عید کی خوشیاں غارت ہو گئیں
عوام ایک بار پھر بلکتے رہ گئے ہیں۔ یوں ہم سب نے رمضان کے مسعود و مبارک ایام روتے دھوتے ہی گزارے ہیں
مہنگائی کے منہ زور اور بے لگام طوفان میں ماہِ صیام جس طرح گزرا ہے، اِس کا اندازہ وطنِ عزیز کے اکثریتی عوام ہی لگا سکتے ہیں جن کی کمر ٹوٹ گئی ہے ۔
اشرافیہ اور اُن کی آل اولادوں کو مگر ، ہمیشہ کی طرح، کوئی گزند پہنچا ہے نہ کوئی فکر لاحق رہی ۔اِس بالائی طبقہ کی سرکاری مراعات اور نجی مالی وسائل اسقدر زیادہ اور پُراسرار ہیں کہ ملک میں مہنگائی ، گرانی اور بے روزگاری کے کتنے ہی طوفان اُمنڈ آئیں، اِن کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا ۔ رواں رمضان شریف میں ہمارے تاجر طبقات کے دن بھی خوب گزرے ہیں۔ اشیائے خورونوش کے حسبِ منشا دام لگا کر۔ حکومت اِنہیں لگام ڈالنے میں ایک بار پھر ناکام رہی ہے ۔
عوام ایک بار پھر بلکتے رہ گئے ہیں۔ یوں ہم سب نے رمضان کے مسعود و مبارک ایام روتے دھوتے ہی گزارے ہیں ۔شنید ہے کہ رواں رمضان شریف میں مرکزی اور پنجاب حکومت نے عوام کا ساہ سوکھا نکلوانے کے لیے اربوں روپے کی سبسڈیاں بھی دی ہیں، مگر اکثریتی عوام کو پتہ ہی نہیں چل سکا ہے کہ یہ اربوں روپے کی سبسڈیاں کن کونوں کھدروں میںگم ہو گئیں!
اب عیدالفطر سر پر ہے ۔ غالباً ، 10 یا 11 اپریل 2024 کو عید ہوگی ۔ مگر بھلا کاہے کی عید؟جس طرح روزے گزرے ہیں، اِسی طرح عید کا دن بھی گزر جائے گا ۔ مگر یہ عید تو عوام کے لیے ایک اور قیامت میں گزر رہی ہے۔ ہماری نئی حکومت نے عید الفطر سے پہلے جس طرح یکدم بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کرکے نئے بم عوام پر گرائے ہیں، ایسے میں بلبلاتے عوام کی عید کی خوشیاں تو ویسے ہی غارت ہو کر رہ گئی ہیں۔
عید سے دس دن پہلے پٹرول کی قیمت میں دس روپے فی لٹر کا اضافہ کرکے دراصل شہباز حکومت نے بلکتے عوام کو ''عیدی'' دی ہے۔ پٹرول کی قیمت میں نئے کمر شکن اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آیا ہے۔ اب پٹرول تقریباً 300روپے فی لٹر مل رہا ہے۔ ابھی مزید اضافے کی ''نوید'' بھی سنائی جا رہی ہے۔عید کے موقع پر وہ پردیسی جو ملازمت اور محنت مزدوری کرنے کے لیے اپنے گھروں سے دُور شہروں سے واپس گھر آرہے ہیں، ٹرانسپورٹ کرایوں میں نئے اضافوں کے ساتھ وہ حکومت کے لیے دعائیں تو نہیں کررہے ہوں گے۔
عید سے پہلے پٹرول کی قیمت میں یہ جو نیا ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے، اِس نے ہر جانب کہرام برپا کررکھا ہے۔ اِس کہرام کی آہوں اور گرمیِ نفس سے حکمران اور حکومت بچ نہیں سکے گی ۔ فضاؤں میں موجود سنائی جانے والی ''نئی نوید'' کے مطابق پٹرول کی قیمت 400روپے فی لٹر تک پہنچنے والی ہے ۔ پھر منظر کیا ہوگا؟ پھر اِن حکمرانوں کو ویسے ہی عبرتناک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا جو ابھی حال ہی میں، 2اپریل2024 کو ، ترکیئے کے صدر ، جناب طیب ایردوان اور اُن کی پارٹی کا ہُوا ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری نے مل ملا کر ہر دلعزیز ایردوان کی مقبولیت کو ہوا میں اُڑا دیا ہے۔ وہ لوکل الیکشنز میں اپنے حریف ، جناب ایکرم اوگلو، سے ترکیئے کے ہر بڑے شہر میں شکست کھا گئے ہیں ۔ کیا ہماری مقتدر نون لیگی اشرافیہ کا بھی ، اگر اِن کے یہی طور اطوار رہے، کچھ ایسا ہی حشر ہونے والا ہے ؟
ابھی ہم عوام کالانعام پٹرول کی قیمت میں ہوشربا اضافے پر سینہ کوبی کر ہی رہے تھے کہ محترم المقام عزت مآب جناب شہباز شریف کی حکومت نے بجلی کے نرخوں میں بھی مزید اضافہ کر ڈالا ہے۔ یہ اضافہ دراصل عید الفطر سے قبل عوام کو حکومت کی جانب سے دوسرا بڑا جھٹکا ہے ۔ الیکٹرک شاک سے متاثرہ انسان کم ہی بچتا ہے ۔
اب دیکھتے ہیں بجلی کے نرخ مزید بڑھانے سے ہم عوام کس طرح جانبر رہتے ہیں؟ بجلی کے فی یونٹ میں پونے تین روپے مزید اضافہ کیا گیا ہے ۔ اور یوں حکومت اپنے اللے تللے پورے کرنے ، اشرافیہ کے ناز نخرے اُٹھانے اور بڑے سرکاری عہدیداروں کے خفی اخراجات کی مَد میں عوام کی جیب پر78ارب روپے کا نیا بوجھ ڈال کر ''سرخرو'' ہو گئی ہے ۔ ابھی تو آئی ایم ایف یہ کہہ کر ہمیں مزید ڈرا رہا ہے کہ اگر حکومتِ پاکستان نے معاشی اصلاحات نہ کیں تو بجلی مزید مہنگی کرنا پڑ ے گی۔
ہم عوام عید الفطر اِن حالوں اور فکروں میں گزاریں گے کہ آیا اُمنڈتے موسمِ گرما میں بجلی کا پنکھا بھی چلا سکیں گے ؟ ائر کنڈیشنر کی عیاشیاں تو اَب خواب ہو چکی ہیں ۔ البتہ بجلی چوروں اور مراعات یافتہ طبقات کو کوئی فکر اور پریشانی لاحق نہیں ہے ۔انھیں بجلی مفت مل رہی ہے ۔
عید الفطر سے پہلے حکومت نے گیس کی قیمتوں میں بھی کئی گنامزیداضافہ کر کے ہماری خوشیاں غارت کر دی ہیں۔ ایک ستم ظریف نے کہا ہے :''گیس قیمتوں میں کئی گنا نیا اضافہ کرکے حکومت دراصل عوام پر ایک طرح سے مہربانی ہی کررہی ہے ۔ عید پر مہنگی ترین گیس کے کارن نہ چولہے جلیں گے ، نہ بلز میں اضافہ ہوگا، نہ پریشانی ہوگی ۔ البتہ گیس چوروں کو یہاں بھی کوئی فکر نہیں ہے ۔
اور حکومت اتنی نااہل ہے کہ بجلی چوروں کو پکڑنے کے لیے کمر بستہ ہے نہ گیس چوروں پر ہاتھ ڈال رہی ہے ۔ ابھی 3اپریل 2024 کو ایک انگریزی معاصر نے یہ ہوشربا خبر دی ہے کہ ''زیریں دِیر(کے پی کے) میں محکمہ سوئی گیس (SNGPL) نے 4500میٹر لمبی ، زیر زمین، غیر قانونی گیس پائپ لائن پکڑی ہے۔
یہ پائپ لائن علاقے کے 440 گھروں کو غیر قانونی گیس فراہم کررہی تھی۔متعلقہ محکمے کے ریجنل مینیجر، عاکف احمد نور، نے یہ چھاپہ مارا ہے۔ چوری کی اِس پائپ لائن سے 36ملین کیوبک فیٹ گیس چوری کی جارہی تھی ۔''اور جو لوگ کروڑوں روپے کی یہ گیس ہر ماہ چوری کررہے تھے، انھیں پکڑا گیا ہے نہ440گھروں کو ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔ ہے ناں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عجب تماشے !جب چور ، چوروں سے مل جائیں تو کیسی عید کی خوشیاں؟
عید الفطر سے تقریباًدس روز قبل، 31مارچ 2024کو، گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے جن 51ملزمان کو پانچ پانچ سال کی سزائے قید اور دس، دس ہزار روپے کاجرمانہ سنایا ہے۔ یہ 51ملزمان ، جو اَب سزایافتگی کے بعد مجرم بن چکے ہیں، وہ ہیں جو9مئی کے معروف سانحہ میں مبینہ طور پر ملوث پائے گئے ہیں۔ سزا کے بعد چار درجن سے زائد اِن مجرمان کے اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب کی عید صحیح معنوں میں اُجڑ گئی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کی خاتون جج صاحبہ نے یہ فیصلہ جرأت و دلاوری سے سنایا ہے۔ 9مئی کے کیسز میں گرفتار شدگان ابھی بہت سے دیگر بھی اپنے فیصلے سنائے جانے کے منتظر ہیں ۔ کاش، یہ سانحہ وقوع پذیر نہ ہوتا جو اقوامِ عالم میں ہماری جگ ہنسائی کا موجب بھی بنا ہے ۔ حیرانی کی مگر بات یہ ہے کہ جس کے مبینہ اشارے یا شہ یا منصوبے سے اِن افراد نے 9مئی کی قیامت برپا کی، وہ تو پسِ دیوار ِ زنداں بیٹھا دیسی گھی میں پکی دیسی مرغیاں کھا رہا ہے اور غریب کارکن مفت میں تلے گئے ہیں ۔ ان سب کی عید خراب ہو گئی ہے ۔
اشرافیہ اور اُن کی آل اولادوں کو مگر ، ہمیشہ کی طرح، کوئی گزند پہنچا ہے نہ کوئی فکر لاحق رہی ۔اِس بالائی طبقہ کی سرکاری مراعات اور نجی مالی وسائل اسقدر زیادہ اور پُراسرار ہیں کہ ملک میں مہنگائی ، گرانی اور بے روزگاری کے کتنے ہی طوفان اُمنڈ آئیں، اِن کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا ۔ رواں رمضان شریف میں ہمارے تاجر طبقات کے دن بھی خوب گزرے ہیں۔ اشیائے خورونوش کے حسبِ منشا دام لگا کر۔ حکومت اِنہیں لگام ڈالنے میں ایک بار پھر ناکام رہی ہے ۔
عوام ایک بار پھر بلکتے رہ گئے ہیں۔ یوں ہم سب نے رمضان کے مسعود و مبارک ایام روتے دھوتے ہی گزارے ہیں ۔شنید ہے کہ رواں رمضان شریف میں مرکزی اور پنجاب حکومت نے عوام کا ساہ سوکھا نکلوانے کے لیے اربوں روپے کی سبسڈیاں بھی دی ہیں، مگر اکثریتی عوام کو پتہ ہی نہیں چل سکا ہے کہ یہ اربوں روپے کی سبسڈیاں کن کونوں کھدروں میںگم ہو گئیں!
اب عیدالفطر سر پر ہے ۔ غالباً ، 10 یا 11 اپریل 2024 کو عید ہوگی ۔ مگر بھلا کاہے کی عید؟جس طرح روزے گزرے ہیں، اِسی طرح عید کا دن بھی گزر جائے گا ۔ مگر یہ عید تو عوام کے لیے ایک اور قیامت میں گزر رہی ہے۔ ہماری نئی حکومت نے عید الفطر سے پہلے جس طرح یکدم بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کرکے نئے بم عوام پر گرائے ہیں، ایسے میں بلبلاتے عوام کی عید کی خوشیاں تو ویسے ہی غارت ہو کر رہ گئی ہیں۔
عید سے دس دن پہلے پٹرول کی قیمت میں دس روپے فی لٹر کا اضافہ کرکے دراصل شہباز حکومت نے بلکتے عوام کو ''عیدی'' دی ہے۔ پٹرول کی قیمت میں نئے کمر شکن اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آیا ہے۔ اب پٹرول تقریباً 300روپے فی لٹر مل رہا ہے۔ ابھی مزید اضافے کی ''نوید'' بھی سنائی جا رہی ہے۔عید کے موقع پر وہ پردیسی جو ملازمت اور محنت مزدوری کرنے کے لیے اپنے گھروں سے دُور شہروں سے واپس گھر آرہے ہیں، ٹرانسپورٹ کرایوں میں نئے اضافوں کے ساتھ وہ حکومت کے لیے دعائیں تو نہیں کررہے ہوں گے۔
عید سے پہلے پٹرول کی قیمت میں یہ جو نیا ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے، اِس نے ہر جانب کہرام برپا کررکھا ہے۔ اِس کہرام کی آہوں اور گرمیِ نفس سے حکمران اور حکومت بچ نہیں سکے گی ۔ فضاؤں میں موجود سنائی جانے والی ''نئی نوید'' کے مطابق پٹرول کی قیمت 400روپے فی لٹر تک پہنچنے والی ہے ۔ پھر منظر کیا ہوگا؟ پھر اِن حکمرانوں کو ویسے ہی عبرتناک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا جو ابھی حال ہی میں، 2اپریل2024 کو ، ترکیئے کے صدر ، جناب طیب ایردوان اور اُن کی پارٹی کا ہُوا ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری نے مل ملا کر ہر دلعزیز ایردوان کی مقبولیت کو ہوا میں اُڑا دیا ہے۔ وہ لوکل الیکشنز میں اپنے حریف ، جناب ایکرم اوگلو، سے ترکیئے کے ہر بڑے شہر میں شکست کھا گئے ہیں ۔ کیا ہماری مقتدر نون لیگی اشرافیہ کا بھی ، اگر اِن کے یہی طور اطوار رہے، کچھ ایسا ہی حشر ہونے والا ہے ؟
ابھی ہم عوام کالانعام پٹرول کی قیمت میں ہوشربا اضافے پر سینہ کوبی کر ہی رہے تھے کہ محترم المقام عزت مآب جناب شہباز شریف کی حکومت نے بجلی کے نرخوں میں بھی مزید اضافہ کر ڈالا ہے۔ یہ اضافہ دراصل عید الفطر سے قبل عوام کو حکومت کی جانب سے دوسرا بڑا جھٹکا ہے ۔ الیکٹرک شاک سے متاثرہ انسان کم ہی بچتا ہے ۔
اب دیکھتے ہیں بجلی کے نرخ مزید بڑھانے سے ہم عوام کس طرح جانبر رہتے ہیں؟ بجلی کے فی یونٹ میں پونے تین روپے مزید اضافہ کیا گیا ہے ۔ اور یوں حکومت اپنے اللے تللے پورے کرنے ، اشرافیہ کے ناز نخرے اُٹھانے اور بڑے سرکاری عہدیداروں کے خفی اخراجات کی مَد میں عوام کی جیب پر78ارب روپے کا نیا بوجھ ڈال کر ''سرخرو'' ہو گئی ہے ۔ ابھی تو آئی ایم ایف یہ کہہ کر ہمیں مزید ڈرا رہا ہے کہ اگر حکومتِ پاکستان نے معاشی اصلاحات نہ کیں تو بجلی مزید مہنگی کرنا پڑ ے گی۔
ہم عوام عید الفطر اِن حالوں اور فکروں میں گزاریں گے کہ آیا اُمنڈتے موسمِ گرما میں بجلی کا پنکھا بھی چلا سکیں گے ؟ ائر کنڈیشنر کی عیاشیاں تو اَب خواب ہو چکی ہیں ۔ البتہ بجلی چوروں اور مراعات یافتہ طبقات کو کوئی فکر اور پریشانی لاحق نہیں ہے ۔انھیں بجلی مفت مل رہی ہے ۔
عید الفطر سے پہلے حکومت نے گیس کی قیمتوں میں بھی کئی گنامزیداضافہ کر کے ہماری خوشیاں غارت کر دی ہیں۔ ایک ستم ظریف نے کہا ہے :''گیس قیمتوں میں کئی گنا نیا اضافہ کرکے حکومت دراصل عوام پر ایک طرح سے مہربانی ہی کررہی ہے ۔ عید پر مہنگی ترین گیس کے کارن نہ چولہے جلیں گے ، نہ بلز میں اضافہ ہوگا، نہ پریشانی ہوگی ۔ البتہ گیس چوروں کو یہاں بھی کوئی فکر نہیں ہے ۔
اور حکومت اتنی نااہل ہے کہ بجلی چوروں کو پکڑنے کے لیے کمر بستہ ہے نہ گیس چوروں پر ہاتھ ڈال رہی ہے ۔ ابھی 3اپریل 2024 کو ایک انگریزی معاصر نے یہ ہوشربا خبر دی ہے کہ ''زیریں دِیر(کے پی کے) میں محکمہ سوئی گیس (SNGPL) نے 4500میٹر لمبی ، زیر زمین، غیر قانونی گیس پائپ لائن پکڑی ہے۔
یہ پائپ لائن علاقے کے 440 گھروں کو غیر قانونی گیس فراہم کررہی تھی۔متعلقہ محکمے کے ریجنل مینیجر، عاکف احمد نور، نے یہ چھاپہ مارا ہے۔ چوری کی اِس پائپ لائن سے 36ملین کیوبک فیٹ گیس چوری کی جارہی تھی ۔''اور جو لوگ کروڑوں روپے کی یہ گیس ہر ماہ چوری کررہے تھے، انھیں پکڑا گیا ہے نہ440گھروں کو ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔ ہے ناں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عجب تماشے !جب چور ، چوروں سے مل جائیں تو کیسی عید کی خوشیاں؟
عید الفطر سے تقریباًدس روز قبل، 31مارچ 2024کو، گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے جن 51ملزمان کو پانچ پانچ سال کی سزائے قید اور دس، دس ہزار روپے کاجرمانہ سنایا ہے۔ یہ 51ملزمان ، جو اَب سزایافتگی کے بعد مجرم بن چکے ہیں، وہ ہیں جو9مئی کے معروف سانحہ میں مبینہ طور پر ملوث پائے گئے ہیں۔ سزا کے بعد چار درجن سے زائد اِن مجرمان کے اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب کی عید صحیح معنوں میں اُجڑ گئی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کی خاتون جج صاحبہ نے یہ فیصلہ جرأت و دلاوری سے سنایا ہے۔ 9مئی کے کیسز میں گرفتار شدگان ابھی بہت سے دیگر بھی اپنے فیصلے سنائے جانے کے منتظر ہیں ۔ کاش، یہ سانحہ وقوع پذیر نہ ہوتا جو اقوامِ عالم میں ہماری جگ ہنسائی کا موجب بھی بنا ہے ۔ حیرانی کی مگر بات یہ ہے کہ جس کے مبینہ اشارے یا شہ یا منصوبے سے اِن افراد نے 9مئی کی قیامت برپا کی، وہ تو پسِ دیوار ِ زنداں بیٹھا دیسی گھی میں پکی دیسی مرغیاں کھا رہا ہے اور غریب کارکن مفت میں تلے گئے ہیں ۔ ان سب کی عید خراب ہو گئی ہے ۔