’’بولی وڈ ٹاؤن‘‘ کے اسپتال

بولی وڈ ٹاؤن میں رومانس، ڈانس، آئٹم نمبرز اور مار دھاڑ، کے ساتھ عام زندگی سے جڑے سنجیدہ کردار بھی سامنے لائے گئے


انیس گزدر June 15, 2014
جسمانی تکالیف اور بیماریوں میں مبتلا افراد ڈاکٹر پر بہت زیادہ بھروسا کرتے ہیں فوٹو : فائل

JOHARABAD: ''بی ٹاؤن'' یا بولی وڈ ٹاؤن میں رومانس، ڈانس، آئٹم نمبرز، جذبات میں ہلچل پیدا کرنے والے گانے، مار دھاڑ، خوشی اور غم کی داستان کو عکس بند کرنے کے ساتھ عام زندگی سے جڑی کہانیوں میں بعض سنجیدہ نوعیت کے کردار بھی ہمارے سامنے لائے گئے۔ان کہانیوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے والے فن کاروں کو ہندوستانی فلموں کے ناظرین نے بے حد سراہا اور آج بھی وہ ان کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔

یہاں ہمارا موضوع بولی ووڈ کی چند مشہور فلموں کے ڈاکٹر اور مریض ہیں۔ یہ کردار نہایت حساس اور خاصے غیرروایتی ثابت ہوئے۔ انہیں نبھانے والے فن کاروں نے اپنی کمال اداکاری سے ہمارے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں اور بعض لمحے ایسے بھی آئے کہ آنکھیں نم ہو گئیں۔ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ جسمانی تکالیف اور بیماریوں میں مبتلا افراد ڈاکٹر پر بہت زیادہ بھروسا کرتے ہیں اور دورانِ علاج ان کے مابین ایک ایسا تعلق بن جاتا ہے، جس میں احساس اور فکرمندی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔

آغاز کرتے ہیں بولی ووڈ کے بگ باس امیتابھ بچن سے، جنہوں نے 1971 میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلم آنند میں ایک ڈاکٹر کا کردار ادا کیا۔ وہ کینسر کے ماہر معالج کے روپ میں اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے نظر آئے۔ اس کیریکٹر کا نام بھاسکر بنرجی تھا، جو اپنے مریض آنند کے علاج سے متعلق انتہائی جذباتی ہوتا ہے۔



آنند کا کردار معروف اداکار راجیش کھنا نے نبھایا تھا۔ امیتابھ بچن فلم کی کہانی کے مطابق ماہر معالج کی حیثیت سے آنتوں کے کینسر کا شکار آنند سے قریب ہو جاتے ہیں۔ ان میں دوستی کا تعلق استوار ہوتا ہے اور پھر کہانی میں آنے والے کئی موڑ اس دوستی کا امتحان لیتے ہیں۔ ڈاکٹر بھاسکر بعد میں آنند کی زندگی، بیماری کے ایام اور اس کے حوصلے اور ہمت کی کہانی کو قلم بند کرکے کتابی شکل میں پیش کرتے ہیں۔

خوب صورت اور دل کش سراپے کی مالک سونالی باندرے نے بھی فلم نگری میں ڈاکٹر کا کیریکٹر خوبی سے نبھایا۔ یہ ہیروئن لیڈی ڈاکٹر کے روپ میں دو مختلف فلموں میں نظر آئی، جنہیں دیکھنے والوں نے بہت پسند کیا۔ سب سے پہلے 1999 کی اُس فلم کا ذکر کرتے ہیں، جسے بلاک بسٹر قرار دیا گیا۔ یہ فلم''ہم ساتھ ساتھ ہیں'' تھی۔



اس میں ایک پیاری اور شرمیلی سی لڑکی پریتی کے روپ میں سونالی نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ لڑکی ایک دردمند انسان اور اپنے پیشے سے مخلص ڈاکٹر ہے، جو مریضوں کا ہر طرح سے خیال رکھتی ہے۔ سونالی 2003 میں ''کل ہو نہ ہو'' میں جلوہ گر ہوئیں ۔

اس فلم میں ایک مرتبہ پھر انہوں نے مسیحا کا روپ دھارا۔ اس ڈاکٹر کا نام پریا تھا۔ ان کے ساتھ شاہ رخ خان نے فلم میں امن کا رول نبھایا۔ یہ لڑکا دل کے عارضے میں مبتلا تھا اور پریا اس کی معالج۔ لیکن فلم میں ڈاکٹر اور مریض جلد ہی ایک دوسرے کے دوست بھی بن جاتے ہیں۔ یوں تو پریا سبھی کے لیے مہربان اور فرائض کی انجام دہی میں یکساں تھی، لیکن امن ماتھر کا خیال سب سے بڑھ کر رکھتی تھی۔



بولی ووڈ کے ڈاکٹر فن کاروں کی ہماری اس فہرست میں اگلا نام سنجو بابا کا ہے۔ جی ہاں! سنجے دت، جن کی 'ڈاکٹری' نے فلم بینوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا۔ 2003 میں شہرت پانے والی فلم ''منّا بھائی ایم بی بی ایس'' کو شاید ہی کوئی فراموش کر سکا ہو اور پھر مرلی پرشاد شرما کا کیریکٹر تو تھا ہی فلم کا مرکز۔

اسے کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ یہ سنجو بابا تھے، جو ممبئی کے ایک جرائم پیشہ گروپ کے لیڈر ہیں، لیکن گاؤں سے ملنے کے لیے آنے والے اپنے ماں باپ کو جھوٹی خوشی دینے کے لیے اپنے گھر کو چند گھنٹوں میں جعلی اسپتال میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ دراصل ان کے باپ کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بنے، مگر وہ ممبئی میں منا بھائی کے نام سے جانے جاتے ہیں، جو دراصل وہاں کا 'ڈان' ہے۔ یہ بات ان کے والدین کو معلوم نہیں ہوتی۔ ماں باپ کے آنے پر منا بھائی کے کارندے اسپتال کی جھوٹی انتظامیہ اور جعلی مریض بن جاتے ہیں جب کہ منا بھائی ڈاکٹر کے روپ میں ان کا علاج اور دیکھ بھال کرتے نظر آتے ہیں۔ بوڑھے ماں باپ تو یہ منظر دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے، لیکن فلم کے ایک اور کیریکٹر کی 'مہربانی' سے یہ راز کھل جاتا ہے۔

 



اس کے بعد کئی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور پھر منا بھائی حقیقی ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کرتا ہے۔ بلاشبہ اس فلم کے ناظرین کہانی کے مختلف موڑ پر اپنے قہقہے نہ روک سکے۔ سنجو بابا کی مرلی کے کردار میں بے ساختگی اور اس کیریکٹر کا جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے دل چسپ حرکتیں اور مزے دار باتیں کرنا ہر ایک کے دل میں جگہ کر گیا۔

اب بیبو کی بات کرتے ہیں، جو 2005 میں فلم ''کیوں کہ'' میں ڈاکٹر کے روپ میں جلوہ گر ہوئیں۔ کرینہ کپور نے سلمان خان کے مدمقابل ڈاکٹر تنوی کھرانا کا کردار نہایت عمدگی سے نبھایا۔ اس فلم میں سلمان خان، آنند نامی ایک دماغی مریض بنے تھے۔

یہ لڑکا فلم کی کہانی کے مطابق اپنی منگیتر کی موت کے بعد ذہنی مسائل سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اس فلم کی ابتدا میں ڈاکٹر تنوی کھرانا، آنند سے نفرت کرتی ہے، مگر بعد میں اس کی زندگی کی درد بھری داستان جان کر اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ غیرمعمولی اپنائیت برتتی ہے۔

آنند مستقل علاج کی وجہ سے بالکل ٹھیک ہوجاتا ہے، مگر فلم میں ان کی زندگی میں ایک نہایت الم ناک موڑ آتا ہے۔ ہیرو جان گنواتا ہے جب کہ ہیروئن ذہنی مریضہ بن جاتی ہے۔ کرینہ نے 2009 میں شہرت حاصل کرنے والی فلم ''تھری ایڈیٹس'' میں بھی ڈاکٹر کا کردار ادا کیا ہے، مگر اس فلم میں انہیں اپنی 'ڈاکٹری' ثابت کرنے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا۔



بولی ووڈ کے دبنگ خان کی فلم ''میں نے پیار کیوں کیا؟'' کا کردار سمیر ملہوترا بھی آپ کو یاد ہو گا۔ 2005 میں بننے والی یہ مزاحیہ فلم مشہور ہدایت کار ڈیوڈ دھون کی کام یابی میں اضافہ کر گئی۔ اس فلم میں سلّو بھائی ایک ڈاکٹر کا کیریکٹر نبھاتے ہوئے دیکھے گئے، جو اپنے مریضوں کے علاج پر کافی توجہ دیتے ہیں، خصوصاً صنف نازک کا بہت خیال رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر سمیر سونیا نامی ایک کردار پر مر مٹتے ہیں۔ اس کا پیار پانے کے لیے کوششوں میں کئی مرتبہ مضحکہ خیز صورت حال جنم لیتی ہے۔ آگے چل کر فلم کے اس ڈاکٹر پر کھلتا ہے کہ وہ سونیا سے نہیں بلکہ اپنی ایک نرس سے حقیقی محبت کرتا ہے۔ سلّو بھائی کا یوں ڈاکٹر بن کر پھلجھڑیاں چھوڑنا سبھی کو بہت پسند آیا۔ خاص طور پر صنف نازک کے علاج کے دوران اس کردار کا دل پھینک انداز ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔



اب آپ کو بولی ووڈ کی دل موہ لینے والی خوب صورتی کی حامل اداکارہ پریٹی زنٹا کے ایک کردار کی بابت بتاتے ہیں۔ وہ فلم ''دل نے جسے اپنا کہا'' کا ایک کردار نبھا کر شائقین کے دل جیتنے میں کام یاب رہی۔ اس فلم میں وہ پری نامی ڈاکٹر بنی تھی۔ یہ اپنے پیشے سے انتہائی مخلص اور سبھی کی غم گسار تھی۔ 2004 میں پردے پر نشر ہونے والی اس فلم میں پری اپنی محبت کو پانے کے بعد شادی کر کے خوش و خرم زندگی بسر کررہی ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ایک حادثے میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

اس لیڈی ڈاکٹر نے مرنے کے بعد بھی انسانیت کی خدمت کی۔ وہ اس طرح کہ پری کی آنکھیں اس کے زیر علاج رہنے والی مریضہ کو لگا دی جاتی ہیں اور وہ دیکھنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ یہ پری کی آخری خواہش تھی، جسے فلم کی کہانی کے مطابق اس کی موت کے بعد پورا کیا جاتا ہے۔ اس فلم کے جذباتی مناظر میں فن کاروں نے خوبی سے حقیقت کا رنگ بھرا اور دیکھنے والوں نے انہیں بے حد پسند کیا۔

دوستو اب چلتے ہیں اُن فن کاروں کی جانب جنہیں حقیقی زندگی میں علاج کے لیے ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑا اور وہ آپریشن کے مراحل سے بھی گزرے۔

بولی ووڈ فلم ''برفی'' کے لیے متعدد ایوارڈ وصول کرنے والے پروڈیوسر، ہدایت کار اور پلے رائٹر انوراگ باسو کو 2004 میں خون کے سرطان کی تشخیص کے بعد علاج کا کہا گیا۔ ان کے حوصلے اور ہمت کی کہانی یہ ہے کہ انہی دنوں فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کی نصف ہدایت کاری باسو نے اسپتال میں بستر پر لیٹے ہوئے کی۔ وہ دورانِ علاج فون پر اپنی ٹیم سے رابطے میں رہے۔ پھر باسو کیمو تھراپی کے عمل سے گزرے تو بقیہ کام مہیش بھٹ نے نمٹایا۔

 



اداکار ریتک روشن بھی پچھلے برس دماغ کی سرجری کے عمل سے گزرے۔ وہ ہمت اور حوصلے سے اپنی بیماری کا مقابلہ کرتے رہے اور بیرون ملک کام یاب سرجری کے بعد ریتک دوبارہ فلمی دنیا میں لوٹ آئے۔ پچھلے ہی برس اداکارہ منیشا کوئرالا بھی کینسر سے نبرد آزما رہیں۔ ان کا کام یاب علاج نیویارک کے ایک اسپتال میں ہوا۔

 



اسی طرح سال 2011 دبنگ خان کے لیے ان کے پٹھوں میں خرابی کی خبر لایا۔ دیگر فن کاروں کی طرح وہ بھی علاج کے لیے امریکا گئے اور بیماری سے مکمل چھٹکارا حاصل کر کے ہندوستان لوٹ آئے اور یہاں ایک مرتبہ پھر اچھل کود میں مصروف ہیں۔ ان کے ڈانس اسٹیپ اور مار کٹائی کے مناظر اگلے برسوں میں آنے والی ان کی فلموں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ شاہ رخ خان تو اسی سال گھٹنے پر ایک زخم آنے سے دو ہفتوں تک بستر پر پڑے رہے۔ اس دوران ان کی فزیوتھراپی کا سلسلہ جاری رہا اور اب وہ ایک مرتبہ پھر اپنے مداحوں کے درمیان موجود ہیں۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں