ابھی ابتدا ہے
ایک لحاظ سے یہ اچھا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت من مانیوں میں آزاد نہیں
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ اگر موجودہ حکومت کہیں کچھ غلط کرتی ہے یا غلط فیصلے لیتی ہے تو پیپلز پارٹی اور ہم اس کے خلاف کھڑے ہوں گے۔
اس سے قبل بھی پیپلز پارٹی کے بعض رہنما ایسے ہی بیانات دے چکے ہیں اور یہ بیانات پیپلز پارٹی کی مدد سے بننے والی مسلم لیگ (ن) کی اس حکومت کے بارے میں آئے جسے ایک ماہ بھی پورا نہیں ہوا تھا۔
حکومت کے پہلے ماہ مارچ میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی مدد سے ملک کی صدارت حاصل کرلی اور قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ سندھ سے منتخب اپنے رکن کو دلا دیا اور ایک ماہ میں ہی پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم سے ان کے کیے گئے بعض اہم فیصلے بھی واپس کرائے جس سے مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کی سیاسی مجبوریوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جب کہ ابھی ابتدا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے بانی سربراہ اور قائد نواز شریف 1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور اسلامی جمہوری اتحاد میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی جس نے اتحادیوں کو مشاورت میں شامل نہ کرنے پر حکومت کی حمایت سب سے پہلے ترک کر دی تھی جس کے بعد جماعت اسلامی نے پھر کبھی (ن) لیگی حکومت کی حمایت نہیں کی جب کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی پارٹی 1990 سے 2018 تک مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرتی رہی اور 2018 میں اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت مولانا نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی و دیگر پارٹیوں کی تحریک عدم اعتماد سے ختم کرا کر پی ڈی ایم کی حکومت قائم کرنے میںاہم کردار ادا کیا۔
میاں شہباز شریف وزیر اعظم بنے جو تین بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے جب کہ وفاق میں دو بار مسلم لیگ (ن) اور ایک بار پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پیپلز پارٹی نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے ذریعے پنجاب میں شہباز شریف کو ہٹا کر گورنر راج بھی لگایا تھا اور بعدازاں شہباز حکومت بحال ہو گئی تھی۔
میاں نواز شریف کے برعکس شہباز شریف کو 2022 کے بعد اب بھی مضبوط حکومت نہ مل سکی اور وہ اب 2022 کے مقابلے میں 2024 میں پیپلز پارٹی کی حمایت پر انحصار کر رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کو اتحادیوں کا بھی خیال رکھنا پڑ رہا ہے کیونکہ اب بھی پیپلز پارٹی کی حمایت سے ن لیگ کی حکومت بنی ہے، دونوں بار (ن) لیگ کی اکثریت نہیں تھی اور موجودہ حکومت برسر اقتدار رہنے کے لیے مکمل طور پر پیپلز پارٹی کی حمایت پر قائم ہے ۔
تینوں ادوار میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کبھی موجودہ صورت حال کا سامنا نہیں رہا۔ ماضی میں جو اتحادی تھے وہ پیپلز پارٹی جیسی پارلیمانی طاقت نہیں رکھتے تھے اور نہ (ن) لیگ کی حکومت ان کے دباؤ میں رہی نہ وہ چھوٹے اتحادیوں کو اہمیت دیتی تھی مگر اب پیپلز پارٹی ان کی کمزور نہیں مضبوط اتحادی ہے جس کے بغیر (ن) لیگی حکومت چل نہیں سکتی۔
ایک لحاظ سے یہ اچھا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت من مانیوں میں آزاد نہیں اور وہ پیپلز پارٹی جیسی مضبوط اتحادی کی موجودگی میں کہیں کچھ غلط نہیں کر سکتی اور اسے ہر حال میں پیپلز پارٹی کی مشاورت سے چلنا ہے پی پی کو اعتماد میں لے کر چلنا ہے۔
حالانکہ کابینہ میں پیپلز پارٹی موجود نہیں مگر ایوان صدر میں پیپلز پارٹی کے صدر مملکت موجود ہیں جن کے پاس 58-2/B کا اختیار نہ سہی مگر وہ کسی وقت بھی (ن) لیگ کی حکومت کی حمایت ختم کرکے اسے گرا سکتے ہیں مگر دونوں پارٹیوں کا مکمل مفاد موجودہ صورتحال برقرار رہنے میں ہے۔ شہباز شریف ہٹائے جا سکتے ہیں مگر صدر آصف زرداری کو (ن) لیگ ہٹا نہیں سکتی۔