
زندگی نعمت تھی جس کو پا کے تم خوش تھے صبیحؔ
اب کہو کیا زندگی سے تم نے پایا عمر بھر
(صبیح الدین شعیبی۔ کراچی)


غزل
دستک کی چاہ لے کے یہاں سے گزر نہیں
میں وہ مکاں ہوں جس کے کوئی بام و در نہیں
اُس کی تلاش میں ہے تُو پھرتا یہاں وہاں؟
جا ڈھونڈ اس کو دل میں، یہاں پر ثمرؔ نہیں
پہلو میں اس کے میں نہیں، مطلب مقیم تھا
میں آیا، میں گیا، اسے کوئی خبر نہیں
باغوں کو چھوڑ کر ہوں میں صحرا کو چل پڑا
صحرا کے اس سفر میں کوئی ہم سفر نہیں
محسوس ہو رہی ہے اسی شخص کی کمی
جو تھا تو میرے ساتھ مگر اب اِدھر نہیں
یہ وقت بھی درست ہے موقع درست ہے
اظہار کر بھی دے، ارے اب تو مُکر نہیں
جس شخص کی توجہ کا مرکز میں تھا کبھی
وہ شخص میرے حال سے اب باخبر نہیں
باتوں میں اس کی آ ہی گئے ہو ثمرؔ جمال
وہ ظاہراً تو اچھا ہے، دل کا مگر نہیں
(ثمرؔ جمال۔ جھنگ)


غزل
ہم جو دستِ طلب کے مارے ہیں
ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
ہم طلب گار تھے کبھی ان کے
یہ جو روشن فلک پہ تارے ہیں
بھری دنیا میں کس طرح تنہا
پوچھ مت میں نے دن گزارے ہیں
سانس لیتے ہیں اب فقط یہ لوگ
عشق میں زندگی جو ہارے ہیں
اک طرف ہے بلاؔل قاسم زیست
زیست کے اک طرف خسارے ہیں
(بلال قاسم ۔مانسہرہ)


غزل
رنگ اڑاتا ہے بہت قصۂ شب آگ کے پاس
ناچتے رہتے ہیں کردار بھی سب آگ کے پاس
سرخیٔ جاں کو بہت زرد کیے دیتا ہے
جو ہے اک شعلۂ امکانِ طلب آگ کے پاس
چار عناصر کو یہ تخمیس کیے دیتی ہے
اک کہانی کہ بنی جاتی ہے جب آگ کے پاس
تم پگھل جاؤ گے اے موم کے محسن شہزادؔ
کیوں لیے جاتا ہے یہ خوابِ طرب آگ کے پاس
(محسن شہزاد۔لالہ موسیٰ)


غزل
ضروری کام تھا،کرنا بہت ضروری تھا
کسی کے دل میں اترنا بہت ضروری تھا


لُبِ لباب کہانی کا تھا مرا کردار
پر اس کہانی میں مرنا بہت ضروری تھا
وگرنہ سیلِ رواں کاٹ کھاتا اندر سے
بدن میں آنکھ کا جھرنا بہت ضروری تھا
جمود ہوتا مقدر وگرنہ پانی کا
ترا ندی سے گزرنا بہت ضروری تھا
بچھڑ کے میں نے بہت دیر بعد سوچا تو
مجھے لگا کہ بچھڑنا بہت ضروری تھا
حصارِ ذات سے باہر نکلنے والے کا
حصارِ ذات میں مرنا بہت ضروری تھا
منافقت کا یہ چہرہ نظر نہ آتا سو
کسی کا حق سے مکرنا بہت ضروری تھا
(سفیر نوتکی ۔نوتک، بھکر)


غزل
کسی کی یاد میں دن بھر تڑپتا عشق رہتا ہے
میرے دل کے جزیروں پر مچلتا عشق رہتا ہے
کوئی تجویز دیں مرشد مجھے باہر نکلنا ہے
میرے اندر کی دنیا میں بھٹکتا عشق رہتا ہے
میری فریاد لے جائے کوئی آقاﷺ کی چوکھٹ تک
مدینے کی فضاؤں کو ترستا عشق رہتا ہے
عجب بے کیف موسم کی فراوانی ہے سینے میں
دھواں دیتی نہیں لکڑی، سلگتا عشق رہتا ہے
جسے معروف دنیا سے غلامی ختم کرنی تھی
وہ خود اب قیدخانے میں چلاتا عشق رہتا ہے
( معروف شاہ۔ا سکردو)


غزل
تمہارے ہجر کے ماتم کے واسطے نکلے
جگر کو چیر کے اشکوں کے قافلے نکلے
کِیا ہے بے رخی نے اس قدر نڈھال ہمیں
کہ تیری بزم سے ہم دل کو تھامتے نکلے
مرے جنازے کو کاندھا تو آکے دے جانا
میں چاہتا ہوں جنازہ تو شان سے نکلے
دل ان کے پاؤں میں رکھا کہ وہ نہ جائیں، پر
ستم شعار مرے دل کو روندتے نکلے
وہ مجھ سے ملنے تھے آئے، بنا ملے ہی گئے
یہی گماں ہے مجھے کیا وہ سوچتے نکلے؟
(احمد ابصار۔ لاڑکانہ)


غزل
قتل ہونے کو سزا وار گرے تو کیا ہو
اور ترے ہاتھ سے تلوار گرے تو کیا ہو
ہم زمیں زادے مرے ہیں تو فقط غیرت پر
حق پرستوں کی جو دستار گرے تو کیا ہو
وہ جو پی کر بھی کبھی بہکا نہ ہو، ایسا رند
تیری آنکھوں سے مرے یار گرے تو کیا ہو
وہ مرے پاؤں پڑا ہے کہ منا لے گا مجھے
لیک دیوار پہ دیوار گرے تو کیا ہو
عشق کی ناؤ پہ بیٹھا ہے ترا دیوانہ
ناگہاں اس کی جو پتوار گرے تو کیا ہو
(علی مان اذفر۔ مریدکے، شیخوپورہ)


''انجماد''
ہمارے درمیاں رسمی تعلق بھی
ہماری سرد مہری کی وجہ سے
دسمبر میں جمے کہرے کے مانند منجمد ہے
ہمارے درمیاں برفانی لہجوں کی تہیں جم کر چٹانیں بن گئی ہیں
کہ جن کی آتشیں جذبوں کی حدت سے بھی پگھلاہٹ نہیں ممکن
(شاہد شوق۔ اسلام آباد)


غزل
نقاب جونہی ہٹایا تو نور جلنے لگا
ہر اک پتنگا بھی پھر بے قصور جلنے لگا
کہا بھی تھا نہ کرو ضد حجاب رہنے دو
تجلّی ایک پڑی کوہِ طور جلنے لگا
گلاب لب، سے جو مے خانے میں اٹھا پردہ
پھر آگ مے کو لگی اور سرور جلنے لگا
بہار سا گلِ تازہ، وہ شبنمی چہرا
کہ اس کو دیکھ کے بیری کا بور جلنے لگا
بڑا غرور تھا ناصح کو حوروں، پریوں کا
جو دیکھا یار مرا، سب غرور جلنے لگا
میں اس کی آنکھوں تلک ٹھیک چل رہا تھا مگر
کیا ہے میں نے جب ان کو عبور، جلنے لگا
جو دیکھا طفل نما کو بلندیوں پہ فریدؔ
تو کج روش کا دماغِ فتور جلنے لگا
(فرید عشق زادہ۔بنگلہ گوگیرہ، اوکاڑہ)


غزل
بکے ہیں جب سے عدالت کے قائدین سبھی
قسم خدا کی پریشاں ہیں شاہدین سبھی
ابھی بھی وقت ہے توبہ کرو سنبھل جاؤ
جلیں گے دیکھنا دوزخ میں مشرکین سبھی
وہ جن کے پاس میں اپنی لکھی غزل بھی نہیں
نشستیں پُر ہیں انہی سے تو اولین سبھی
ہمیں پتا ہے مگر پھر بھی ہم نہ جھٹکیں گے
بھری پڑی ہے سپولوں سے آستین سبھی
وہ جن کو نام سے شہرت سے بیر ہے میری
اکھٹے ہوگئے میرے مخالفین سبھی
لبادہ اوڑھ کے اپنائیت کا سب میری
مخالفت پہ اڑے ہیں منافقین سبھی
میں اپنا سچ یہاں ثانی ؔسناؤں اب کس کو
منافقین کا کرنے لگے یقین سبھی
(عمران ثانی بلڈانوی۔ مہاراشٹر، بھارت)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story