چھوٹی عید کی بڑی خوشیاں
عیدالفطر مجھے ہمیشہ سے بہت اچھی لگتی تھی۔ بچپن کی اس میٹھی عید کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ عیدالفطر کو ہم سب بھی باقی بچوں کی طرح میٹھی عید ہی کہا کرتے تھے کیونکہ سب کو یہ پتہ ہوتا تھا کہ اس عید پر میٹھی سویاں، شیر خورمہ یا کھیر ضرور بنائی جائے گی۔
میری امی چاند رات سے بھی بہت پہلے کافی چیزیں تیار کرکے رکھ لیتی تھیں، جیسے گوشت کے کباب، آلو کے کٹلس، دہی بھلے، چنا چاٹ، پاپڑ، حلوہ اور برفی وغیرہ۔ رمضان المبارک میں صبح صبح امی اور باجی مل کر سب گھر والوں کےلیے سحری تیار کرتے، ہم چھوٹے بچوں کا کام صرف کھانا ہوتا اور اس وقت کھانے کی وجہ ہوتی چڑی روزہ رکھنا۔ فریج میں مختلف طرح کے جوس اور کھانے پینے کی چیزیں ہوتیں، ہم بچے سحری میں تو تھوڑا بہت ہی کھا پاتے لیکن دن کو گیارہ بجے کے قریب پیٹ خالی محسوس ہونے لگتا تو اس وقت امی چپس، سینڈوچ یا جوس وغیرہ سے چڑی روزہ کھلوا دیتیں۔
چاند رات ہمارے لیے بہت خاص ہوا کرتی تھی۔ ٹی وی پر چاند کا اعلان ہوتا تھا اور گھر کے تمام افراد بھی چھت پر چاند دیکھنے کےلیے جا پہنچتے تھے۔ بالکل ننھا منا سا چاند بادلوں کی اوٹ میں ہوتا۔ ابو مجھے کہتے کہ بیٹا دیکھو وہ چاند ہے، تمھیں نظر آیا؟ اب مجھے نظر آتا یا نہ آتا میں اپنا سر ہاں میں ہلا دیتی اور کہتی کہ جی ابو کتنا کلیئر چاند ہے۔ یہ الگ بات کہ میرے بھائی اکثر میری بات پر ہنستے تھے کہ پہلے دن کا چاند اتنا کلیئر کیسے ہوسکتا ہے؟
ہم اس وقت راولپنڈی کے ایک گنجان آباد علاقے میں رہا کرتے تھے۔ چاند نکلتے ہی محلے کے بچے پرات اور چمچ لے کر گلی میں نکل آتے اور خوب زور سے پرات بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔ یہ بچے سحری میں اپنے تئیں اسی طرح روزے داروں کو جگانے کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔ ویسے محلے میں ڈھول بجانے والا بھی آتا تھا اور عید کے دن سب گھروں سے خوب عیدی بھی وصول کرتا تھا، آخر اس کا حق بھی بنتا تھا۔ چاند رات کو بچے گھروں کی بیلیں بجا کر بھاگ جایا کرتے تھے اور کوئی ان کو ڈانٹتا بھی نہیں تھا۔
میں اپنی بہنوں کے ساتھ ہمیشہ مہندی لگوانے جایا کرتی تھی۔ ہمارے گھر سے دو گلی پرے ایک خاتون نے اپنے گھر میں ہی پارلر کھول رکھا تھا، وہ محلے کی سب بچپوں کو مناسب پیسوں میں مہندی لگا دیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ میری بڑی بہن بازار سے لکڑی کے ٹھپے (جن پر ڈیزائن کندہ تھے) لے آئیں۔ اس کے ساتھ مائع سی مہندی ہوتی تھی جسے چینی پتی سے تیار کردہ مہندی کہا جاتا ہے۔ اس مہندی کو پہلے ایک فوم نما چیز پر ڈال دیتے تھے اور ٹھپوں کو اس پر لگا کر پھر ہاتھ پر لگا دیا جاتا تھا اور اس طرح سب بہت خوش ہوتے تھے کہ بنا کسی تردد کے مہندی کے ڈیزائن لگ گئے۔
چاند رات کو ہی ہم سب کے کپڑے استری کرکے تیار کردیے جاتے اور ساری رات کپڑے دیکھ دیکھ کر ہمیں نیند نہ آتی اور ہم یہی سوچتے رہتے کہ کب صبح ہوگی اور کب ہم یہ لباس زیب تن کریں گے۔ چاند رات کو ٹی وی لگایا جاتا تو ریموٹ کے حصول کےلیے سب بہن بھائیوں میں جنگ ہونے لگتی۔ اب ہمارا زمانہ اتنا پرانا بھی نہیں تھا لیکن اس وقت سے لے کر اب تک مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ عید پر فلاپ فلمیں ہی کیوں دکھائی جاتی ہیں؟ اس وقت سرکاری ٹی وی تفریح کا باعث تھا اور یہ سب کچھ اتنا برا بھی نہیں تھا۔
عید سے پہلے ہم سب تیار ہوکر عید کارڈز کی خریداری بھی کرتے، پوسٹ کارڈز بھی خریدے جاتے۔ پوسٹ کارڈ پر ٹکٹ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اسکول میں عید کی چھٹیاں ہونے سے پہلے اپنی سب سہیلیوں کو عید کارڈز بھی دینا ہوتے تھے۔ وہ بھی ایک تفریح تھی، ہر طرح کے بے وزن اشعار لکھے جاتے، دوستی کی قسمیں کھائی جاتیں اور کبھی نہ بچھڑنے کا عہد کیا جاتا، یعنی عید کو یادگار بنانے کے تمام تر لوازمات ہوتے۔
عید کی صبح بہت خوبصورت ہوتی۔ ہمارے محلے کی مسجد میں عید کے دن تلاوت کلام پاک ہوتی جس سے ہم سب ہی بیدار ہوجاتے۔ فجر کی نماز پڑھ کر ہم بچے پھر سوجاتے لیکن ابو، چچا اور بڑے بھائی سب مل کر عید کی نماز پڑھنے چلے جاتے۔ پھر ہم سب تیار ہوتے کیونکہ سب بچوں کو عیدی لینے کی جلدی بھی ہوتی۔ کسی کے جوتے نہ ملتے تو کسی کے کپڑے، حالانکہ سب کچھ نظروں کے سامنے ہوتا لیکن خوشی کے مارے کچھ دکھائی بھی نہ دیتا۔
تیاری کے بعد ہم سب عید ملنے دادی اماں کے گھر چلے جاتے۔ بڑے صحن میں ہم سب بچے خوب اودھم مچاتے، ہمارے بڑے بہن بھائی کبھی ہمیں روکتے اور کبھی خود ہمارے ساتھ شامل ہوجاتے۔ پھوپھو اور چاچو ہمیں عیدی دیتے۔ دادی کے گھر کے تین پورشن تھے ایک میں دادی اور پھوپھو رہا کرتی تھیں، دوسرے میں ایک چچا کی فیملی اور تیسرے میں چھوٹے چچا کی فیملی رہائش پذیر تھی، سارا دن ان تین پورشنوں میں کب گزر جاتا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ دادی کے گھر کے بعد ہم بڑی پھوپھو کی طرف بھی جاتے تھے، انھوں نے سویاں، دہی بھلے، فروٹ چاٹ اور جانے کیا کچھ بنایا ہوتا۔ آخر میں باری آتی ہماری سہیلیوں کی طرف جانے کی۔
عید کے دن ہماری ٹیوشن والی باجی بھی ہمیں اپنے گھر ضرور بلاتی تھیں۔ ہم بہت شرمائے اور ڈرے ڈرے ان کے گھر جایا کرتے تھے، آخر کو وہ استاد تھیں اور ہم ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ٹیوشن والی باجی کو عام دنوں کے برعکس اتنا تیار اور خوشگوار سے الگ موڈ میں دیکھنا ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ ہماری بہت تواضع کرتی تھیں۔ ہم قرآن پاک پڑھانے والی آپا جان کو سلام کرنے بھی جایا کرتے تھے۔ دوپہر کا کھانا ہمیں اپنے گھر پر ہی کھانا ہوتا تھا۔ امی نے پلاؤ، زردہ، آلو گوشت اور چکن بنایا ہوتا جسے کھانے کے بعد سب سکون سے سوتے۔ شام کو کہیں پارک کا پلان بنا لیتے اور میرے بھائی اپنا کیمرہ بھی تیار رکھتے کہ سب کی تصویریں کھینچ کر یادیں محفوظ کرلیں۔
لیکن آہ اب ایسی عیدیں کہاں؟ زندگی جتنی مصروف ہوتی گئی ہم سب کے سب ایک خول میں بند ہوتے گئے۔ موبائل نے ہماری زندگیوں کی کتنی رعنائیاں اور خوبصورتیاں چھین لیں۔ نہ اب ملاقاتوں میں وہ مزا ہے نہ لوگوں کے دلوں میں محبت اور خلوص۔ سب کچھ موبائل کی مشین کی طرح میکانکی ہوگیا ہے۔ انسان بھی، اس کے جذبات بھی اور اس کے رشتے بھی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹی عید کی بڑی خوشیاں کہیں دور کھو گئی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔