خودنمائی اور سوشل میڈیا کے اسیر
ایک دور تھا کہ علما کی جانب سے ویڈیو اور تصویر کشی کو حرام کہا جاتا تھا اور اس کی شدید مخالفت کی جاتی تھی۔ مذہبی رہنماؤں میں سے چند ایک اب بھی اس کے مخالف ہیں لیکن ان کی تعداد شاید اب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اکثر علما و مشائخ نے معاشرے کی ضروریات کے باعث اسے جائز قرار دے دیا ہے۔ ویڈیو اور تصویر کشی اب خود اسلام کی تبلیغ کا ایک اہم راستہ بن چکا ہے لیکن اس کی آڑ میں ہم نے وہ کچھ کردیا ہے جس کے اخروی انجام کا شاید ہمیں اندازہ بھی نہ ہو۔
ابتدا تو یوں ہوئی کہ ہم احساس کمتری کا شکار ہوئے اور اپنی زندگی کے روشن پہلوؤں کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے لگے تاکہ دنیا ہمیں اشرافیہ میں شمار کرے۔ اہل کیمرہ کہیں کھانا کھانے جاتے تو سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتے، کسی بڑی شخصیت سے ملتے جو ان کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا لیکن احساس کمتری کے شکار افراد اسی حالت میں ان کے ساتھ تصویر بنوانا اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنا قابل فخر سمجھنے لگے۔ ان تمام کاموں سے معاشرتی برائیاں جنم لے ہی رہی تھیں کہ ہم میں سے بہت سوں نے اپنی عبادات کی بھی تشہیر کرنا شروع کردی۔
تہجد جیسی عبادت جسے رات کے پہر کرنے کا حکم ہی اس لیے تھا کہ یہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان راز ہے۔ اہل موبائل اور سوشل میڈیا کے دیوانوں نے اسے بھی مشتہر کرنا شروع کردیا جس سے ظاہر ہے نمود ہی جھلکتی ہے جو کہ خود ایک گناہ ہے۔ برائی کی ابتدا یہاں سے ہوئی تو یہ معاملہ تھم نہ سکا، لوگوں نے سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنانا شروع کردیں۔ معاملہ اور آگے بڑھا تو سوشل میڈیا کی دنیا کے اسیروں نے میتوں کے ساتھ سیلفیاں، بیماروں کے ساتھ سیلفیاں اور جنازوں کی سیلفیاں بھی بنانے کی ابتدا کی۔
برائی کا جن ایک بار بے قابو ہوجائے تو اسے بڑے سے بڑا عامل بھی آسانی سے قابو نہیں کرسکتا۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب اس کام کی بھی تشہیر ہونے لگی جس کے متعلق حکم تھا کہ اگر ایک ہاتھ سے کرو تو دوسرے ہاتھ کو بھی اس کا علم نہ ہو۔ لوگ کسی کے ساتھ ذرا سی بھلائی بھی کرتے، کسی کو راشن دیتے، کسی کو پیسے دیتے، زکوٰۃ دیتے تو سوشل میڈیا پر اس کی تصویر بھی ڈالتے۔ دنیا نے پھر وہ وقت بھی دیکھا جب اپنے حالات سے مجبور غریب افراد اس جرم کا شکار ہوئے، اپنی مجبوری کے باعث کسی سے کچھ لیتے تو ساتھ سر جھکا کر شرمندگی کے عالم میں اپنی تصویر بھی بنواتے اور یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ اب نجانے کون کون اسے دیکھے گا اور کیسے کیسے سوال کرے گا۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا، اپنی اور بچوں کے پیٹ کی آگ کو عزت نفس پر قربان کرنے کے سوا کوئی راستہ جو نہ تھا۔
کچھ لوگوں نے اس امر کی مخالفت کی، مذہبی طبقے نے بھی اسے غلط قرار دیا لیکن یہ معاملہ اب رکنے کے بجائے آگے ہی بڑھتا چلا جارہا ہے۔ حد یہ ہوگئی ہے کہ لوگ اب کسی کے ہاں تعزیت کرنے جائیں تو کیمرہ مین ساتھ لے کر جاتے ہیں، فاتحہ کے دوران اور تعزیت کرتے ہوئے مختلف زاویوں سے تصاویر کھینچی جاتی ہیں اور کبھی تو کیمرہ مین نہ ہوتا تو متاثرہ خاندان میں سے ہی کسی کو کہہ دیتے ہیں کہ ذرا دعا کرتے ہوئے تصاویر بنانا۔
ایک لمحے کو سوچیے کسی کا بیٹا مرگیا ہو، کسی کا باپ دنیا سے چلا گیا ہے یا کسی کی ماں اب اس کے پاس نہ رہی ہو اور ہم یا آپ اس سے تعزیت کے ساتھ تصاویر کےلیے پوزنگ بھی کرائیں تو اس پر کیا گزرے گی؟ پھر سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر نہ جانے کب تک اس کے سامنے آکر اس کے زخموں کو ہرا کرتی رہے گی۔ اس صورتحال میں کیا ہماری تعزیت اللہ کے ہاں قبول ہوگی؟ کیا اسے نیکی شمار کیا جائے گا؟ یا پھر یہ ہمارا جرم قرار دیا جائے گا۔ اگر اس وقت متاثرہ افراد کے دل سے کوئی آہ نکل گئی تو ہمارا انجام کیا ہوگا؟ ہمارے دین میں تو عبادات قبول نہ ہوں تو ان کے متعلق کہا گیا کہ تمہارے منہ پر مار دی جائیں گی۔ پھر آخر ہمیں یہ ڈر کیوں نہیں کہ کہیں روز قیامت اللہ ہماری یہ نیکیاں ہماری جانب واپس نہ پھینک دے؟ اللہ ہم سب کو وہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے جو وہ ہم سے چاہتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔