تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نیشنل ہیلتھ ایکشن پلان بنانا ہوگا

صحت کی سہولیات کی فراہمی بنیادی انسانی حق...


’’صحت کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

7 اپریل کو دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پرلوگوں کو صحت کے بارے میں آگاہی دینے کیلئے مختلف پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں اور آگاہی مہم بھی چلائی جاتی ہے۔

حکومتوں کی جانب سے بھی نہ صرف اس کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ اقدامات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔ اس عالمی دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہرین صحت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

خواجہ سلمان رفیق

(صوبائی وزیر صحت پنجاب)

صحت ایک پیچیدہ اور مشکل شعبہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ صحت کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی میں ہم نے میاں محمد شہباز شریف کے ساتھ پنجاب کے طول و عرض میں کام کیا اور نئے ہسپتال بنائے۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ سمیت لاہور میں مختلف ہسپتال بنائے گئے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں بھی خاطر خواہ کام کیا گیا۔ موجودہ حکومت کو وزیراعلیٰ مریم نواز لیڈ کررہی ہیں۔

شعبہ صحت ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ابھی ہمیں ایک مہینہ بھی نہیں ہوا لیکن ہم نے اگلے پانچ سال کا روڈ میپ بنا لیا ہے جس کی روشنی میں کام کیا جائے گا۔ اس ضمن میں بیشتر اقدامات کا لائحہ عمل بنا لیا گیا ہے جبکہ بعض پر کام جاری ہے۔بنیادی صحت مراکز 'بی ایچ یو' کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہی کام ہوا، اس سے پہلے یا بعد میں کوئی موثر کام نہیں ہوسکا۔ پنجاب میں 2500 سے زائد صحت کے بنیادی مراکز قائم ہیں۔

مریم نواز کی ہدایت پر ہم نے تمام 'بی ایچ یوز' کو ڈیڑھ سال میں اپ گریڈ کرنا ہے۔ مراکز کی عمارت، بیڈ ، مشینیں و دیگر سہولیات کو جدید طرز پر بنایا جائے گا جس سے ان کی حالت بدل جائے گی۔ اس حوالے سے شامکے بھٹیاں میں پائلٹ پراجیکٹ بنایا گیا جس کا مریم نواز نے دورہ بھی کیا، اب تمام 'بی ایچ یوز' کو اسی طرز پر اپ گریڈ کیا جائے گا۔ بی ایچ یوز میں ہر وقت تین لیڈی ہیلتھ ورکرز موجود ہوں گی تاکہ کسی بھی خاتون کو فوری سہولت دی جاسکے۔

پنجاب میں 300 سے زائد 'رورل ہیلتھ سینٹرز' ہیں جو گزشتہ برسوں میں نظر انداز ہوتے رہے۔ ہم نے اپنے سابق دور میں بھی انہیں بہتر کیا، اب بھی وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر انہیں اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ اسی طرح تحصیل ہیڈ کوارٹرز اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز کا معاملہ ہے۔ ہم نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کا کام شروع کیا تھا، ابھی بہت سارا کام باقی ہے، وزیراعلیٰ نے اس حوالے سے تفصیلی میٹنگ کی ۔ حکومت کی جانب سے 16 ارب روپے جاری کر دیے گئے ہیں اور 30 جون تک تمام ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن مکمل کرنے کا ٹارگٹ بھی دیا ہے۔

ادویات کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر 5 ارب روپے محکمے کو جاری کر دیے گئے ہیں، آئندہ 6 ہفتوں میں موثر انداز میں ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی ہوجائے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے پاکستان کے پہلے سرکاری کینسر ہسپتال کا اعلان کیا جس پر کام جاری ہے۔ اس میں 500 سے زائد بیڈز ہونگے،لیول تھری اور 4کے مریضوں کا علاج بھی کیا جائے گا۔ ملک اور بیرون ملک سے کینسر ماہرین اور سرجنز سے مشاورت جا رہی ہے۔ رواں برس ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا۔ سرگودھا میں کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کا 'پی سی ون' بھی جمع کروا دیا گیا ہے، 10 ارب روپے کی خطیر رقم سے یہ ہسپتال بنایا جائے گا۔ ٹیچنگ ہسپتالوں کو بہتر کیا جا رہا ہے۔

ہم ہیلتھ کارڈ پر بھی کام کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جو ہیلتھ کارڈ منصوبہ شروع کیا تھا، اسے بعد میں آنے والی حکومت نے یونیورسل کر دیا جس کے بعد امیر طبقہ بھی اس سے فیض یاب ہو رہا تھا ۔ بیوروکریٹس، اراکین اسمبلی سمیت بڑے افسران، تاجر، مالدار افراد کے علاج کا پیسہ بھی حکومت دے رہی تھی۔ ہماری ترجیحات میں غریب شامل ہے۔ ہم ہر غریب کو علاج معالجے کی بہترین اور مفت سہولیات دینے پر کام کر رہے ہیں۔ ہیلتھ کارڈ میںہم نے کچھ سروسز کا اضافہ کرنا ہے، آئندہ ماہ اسے جاری کر دیا جائے گا۔ پاکستان میں نرسنگ کا بڑا مسئلہ ہے۔

ہم نے اپنے گزشتہ دور میں پنجاب میں 4 نرسنگ سکول قائم کیے۔ اب تمام 31 نرسنگ سکولوں کو کالج کا درجہ دیا جا رہا ہے، ان کا نصاب بھی اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ ان کالجز سے تعلیم حاصل کرنے والی نرسز شعبہ صحت میں عالمی معیار کی خدمات سرانجام دینے کے قابل ہونگی۔ ہم شعبہ صحت کے ہر پہلو پر کام کر رہے ہیں، آنے والے وقت میں بہتری آئے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے پہلے بھی ڈیلور کیا، اب بھی ہم وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں شعبہ صحت کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرکے عوام کو سہولیات دیں گے۔ صحت کے عالمی دن کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہر دن ہی صحت کا دن ہے ، یہاں بہت کام ہونا باقی ہے۔ ہمیں پولیو، ڈینگی، ایڈز، ہیپاٹائٹس، تپ دق سمیت ہر چیلنج کا سامنا بھی کرنا ہے اور اسے ختم بھی کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کرپشن سراعیت کر چکی ہے۔ گزشتہ 4 سالہ دور میں اس میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ تحریک انصاف کے دور میں پیسے لیکر عہدوں پر تعیناتی عروج پر رہی۔ ہم نے اداروں میں بہتری کا عمل شروع کیا ہے جس کے بعد بری شہرت کے حامل ملازمین کو بلاتفریق عہدہ فارغ کیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔

شعبہ صحت میں وائس چانسلر، پرنسپل، میڈیکل سپرٹینڈنٹ، چیف ایگزیکٹیو جیسے عہدے اہم ہیں۔ا ن کیلئے سرچ کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں وائس چانسلرز، سینئر ہیلتھ پروفیشنلز شامل ہیں۔ اس کمیٹی کے ذریعے یہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ تمام تعیناتیاں میرٹ پر ہوں تاکہ شعبہ صحت کو بہتر بنایا جاسکے۔ ہم اپنے سالانہ ڈویلپمنٹ بجٹ کے حوالے سے منصوبوں کو دیکھ رہے ہیں، ہم اپنے اہداف 30 جون تک مکمل کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

مریض کیلئے خون کی دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس ضمن میں بلڈ بینک اتھارٹی کو متحرک کر دیا گیا ہے تاکہ غیر معیاری بلڈ بینک بند کیے جائیں۔ صفائی ستھرائی سے لے کر سکیورٹی تک، صحت کے شعبے سے منسلک تمام شعبوں کی بہتری کیلئے حکومت پنجاب، میں ، خواجہ عمران نذیر ، سیکرٹری صحت سب مل کر کام کر رہے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم

(سابق نگران وزیر صحت پنجاب)

ہم نے شعبہ صحت کی بہتری اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ محدود ہوتا ہے، پالیسی یا قانون سازی کے اختیارات نہیں ہوتے لہٰذا محدود اختیارات کے ساتھ جتنا بہترین کرسکتے تھے، ہم نے کیا۔ ہسپتالوں کی حالت خراب تھی، انفراسٹرکچر، واش روم، بیڈ ، میٹریس، ادویات و دیگر سہولیات ناکافی تھی۔ ہم نے 134 ارب روپے سے ہسپتالوں کی حالت بہتر کی۔ بیڈ شیٹس کے رنگ مختلف رکھے اور انہیں ہر دن کے ساتھ منسلک کیا تاکہ روزانہ کی بنیاد پر بیڈ شیٹ تبدیل ہو اور اسے با آسانی چیک کیا جاسکے۔

ہم نے ہسپتالوں اور سٹاف کی کپیسٹی بلڈنگ پر کام کیا۔ لیڈی ولنگٹن ہسپتال انتہائی مخدوش تھا، یہ نیا بنایا جارہا ہے۔ چلڈرن ہسپتال لاہور کی کپیسٹی میں اضافہ کیا گیا، وہاں بیڈز کی تعداد 1450 سے بڑھا کر 1650 کر دی گئی ، یہاں روزانہ 5 ہزار مریض بچے آتے ہیں۔ 1947ء سے لے کر آج تک، بہت سارے ممالک نے ہمارے سے ہیلتھ پالیسی لی جس میں کوریا بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے ہم تعلیم، صحت ، ریلویز، کمیونی کیشن سمیت ہر شعبے میں ناکام ہوئے ہیں، ہمارے ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہمارے لوگ صحتمند اور تعلیم یافتہ ہونگے تو ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے، اس پر توجہ دینا ہوگی۔ بدقسمتی سے ہمارے رویے خراب ہیں، ہماری سوچ قومی نہیں انفرادی ہے جس سے مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم آج تک لانگ ٹرم ہیلتھ پالیسی نہیں دے سکے۔

ہم نے میڈیا کا بھی غلط استعمال کیا، جس مسئلے پر زیادہ شور اٹھا، اس پر ساری توجہ لگ جاتی ہے، حکومتوں کو مجبوراََ ایسے فیصلے اور اقدامات کرنا پڑتے ہیں جو عوام میں مقبول ہوں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ہم نے نیشنل ایکشن پلان بنایا لیکن یہاں ہوشربا بات یہ ہے کہ جتنے لوگ اب تک دہشت گردی میں مارے گئے اس سے زیادہ لوگ ہر روز بیماریوں سے مرتے ہیں مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہر 5 منٹ میں 1 بچہ موت کے منہ میں جاتا ہے جبکہ ہارٹ اٹیک سے روزانہ 25 ہزار مریضوں کی اموات ہوتی ہیں۔

صحت کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے ہمیں معلوم ہے کہ آئندہ برسوں میں ہم کن مشکلات سے دو چار ہونگے۔ 2048ء میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہوگا، ہمیں اپنے نوجوانوں کیلئے پالیسی بنانا ہوگی۔ ہمارے ہاں ہر دوسرے شخص کو بلڈ پریشر، تیسرے کو شوگر اور پانچویں کو کینسر ہے۔ہم اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں بھی تاحال ناکام ہیں۔ ماں بچے کی صحت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے، دوران زچگی اموات کی شرح بھی خطرناک ہے۔ ہماری پالیسی علاج کی ہے بچاؤ کی نہیں یہی وجہ ہے کہ بیماریوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

جب تک ہم صحت کو ترجیحات میں شامل نہیں کریں گے تب تک مسائل حل نہیں ہونگے۔ کوریا، بنگلہ دیش اور سری لنکا نے اپنی ہیلتھ ایجوکیشن میں ریفارمز کی جس کے اچھے اور دیرپا نتائج سامنے آئے، ہمیں بھی تعلیم اور صحت کے شعبے میں اصلاحات لانا ہونگی۔ میرے نزدیک اگر حکومت شعبہ صحت کی بہتری چاہتی ہے تو فوری طور پر صحت کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور اس میں دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے۔

دنیا کے بہترین میڈیکل کالجز کے سربراہان پاکستانی ہیں، ان سے خدمات لینی چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق دور میں سابق وزیر احسن اقبال نے ویژن 2025 ء ترتیب دیا، مجھے بھی شعبہ صحت کیلئے منصوبہ بندی کا کہا گیا۔ ہم نے 390 نکات بنائے، ڈراپ، پی ایم ڈی سی، ایچ ای سی، پی ایچ سی، ایس ایچ ایل و دیگر اداروں کے حوالے سے پلان بنایا۔ ہم ٹرشری کیئر پر زیادہ خرچ کرتے ہیں جبکہ پرائمری کیئر پر توجہ نہیں ہے۔ ہم پمز میں بھی 300 نارمل ڈیلوریز کرتے تھے۔ صحت کے شعبے میں ہمارا فرنٹ لائن ڈیفنس نہیں ہے۔ لوگ انفیکشن، نمونیا، ڈائریا و دیگر بیماریوں سے مر رہے ہیں۔

ہمارے ہاں ریفرل سسٹم نہیں ہے۔ ہم نے گوجرانولہ میں ریفرل سسٹم بنایا، اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ہم نے سکول ہیلتھ پروگرام بنایا جس میں بچو ں کے میڈیکل چیک اپ خصوصاََ میٹرک کے امتحان سے پہلے تھیلیسمیا کا ٹیسٹ لازمی قراردیا جائے گا، موجودہ حکومت کو اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ صحت کارڈ کو نگران حکومت نے روکا۔حکومت ایک گھنٹے کا ڈیڑھ کروڑاور ایک دن کا 40 کروڑ ادا کررہی تھی۔

ہمارے ہاں ذیابیطس ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو ذیابیطس کے حوالے سے دنیا کا دارالحکومت کہا جاتا ہے جو شرمناک ہے۔ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے حکومت کو شعبہ صحت میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اصلاحات لانا ہونگی اور ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے۔

پروفیسر ڈاکٹر شاہد ملک

(سیکرٹری جنرل پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن)

1950ء میں اقوام متحدہ نے صحت کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا اور اس وقت سے آج تک ہر سال 7 اپریل کو یہ دن بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ رواں برس صحت کے عالمی دن کا موضوع ہے 'میری صحت، میرا حق'۔ 1950ء سے اب تک پاکستان نے صحت کے حوالے سے 3 بڑے معاہدے کیے۔ پہلا 'صحت سب کیلئے' جس میں ہم ناکام رہے ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے میلینیم ڈویلپمنٹ گولز آئے، ہم اس میں بھی ناکام رہے۔ اب اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف ہیں جن کے حوالے سے صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری حکومت کا حجم بہت بڑا ہے۔

شعبہ صحت میں بھی یہی حال ہے۔ ہم فکسڈ ہیلتھ سہولیات سے ایڈہاک ازم پر چلے گئے جس سے مسائل میں اضافہ ہوا۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پالیسی سازی میں سٹیک ہولڈرز کو شامل نہیں کیا جاتا یہی وجہ ہے کہ نچلی سطح تک اس کے اثرات نہیں آتے۔ اداروں کے درمیان روابط کا فقدان ہے جس سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ صحت کارڈ میں 'یونیورسل کووریج' درست نہیں ہے۔ اس سے امیر، غریب سب کو ہی مفت علاج معالجے کی سہولیات مل رہی ہیں اور بوجھ حکومت پر پڑ رہا ہے۔ صحت کارڈ کے حوالے سے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا ہوگی بصورت دیگر یہ منصوبہ خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکے گا۔

ہماری پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ ہر حکومت نئی پالیسیاں اور منصوبے لاتی ہے، نئے تجربے کیے جاتے ہیں اور نقصان ملک کا ہوتا ہے۔ اس وقت شعبہ صحت میں دو محکمے اور تین کمپنیاں ہیں مگر مریض کسی کا نہیں ہے، اگر ہم صحیح معنوں میں عوام کو صحت کی سہولیات دینا چاہتے ہیں تو ہمیں مریض کو اپنی پالیسیوں کا مرکز بنانا ہوگا۔ صحت کے بنیادی مراکز، دیہی مراکز اور ضلعی ہیڈکوارٹرز میں سہولیات کا فقدان ہے، مریض کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

میرے نزدیک 'آؤٹ سورسنگ' ایک فراڈ ہے، شعبہ صحت سے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صحت کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 124 ویں نمبر پر ہے۔ ہمارے 5 لاکھ بچے 5برس سے کم عمر میں ہی مر جاتے ہیں۔ ہمارے شعبہ صحت کے تباہ ہونے کی وجہ 10 بیماریاں ہیں، اگر ان کے حوالے سے درست اور موثر اقدامات کیے جائیں تو بوجھ کم کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ ہے، لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور بیماریوں کی ویکسین دستیاب نہیں۔ پولیو بھی صرف پاکستان میں رہ گیا ہے جو شرمناک ہے۔

اگر ہمیں شعبہ صحت کو بہتر کرنا ہے تو مافیاز کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ہمیں فینسی پراجیکٹس کے بجائے دیر پا اور کارآمد منصوبوں کی طرف جانا ہوگا۔ شعبہ صحت کا حجم کم کیا جائے، اچھے نتائج والے منصوبے لائے جائیں ۔ہمارے صحت کے مسائل سنگین ہیں لہٰذا تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نیشنل ہیلتھ ایکشن پلان بنانا ہوگا۔ موجودہ حکومت موبائل ہیلتھ یونٹس کا منصوبہ لا رہی ہے، میرے نزدیک وہیل کلینک کامیاب نہیں ہوگا، اس میں تیکنیکی مسائل ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب کو متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنی چاہیے، بہتری لائی جاسکتی ہے۔

آئمہ محمود

(نمائندہ سول سوسائٹی)

صحت کی سہولیات تمام انسانوں کا آئینی، قانونی اور انسانی حق ہے۔ آئین پاکستان اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ حکومت عوام کو صحت کی تمام سہولیات فراہم کرے گی مگر ا س کے باوجود شعبہ صحت پر ہم جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم خرچ کرتے ہیں جو ناکافی ہے۔ 25 کروڑ کی آبادی کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ حکومتی اقدامات اور بجٹ کی صورتحال مایوس کن ہے۔ عوام ہر سطح پر متاثر ہورہے ہیں۔ صحت کے شعبے کو ہمارے ہاں پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

سرکاری، نجی، سوشل سکیورٹی، حکمت اور ہومیو پیتھک۔ نجی ہسپتال عوام کی پہنچ سے باہر ہیں جبکہ باقی سب جگہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر 4 مریض ہیں جنہیں ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں۔ نگران وزیراعلیٰ کے ہسپتالوں کے دوروں کے دوران سب نے دیکھا کہ ہسپتالوں کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ سوشل سکیورٹی سسٹم کے تحت ورکرز کو صحت کی سہولیات دی جاتی ہیں۔

آجر اور مزدور، دونوں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اس پیسے سے سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس وقت سوشل سکیورٹی میں 11 لاکھ ورکرز رجسٹرڈ ہیںجبکہ صرف 7 لاکھ کو سوشل سکیورٹی کارڈ جاری ہوئے ہیں۔ افسوس ہے کہ 4 لاکھ ورکرز کو پیسے لینے کے باوجود کارڈ جاری نہیں ہوسکے۔ باقی کے 7 لاکھ کو صحت کی سہولیات، معیاری ادویات، بروقت علاج، آپریشن، تشخیص سمیت دیگر سہولیات موثر انداز میں میسر نہیں۔ یہ المیہ ہے کہ جہاں مزدور خود پیسے دے رہا ہے وہاں بھی اسے اس کا بنیادی حق نہیں مل رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ہم غریب ملک ہیں، قرضوں میں ڈوبے ہیں، مالی وسائل نہیں ہیں اس لیے صحت کے شعبے کا برا حال ہے۔ میرے نزدیک مسئلہ پیسے کا نہیں گورننس کا ہے۔

سوشل سکیورٹی میں تو وسائل موجود ہیں مگر مسائل کم نہیں ہو رہے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں معاملات کو شفاف اور موثر بنایا جائے۔ سوشل سکیورٹی کی 13رکنی گورننگ باڈی میں اکثریت سرکاری افسران کی ہے، اس میں مزدور اور دیگر سٹیک ہولڈرز زیادہ ہونے چاہئیں۔ 'آئی ایل او' کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ سے زائد مزدور ہیں جو بڑی تعداد ہے۔ اگر سوشل سکیورٹی کے ذریعے ان کے علاج معالجے کو درست انداز میں مینج کیا جائے تو ریاست سے 3 کروڑ افراد کے علاج کا بوجھ ہٹ جائے گا جس سے یقینا وسائل کی بچت ہوگی۔ ہمارے ہاں مسئلہ سیاسی ول اور کمٹمنٹ کا ہے جس کے نہ ہونے سے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔

سابق حکومت نے ہیلتھ کارڈ منصوبے کے تحت امیر، غریب سب کو ہی مفت علاج کی سہولت دے دی جو کسی بھی طور درست نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ حقدار کو اس کا حق دے اور جو مستحق ہیں انہیں مفت علاج فراہم کیا جائے۔ ایک بات سمجھنی چاہیے کہ صحت کو اکیلے نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ شعبہ صحت کی بہتری کیلئے صاف پانی، اچھی خوراک و دیگر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ افسوس ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کیلئے مختص کیا جانے والا بجٹ ہسپتالوں کی بہتری اور علاج معالجے کی سہولیات کیلئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ واپس ہو جاتا ہے۔

سرکاری ہسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں، مشینیں خراب پڑی ہیں۔ دوران زچگی ہزاروں خواتین کی اموات ہو رہی ہیں۔ا سی طرح بلڈ پریش، ذیابیطس، ہیپاٹائٹس و دیگر بیماریوں سے بھی قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ دیہات میں صحت کی سہولیات خواب ہے۔ قصور، ملتان، رحیم یار خان سمیت دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں کوئی ڈاکٹر جانے کو تیار نہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو پالیسی بنانی ہوگی کہ وہاں ڈاکٹرز کو رہائش و دیگر سہولیات دی جائیں، ہسپتالوں کی حالت بہتر کی جائے۔

صحت کے عالمی دن کے موقع پر میرا ارباب اختیار سے مطالبہ ہے کہ تمام ورکرز کو فوری رجسٹرڈ کیا جائے اور انہیں علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ سوشل سکیورٹی کے ساتھ رجسٹرڈ ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے علاج معالجے کی سہولت ختم کر دی جاتی ہے جو کسی بھی طور درست نہیں۔ اس وقت تو انہیں زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

ہم نے اس حوالے سے گورننگ باڈی سے منظور کروا لیا ہے تاہم کابینہ سے فی الحال منظوری نہیں ہوسکی، منظوری کے بعد ورکرز کو تاحیات علاج معالجے کی سہولیات میسر ہوں گی۔ دنیا بھر میں مسائل کے حل کیلئے سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ گلہ ہی رہا ہے کہ سول سوسائٹی کو آن بورڈ لیں۔ ہسپتالوں کی بہتر مینجمنٹ کیلئے حکومت کو سول سوسائٹی کو آن بورڈ لینا چاہیے۔

اسی طرح پالیسی سازی اور بہتر گورننس کیلئے تمام سٹیک ہولڈرزسے مشاورت کرنی چاہیے۔ مزدوروں، کسانوں، محنت کشوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ فیملی پلاننگ پر توجہ دی جائے اور ماں بچے کی صحت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ہمیں خاتون وزیراعلیٰ سے امید ہے کہ وہ محنت کش اور گھریلو خواتین کے حوالے سے موجود پالیسیوں کو بہتر کریں گی۔ ان کے آنے سے خواتین کی نمائندگی ہوئی ہے، امید ہے وہ ہر شعبے میں خواتین کی نمائندگی یقینی بنائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں