انصاف کے تقاضے
پاکستان میں تمام ریاستی و حکومتی اداروں میں بہت سے مسائل ہیں، ان میں ہمارا عدالتی نظام بھی شامل ہے
پاکستان کی سیاست ، جمہوریت ، ریاست اور آئینی و قانونی نظام سمیت عام آدمی کی مضبوطی کا ایک اہم نقطہ '' جامع و شفاف عدالتی نظام '' کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔کیونکہ جیوڈیشل سسٹم ہی ریاستی اور حکومتی نظام کی سمت کو درست رکھنے اور معاملات کو آئین و قانون کی نگرانی میں چلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان میں تمام ریاستی و حکومتی اداروں میں بہت سے مسائل ہیں، ان میں ہمارا عدالتی نظام بھی شامل ہے۔ نظریہ ضرورت، سمجھوتوں اور حکمران طبقات کے مفادات کی بنیاد پر ہمارے نظام نے جمہوریت خصوصاً پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کیا ہے ۔اس عمل نے دیگر اداروںکی آمرانہ افسرشاہی، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، قبائلی سرداروں ، گدی نشینوں اور انڈر ورلڈ کو من مانی کرنے کا موقع ملا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے، انتظامی، قانونی اور عدالتی نظام کے بارے میں بہت سے تحفظات ہیں بلکہ درجہ بندی کے حوالے سے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں ۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز ججوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے۔ اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ انھیں دھمکیاں دی جا رہی اور دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس معاملے پر تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے حامیوں نے خاصی سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کی ہے ۔
بہرحال اس خط نے ہمارے عدالتی و قانونی نظام پر بنیادی نوعیت کے سوالات کو اٹھایا ہے ۔ ججوں پر دباؤ ڈالنے کی باتیں ماضی میں ہوتی رہی ہیں، ماضی کے کئی فیصلوں پر آج تک بحث ہوتی ہے کہ آیا وہ فیصلے قانونی نکات کی بنیاد پر تھے یا سیاسی بنیادوں پر ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں بہت سے عدالتی فیصلوں کو سیاست کے تناظر میں جوڑ کر دیکھا گیا اور اسی بنیاد پر سیاسی قیادتوں نے اپنے اپنے بیانیے بھی تشکیل دیے ۔لیکن حالیہ ایشو محض اسلام آباد ہائی کورٹ تک محدود نہیں بلکہ اب ایک قدم آگے بڑھ کر لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت مختلف ججوں کو دھمکی آمیز خطوط ملنا ، صورتحال کو اور زیادہ پیچیدہ بناتا ہے ۔
اب کیونکہ یہ تمام معاملات سپریم کورٹ کی کورٹ میں ہے اور امکان یہ ہی ہے کہ اس مسئلہ پر فل کورٹ اپنی سماعت کی بنیاد پر ان تمام پیچیدہ اور سنجیدہ سمیت مشکل معاملات کا نہ صرف جائزہ لے گا بلکہ یہ کوشش بھی کرے گی کہ معاملات کا بہتر حل سامنے آسکے۔
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی جانب سے عدالتی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کی وجہ سے بھی اس معاملے پر خاصی قیاس آرائیاں ہوئیں، ایک رائے یہ سامنے آئی کہ حکومت اس معاملے کو سیاسی بنیادوں پر دبانا چاہتی ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر تنقید کی وجہ سے جسٹس جیلانی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ بہرحال اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے، لہٰذا دیکھتے ہیں کہ رزلٹ سامنے آتا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری سیاست ، جمہوریت، آئین اور قانون کی عملداری اور شفافیت کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرسکتا ہے ۔یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے کیونکہ پس پردہ حقائق سامنے لانا ضروری ہوگیا ہے۔سب کی نظریں بھی اسی فیصلے سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ اس نقطہ پر ہی زور دیا جاتا ہے کہ ہمیں سیاست ، جمہوریت میں جھوٹ ، الزام تراشی، سازشی کلچر کو ختم کرنا ہے اور خالص جمہوری اصولوں ، آئین و قانون اورنظام انصاف کو مربوط اور غیرمبہم بنانا ہے ۔ پس پردہ قوتوں کی مداخلت اسی وقت ہوتی ہے ، جب قوانین میں ابہام ہویا قوانین ادھورے ہوں، ججز کمزور ہوں اور اختیارات لامحدود ہوں ۔
اسی وجہ سے ہمارا سیاسی اور جمہوری نظام کمزور ہوا ہے ۔ اگر آج بھی مٹی پاؤ پالیسی کے تحت کام ہوتا ہے تو اس سے بحران کم نہیں ہوگا بلکہ اور زیادہ بڑھے گا ۔ اس وقت جب یہ اہم معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تو ایسے میں کچھ عناصر قانون سے زیادہ سیاسی مفادات یا پوائنٹ اسکورنگ کو سامنے رکھ کر بیان بازی کررہے ہیں، من مرضی کے نتائج بیان کیے جاتے ہیں۔
ایک طرف چھ ججوں کی حمایت میں پی ٹی آئی کی قیادت، پی ٹی آئی اور اس کے حلیف گروپوں کے وکلا، اور پی ٹی آئی اور اس کے حلیف سوشل میڈیا ایکٹوسٹس انھیں قومی ہیرو کے طور پر پیش کر رہے ہیں، دوسری طرف پی ٹی آئی کے مخالفین ان چھ ججوں پر نہ صرف تنقید کررہے ہیں بلکہ ان کو پی ٹی آئی کے مفادات کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ جو ہمارے یہاں ایک گہری سیاسی تقسیم ہوئی ہے، وہ محض سیاست تک محدود نہیں رہی بلکہ بہت آگے تک چلی گئی ہے حالانکہ قانونی معاملات کو قانونی نقطہ نظر سے ہی دیکھا جانا چاہیے ۔
آئین پاکستان میں ریاست ، سرکار اور عوام کے حقوق و فرائض لکھے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اسٹیبلشمنٹ کو کہتے ہیں اسے اپنے دائرہ کار تک محدود رہنا چاہیے لیکن یہ مکمل سچ نہیں ہے، نظام عدل کو آئین کے مقررہ کردہ دائرہ میں رہ کر کام کرنا چاہیے، افسرشاہی آئین کے تحت اختیار استعمال کرتی ہے تو اسے آئین میں درج فرائض بھی پورے کرنے چاہیے، سیاسی قیادت سب پر تنقید کرتی لیکن اسے بھی آئین و قانون کے تابع رہنا لازم ہے۔
پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو تمام ریاستی و حکومت اداروں، سیاست دانوں اور غیرسیاسی اشرافیہ کو اپنے اپنے حقوق و فرائض کی آئینی ذمے داری تک محدود کرنا ہوگا۔
آج عمران خان کو جن مقدمات میں سزائیں دی گئی ہیں، ان سے وہ بری بھی ہورہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اپنے اندر ردعمل سامنے آرہا ہے کہ عمران خان پر عجلت میں مقدمات قائم کیے گئے ۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آئینی اداروں میں باہم ٹکراؤ کسی طرح بھی ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ،اس لیے لازم ہے کہ تمام ادارے اس سے ہر صورت میں بچنے کی کوشش کریں۔آئین عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے جسے یقینی بنانا تمام اداروں کی ذمے داری ہے ۔
پاکستان میں تمام ریاستی و حکومتی اداروں میں بہت سے مسائل ہیں، ان میں ہمارا عدالتی نظام بھی شامل ہے۔ نظریہ ضرورت، سمجھوتوں اور حکمران طبقات کے مفادات کی بنیاد پر ہمارے نظام نے جمہوریت خصوصاً پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کیا ہے ۔اس عمل نے دیگر اداروںکی آمرانہ افسرشاہی، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، قبائلی سرداروں ، گدی نشینوں اور انڈر ورلڈ کو من مانی کرنے کا موقع ملا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے، انتظامی، قانونی اور عدالتی نظام کے بارے میں بہت سے تحفظات ہیں بلکہ درجہ بندی کے حوالے سے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں ۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز ججوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے۔ اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ انھیں دھمکیاں دی جا رہی اور دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس معاملے پر تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے حامیوں نے خاصی سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کی ہے ۔
بہرحال اس خط نے ہمارے عدالتی و قانونی نظام پر بنیادی نوعیت کے سوالات کو اٹھایا ہے ۔ ججوں پر دباؤ ڈالنے کی باتیں ماضی میں ہوتی رہی ہیں، ماضی کے کئی فیصلوں پر آج تک بحث ہوتی ہے کہ آیا وہ فیصلے قانونی نکات کی بنیاد پر تھے یا سیاسی بنیادوں پر ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں بہت سے عدالتی فیصلوں کو سیاست کے تناظر میں جوڑ کر دیکھا گیا اور اسی بنیاد پر سیاسی قیادتوں نے اپنے اپنے بیانیے بھی تشکیل دیے ۔لیکن حالیہ ایشو محض اسلام آباد ہائی کورٹ تک محدود نہیں بلکہ اب ایک قدم آگے بڑھ کر لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت مختلف ججوں کو دھمکی آمیز خطوط ملنا ، صورتحال کو اور زیادہ پیچیدہ بناتا ہے ۔
اب کیونکہ یہ تمام معاملات سپریم کورٹ کی کورٹ میں ہے اور امکان یہ ہی ہے کہ اس مسئلہ پر فل کورٹ اپنی سماعت کی بنیاد پر ان تمام پیچیدہ اور سنجیدہ سمیت مشکل معاملات کا نہ صرف جائزہ لے گا بلکہ یہ کوشش بھی کرے گی کہ معاملات کا بہتر حل سامنے آسکے۔
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی جانب سے عدالتی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کی وجہ سے بھی اس معاملے پر خاصی قیاس آرائیاں ہوئیں، ایک رائے یہ سامنے آئی کہ حکومت اس معاملے کو سیاسی بنیادوں پر دبانا چاہتی ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر تنقید کی وجہ سے جسٹس جیلانی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ بہرحال اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے، لہٰذا دیکھتے ہیں کہ رزلٹ سامنے آتا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری سیاست ، جمہوریت، آئین اور قانون کی عملداری اور شفافیت کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرسکتا ہے ۔یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے کیونکہ پس پردہ حقائق سامنے لانا ضروری ہوگیا ہے۔سب کی نظریں بھی اسی فیصلے سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ اس نقطہ پر ہی زور دیا جاتا ہے کہ ہمیں سیاست ، جمہوریت میں جھوٹ ، الزام تراشی، سازشی کلچر کو ختم کرنا ہے اور خالص جمہوری اصولوں ، آئین و قانون اورنظام انصاف کو مربوط اور غیرمبہم بنانا ہے ۔ پس پردہ قوتوں کی مداخلت اسی وقت ہوتی ہے ، جب قوانین میں ابہام ہویا قوانین ادھورے ہوں، ججز کمزور ہوں اور اختیارات لامحدود ہوں ۔
اسی وجہ سے ہمارا سیاسی اور جمہوری نظام کمزور ہوا ہے ۔ اگر آج بھی مٹی پاؤ پالیسی کے تحت کام ہوتا ہے تو اس سے بحران کم نہیں ہوگا بلکہ اور زیادہ بڑھے گا ۔ اس وقت جب یہ اہم معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تو ایسے میں کچھ عناصر قانون سے زیادہ سیاسی مفادات یا پوائنٹ اسکورنگ کو سامنے رکھ کر بیان بازی کررہے ہیں، من مرضی کے نتائج بیان کیے جاتے ہیں۔
ایک طرف چھ ججوں کی حمایت میں پی ٹی آئی کی قیادت، پی ٹی آئی اور اس کے حلیف گروپوں کے وکلا، اور پی ٹی آئی اور اس کے حلیف سوشل میڈیا ایکٹوسٹس انھیں قومی ہیرو کے طور پر پیش کر رہے ہیں، دوسری طرف پی ٹی آئی کے مخالفین ان چھ ججوں پر نہ صرف تنقید کررہے ہیں بلکہ ان کو پی ٹی آئی کے مفادات کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ جو ہمارے یہاں ایک گہری سیاسی تقسیم ہوئی ہے، وہ محض سیاست تک محدود نہیں رہی بلکہ بہت آگے تک چلی گئی ہے حالانکہ قانونی معاملات کو قانونی نقطہ نظر سے ہی دیکھا جانا چاہیے ۔
آئین پاکستان میں ریاست ، سرکار اور عوام کے حقوق و فرائض لکھے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اسٹیبلشمنٹ کو کہتے ہیں اسے اپنے دائرہ کار تک محدود رہنا چاہیے لیکن یہ مکمل سچ نہیں ہے، نظام عدل کو آئین کے مقررہ کردہ دائرہ میں رہ کر کام کرنا چاہیے، افسرشاہی آئین کے تحت اختیار استعمال کرتی ہے تو اسے آئین میں درج فرائض بھی پورے کرنے چاہیے، سیاسی قیادت سب پر تنقید کرتی لیکن اسے بھی آئین و قانون کے تابع رہنا لازم ہے۔
پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو تمام ریاستی و حکومت اداروں، سیاست دانوں اور غیرسیاسی اشرافیہ کو اپنے اپنے حقوق و فرائض کی آئینی ذمے داری تک محدود کرنا ہوگا۔
آج عمران خان کو جن مقدمات میں سزائیں دی گئی ہیں، ان سے وہ بری بھی ہورہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اپنے اندر ردعمل سامنے آرہا ہے کہ عمران خان پر عجلت میں مقدمات قائم کیے گئے ۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آئینی اداروں میں باہم ٹکراؤ کسی طرح بھی ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ،اس لیے لازم ہے کہ تمام ادارے اس سے ہر صورت میں بچنے کی کوشش کریں۔آئین عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے جسے یقینی بنانا تمام اداروں کی ذمے داری ہے ۔