جنرل باجوہ کا مقدمے کی درخواست پراعتراضاسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب طلب کرلیا
قانون اور قاعدے کے مطابق ایف آئی اے نے انکوائری کا فیصلہ کرنا ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ
سابق آرمی چیف جنرل( ر) قمر جاوید باجوہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے خلاف مقدمے کی درخواست پر اعتراض عائد کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ریٹائرمنٹ کے بعد قانونی رکاوٹ توڑنے، لاپرواہی برتنے اور مختلف واقعات کو غلط بیان کرنے پر جنرل قمرجاوید باجوہ ، فیض حمید اور دیگرکے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔عدالت نے جنرل باجوہ کے اعتراضات کی درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ 6 ماہ پہلے کہا گیا کہ درخواست دائر ہوئی ہے۔ چھ ماہ بعد پتا چلا کہ ایف آئی اے کودرخواست موصول ہی نہیں ہوئی۔ جو درخواست 6 ماہ بعد جمع ہو اس کی کوئی وقعت نہیں اسے خارج کردینا چاہیے۔ ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ درخواست آگئی ہے توہم قانون کے مطابق دیکھ کر فیصلہ کریں گے جس پر عدالت نے ایف آئی اے کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ یہ عام مقدمہ ہے ٹھیک ہے بڑے لوگ بھی اس میں ہیں لیکن ایف آئی اے نے پہلے دیکھنا ہے کہ اس میں کوئی جرم بنتا ہے کہ نہیں ۔ اس سے قبل بائیس اے کا ایک کیس آیا تھا اس میں سینئیر ججز نے آرڈر کیا تھا۔ جن سینئیر ججز نے آرڈر کیا میں نام نہیں لیتا لیکن میں وہ آرڈر نہیں کرتا۔ پرچہ دیں یا نہ دیں میرا کام یہ نہیں کام پھر بھی ایف آئی اے کا ہے۔ کل کو کیا پتہ ایف آئی اے کہہ دے پرچہ بنتا ہے یا کہہ دے پرچہ نہیں بنتا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ قانون اور قاعدے کے مطابق ایف آئی اے نے انکوائری کا فیصلہ کرنا ہے ۔ ہم ڈائریکٹ نہیں کہہ سکتے کہ پرچہ کریں ۔ ایف آئی اے کو قانون اور قاعدے کے مطابق فیصلہ کرنے دیں۔ ضرورت ہوئی تو ہم ڈویژن بینچ کو بھی معاملہ بھیج سکتے ہیں۔ یہ بھی نہیں کہوں گا روزانہ بلا کر تنگ کریں یا تنگ نہ کریں۔ جو بھی تفتیشی ہوگا اسے کہیں قانون قاعدے کے مطابق دیکھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ریٹائرمنٹ کے بعد قانونی رکاوٹ توڑنے، لاپرواہی برتنے اور مختلف واقعات کو غلط بیان کرنے پر جنرل قمرجاوید باجوہ ، فیض حمید اور دیگرکے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔عدالت نے جنرل باجوہ کے اعتراضات کی درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ 6 ماہ پہلے کہا گیا کہ درخواست دائر ہوئی ہے۔ چھ ماہ بعد پتا چلا کہ ایف آئی اے کودرخواست موصول ہی نہیں ہوئی۔ جو درخواست 6 ماہ بعد جمع ہو اس کی کوئی وقعت نہیں اسے خارج کردینا چاہیے۔ ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ درخواست آگئی ہے توہم قانون کے مطابق دیکھ کر فیصلہ کریں گے جس پر عدالت نے ایف آئی اے کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ یہ عام مقدمہ ہے ٹھیک ہے بڑے لوگ بھی اس میں ہیں لیکن ایف آئی اے نے پہلے دیکھنا ہے کہ اس میں کوئی جرم بنتا ہے کہ نہیں ۔ اس سے قبل بائیس اے کا ایک کیس آیا تھا اس میں سینئیر ججز نے آرڈر کیا تھا۔ جن سینئیر ججز نے آرڈر کیا میں نام نہیں لیتا لیکن میں وہ آرڈر نہیں کرتا۔ پرچہ دیں یا نہ دیں میرا کام یہ نہیں کام پھر بھی ایف آئی اے کا ہے۔ کل کو کیا پتہ ایف آئی اے کہہ دے پرچہ بنتا ہے یا کہہ دے پرچہ نہیں بنتا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ قانون اور قاعدے کے مطابق ایف آئی اے نے انکوائری کا فیصلہ کرنا ہے ۔ ہم ڈائریکٹ نہیں کہہ سکتے کہ پرچہ کریں ۔ ایف آئی اے کو قانون اور قاعدے کے مطابق فیصلہ کرنے دیں۔ ضرورت ہوئی تو ہم ڈویژن بینچ کو بھی معاملہ بھیج سکتے ہیں۔ یہ بھی نہیں کہوں گا روزانہ بلا کر تنگ کریں یا تنگ نہ کریں۔ جو بھی تفتیشی ہوگا اسے کہیں قانون قاعدے کے مطابق دیکھے۔