کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
مرنے والوں کے ڈیجیٹل دنیا میں زندہ رہنے کا سامان ہوگیا
مرنا تو ہر ایک کو ہے، مگر اکثر لوگ مر کر بھی جینے کی خواہش رکھتے ہیں، ایسا نہیں کہ وہ ''بھوت'' بن کر جینا چاہیں، بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ انھیں مرنے کے بعد بھی یاد رکھا جائے اور ان کا تذکرہ کیا جائے۔ مگر ڈیجیٹل دنیا میں مرنے والوں کو باقاعدہ زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی موجود ہے۔
مرکر زندوں کی طرح جینے کا ایک خواہش مندLawrence Darani بھی تھا۔ وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دو سال قبل ڈاکٹروں نے اسے بتادیا تھا کہ اس کے پھیپھڑے جواب دے گئے ہیں، اور وہ زیادہ سے زیادہ دو سال زندہ رہ سکے گا۔ اگرچہ یہ بشر اپنی زندگی کی مدت سے آگاہ ہوگیا اور جانتا تھا کہ اسے کب تک مرجانا ہے، مگر وہ مکمل طور پر پُرسکون تھا۔ وہ چائے پیتا اور جنوبی لندن میں واقع اپنے گھر میں آرام کرسی پر بیٹھا جھولتا رہتا۔ وہ مطمئن تھا، اس لیے کہ کم ازکم اپنے نزدیک وہ زندہ جاوید ہونے جا رہا ہے۔
دراصل ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح لارنس بھی حقیقی دنیا چھوڑنے کے بعد ڈیجیٹل دنیا میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں وہ DeadSocial نامی ایک ویب سائٹ پر سائن اپ ہوچکا تھا۔
''ڈیڈسوشل'' ایک فری آن لائن سروس ہے جو لوگوں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ''زندہ'' رہ سکیں۔ اس مقصد کے لیے اس سائٹ سے استفادہ کرنے والے یوزرز اپنی تصاویر، وڈیوز، آڈیوز اور ٹیکسٹ میسیج بہت بڑی تعداد میں اپ لوڈ کرسکتے ہیں، جو ان کی وفات کے بعد فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈان سمیت ہر اس ویب سائٹ پر جہاں مرنے والے کا اکاؤنٹ ہو اور ڈیڈسوشل پر وقتاً فوقتاً بھیجے جاتے رہیں گے۔ یوزرز اس حوالے سے اپنے میسیجز وغیرہ کا باقاعدہ 999 سال کا شیڈول بھی بناسکتے ہیں، جنھیں اس شیڈول کے مطابق پوسٹ کیا جاتا رہے گا۔
لارنس خوش اور مطمئن تھا کہ ڈیڈسوشل سائٹ کے ذریعے وہ آئندہ ہزاریے تک زندہ رہے گا اور اس کی آنے والی نسلیں اسے اپنے درمیان جیتا جاگتا محسوس کرسکیں گی۔
لارنس اب اس دنیا میں نہیں اور اپنی ڈیجیٹل ورلڈ میں زندگی کے سلسلے میں لارنس نے جو پہلی وڈیو بنوائی وہ ڈیڈسوشل سائٹ پر آچکی ہے، جس میں وہ کہتا ہے،''کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ اس وڈیو کے ذریعے میں نہ صرف اپنی اولاد بل کہ اس کی اولاد سے بھی مخاطب ہو رہا ہوں اور اپنی ان تمام نسلوں سے جو آئندہ آنے والی ہیں۔''
لارنس کی مثال سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ سوشل میڈیا ہمیں مرنے کے بعد بھی زندہ دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس مقصد کے لیے مخصوص ویب سائٹس بہت اہتمام سے تیار کردہ ''میموریل پیکیجز'' کے ذریعے مرنے والوں کی زندگی کو مصنوعی تسلسل دیا جاتا ہے۔ اس طرح مرنے والے کے مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بنائے جانے والے اکاؤنٹس اس کے مرنے کے بعد بھی سرگرم رہتے ہیں، یوں وہ صرف یاد نہیں بنتا بل کہ ایک متحرک فرد کے طور پر اپنے خاندان اور دوستوں میں موجود رہتا ہے۔
''ڈیڈسوشل'' ان ویب سائٹس میں نیا اضافہ ہے جو یوزرز کو مرنے کے بعد زندہ رہنے کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ جو ویب سائٹس یہ سروس دے رہی ہیں ان میں Legacy Locker،Cirrus Legacy اور Secure Safe شامل ہیں۔ یہ سائٹس اپنی سروس حاصل کرنے والے یوزر کے مختلف سوشل ویب سائٹس کے پاس ورڈز اور ان کی اہم فائلز اپنے پاس محفوظ کرلیتی ہیں اور پھر یوزر کے مرنے کے بعد یہ فائلز سوشل ویب سائٹس پر مرنے والے یوزر کے اکاؤنٹ سے پوسٹ کرتی رہتی ہیں۔
یوزر کے بعدازمرگ دنیا سے تعلق برقرار رکھنے والی سائٹس میں LivesOn بھی شامل ہے۔ اس سروس پرووائڈر سائٹ کا سلوگن ہے،''جب آپ کا دل دھڑکنا بند ہوجائے گا تو بھی آپ ٹوئٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔'' یہ سائٹ یوزرز کے زندگی میں کیے گئے ٹوئٹس کا تجزیہ کرتے ہوئے یوزر کے جملوں کی ساخت اور اس کے پسندیدہ موضوعات کے بارے میں اچھی طرح جان کر اسی انداز اور اسلوب میں اور ان ہی موضوعات سے متعلق، یوزر کے مرنے کے بعد، اس کی طرف سے ٹوئٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔
ضروری نہیں کہ کوئی یوزر اپنی موت کے بعد سوشل ویب سائٹس پر زندہ رہنے کے لیے کسی ویب سائٹ کا سہارا لے۔ اس مقصد کے لیے کسی قابل اعتماد شخص کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ جیسے فلموں کے تنقید نگار Roger Ebert نے کیا۔
سرطان کا شکار ہونے کے بعد اس نے اپنی بیوی Chaz کو اپنی ''ڈیجیٹل اسٹیٹ'' کا منیجر مقرر کردیا۔ اپریل 2013 میں جب Roger Ebert دنیا سے گیا تو اس کے فیس بک پیج کو لائیک کرنے والوں کی تعداد 100,000 تھی اور ٹوئٹر پر اس کے اکاؤنٹ کو فالو کرنے والے 850,000 سے زیادہ تھے، وہ چاہتا تھا کہ یہ سلسلہ چلتا رہے، سو اس کے بعد اس کی بیوی نے ان سائٹس پر اپنے شوہر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اپنی موت سے چند ہفتے قبل Roger Ebert نے اپنی بیوی سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اس کے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کرے گی، انھیں ایکٹیو رکھے گی اور اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ پرسنل میسیج بھی کرتی رہے گی۔
مرنے کے بعد سوشل میڈیا کی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے کسی ویب سائٹ یا سوفٹ ویئر پر انحصار کرنے کے بہ جائے کسی فرد کو ذریعہ بنانا ایک راست طریقہ تو ہے، لیکن اس میں کئی مشکلات آڑے آتی ہیں۔
Roger Ebert کی بیوی Chaz کو اپنے شوہر کا اکاؤنٹ استعمال کرنے کے لیے ٹوئٹر کی خصوصی اجازت حاصل کرنا پڑی، کیوں کہ یہ ٹوئٹر اور فیس بک کے ضوابط کے خلاف ہے کہ کسی یوزر کا اکاؤنٹ کوئی اور استعمال کرے۔ فیس بک انتظامیہ کسی مرجانے والے یوزر کے اکاؤنٹ کو ''یادگاری'' اسٹیٹس میں تبدیل کردینے دینے کو ترجیح دیتی ہے۔ جب ایک بار یہ حقیقت سامنے آجائے کہ اکاؤنٹ ہولڈر اس دنیا میں نہیں، تو فیس بک اس اکاؤنٹ سے اسٹیٹس اپ ڈیٹس اور کونٹیکٹ ڈیٹیلز ختم کردیتی ہے۔
مغربی ممالک میں مرنے کے بعد ڈیجیٹل دنیا میں زندہ رہنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے لوگوں کی خواہش پوری کرنے کے لیے قائم کی جانے والی ویب سائٹ DeadSocial کے بانی اور سی ای او James Norris کا دفتر شمالی لندن میں واقع ہے۔ جیمز کہتے ہیں،''اگر ہم امیر ہیں تو ہم اپنے لیے بڑے سے بڑا قبر کا کتبہ خریدیں گے، بہت دولت مند ہوں تو کسی اسپتال کا کوئی حصہ خود سے منسوب کرلیں گے، کتبہ ٹوٹ پھوٹ سکتا ہے، اسپتال گر سکتا ہے، لیکن انٹرنیٹ کہیں نہیں جارہا۔ آپ کا تمام ڈیجیٹل مواد اور دستاویزات یہاں (محفوظ) رہیں گی۔'' یہی وہ احساس ہے جس کی بنا پر موت کی بعد جیتے رہنے کی آرزو کرنے والے انٹرنیٹ کو اپنی اس خواہش کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔
James Norris کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کے مارچ سے، جب ان کی ویب سائٹ قائم ہوئی تھی، ہر روز ان کے یوزرز میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ویب سائٹ کو لوگ دو طرح سے استعمال کرسکتے ہیں، دنیا کو اپنے طریقے سے خیرباد کہنے کے لیے اور مرنے کے بعد بھی ڈیجیٹل دنیا میں زندہ اور متحرک رہنے کے لیے۔ James Norris کا کہنا ہے کہ ہمارے روزوشب کا بیشتر حصہ آن لائن سرگرمیوں میں گزرتا ہے۔ فیس بک پر آپ اپنے دوستوں اور کمیونٹیز کے ساتھ اپنا بہت سا وقت گزارتے ہیں۔ جب ہم مرجاتے ہیں تو ہمارے ڈیجیٹل نقش پا ہمارے ڈیجیٹل ورثہ بن جاتے ہیں۔ یہ ایک طریقہ ہے مرنے والوں کے اس ورثے کو منظم کرنے اور اس کی ملکیت حاصل کرنے کا اور یہ اہتمام کرنے کا کہ آپ کو مرنے کے بعد کیسے یاد رکھا جائے۔
مرنے والوں کو نئی زندگی دینے والی ویب سائٹس میں DeadSocial کی قریب ترین مدمقابل '' If I Die'' ہے۔ یہ 2011 میں سامنے آنے والی ایک اسرائیلی ایپلیکیشن ہے۔ یہ ایپلیکشن اپنے استعمال کنندہ کو یہ سہولت کسی معاوضے کے بغیر فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنا ایک پیغام ریکارڈ کروادیں، جو ان کے مرنے کے بعد ان کی فیس بک وال پر پوسٹ کردیا جائے گا، جب کہ پچیس ڈالر ادا کرکے اس ایپلیکشن کے ذریعے یوزر اپنی پانچ وڈیوز اپ لوڈ کرواسکتا ہے۔ ''اِف آئی ڈائی'' کے تخلیق کار Eran Alfonta کہتے ہیں کہ ان کے یوزرز کی تعداد لاکھوں میں ہے اور امکان ہے کہ یہ تعداد اس سال بڑھ کر دس لاکھ سے تجاوز کرجائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران اس سروس کو استعمال کرنے والوں شام سے تعلق رکھنے والے یوزرز کی تعداد حیرت انگیز طور پر بہت بڑھ گئی ہے۔
واضح رہے کہ شام خانہ جنگی کا شکار ہے، جہاں بھاری تعداد میں اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ زندہ رہنے کی آرزو بھی کتنی ظالم ہے، اس کے لیے انسان کیا کچھ نہیں کرتا۔ اسی آرزو کو اب کاروبار کی شکل دے دی گئی ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا ہے کہ آپ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والا کسی دوست یا عزیز کہ فیس بک اکاؤنٹ پر آپ اس کی شیئر کی ہوئی پوسٹس، تصاویر اور وڈیوز دیکھتے رہیں، اس کے کمنٹس آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے رہیں، اس کے پرائیویٹ میسیج آپ کے پاس آتے رہیں، شاید یہ خود فریبی یہ خوشی دے سکے کہ جو شخص ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلاگیا ہے وہ۔۔۔۔یہیں ہے۔۔۔۔یہیں کہیں ہے۔
مرکر زندوں کی طرح جینے کا ایک خواہش مندLawrence Darani بھی تھا۔ وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دو سال قبل ڈاکٹروں نے اسے بتادیا تھا کہ اس کے پھیپھڑے جواب دے گئے ہیں، اور وہ زیادہ سے زیادہ دو سال زندہ رہ سکے گا۔ اگرچہ یہ بشر اپنی زندگی کی مدت سے آگاہ ہوگیا اور جانتا تھا کہ اسے کب تک مرجانا ہے، مگر وہ مکمل طور پر پُرسکون تھا۔ وہ چائے پیتا اور جنوبی لندن میں واقع اپنے گھر میں آرام کرسی پر بیٹھا جھولتا رہتا۔ وہ مطمئن تھا، اس لیے کہ کم ازکم اپنے نزدیک وہ زندہ جاوید ہونے جا رہا ہے۔
دراصل ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح لارنس بھی حقیقی دنیا چھوڑنے کے بعد ڈیجیٹل دنیا میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں وہ DeadSocial نامی ایک ویب سائٹ پر سائن اپ ہوچکا تھا۔
''ڈیڈسوشل'' ایک فری آن لائن سروس ہے جو لوگوں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ''زندہ'' رہ سکیں۔ اس مقصد کے لیے اس سائٹ سے استفادہ کرنے والے یوزرز اپنی تصاویر، وڈیوز، آڈیوز اور ٹیکسٹ میسیج بہت بڑی تعداد میں اپ لوڈ کرسکتے ہیں، جو ان کی وفات کے بعد فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈان سمیت ہر اس ویب سائٹ پر جہاں مرنے والے کا اکاؤنٹ ہو اور ڈیڈسوشل پر وقتاً فوقتاً بھیجے جاتے رہیں گے۔ یوزرز اس حوالے سے اپنے میسیجز وغیرہ کا باقاعدہ 999 سال کا شیڈول بھی بناسکتے ہیں، جنھیں اس شیڈول کے مطابق پوسٹ کیا جاتا رہے گا۔
لارنس خوش اور مطمئن تھا کہ ڈیڈسوشل سائٹ کے ذریعے وہ آئندہ ہزاریے تک زندہ رہے گا اور اس کی آنے والی نسلیں اسے اپنے درمیان جیتا جاگتا محسوس کرسکیں گی۔
لارنس اب اس دنیا میں نہیں اور اپنی ڈیجیٹل ورلڈ میں زندگی کے سلسلے میں لارنس نے جو پہلی وڈیو بنوائی وہ ڈیڈسوشل سائٹ پر آچکی ہے، جس میں وہ کہتا ہے،''کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ اس وڈیو کے ذریعے میں نہ صرف اپنی اولاد بل کہ اس کی اولاد سے بھی مخاطب ہو رہا ہوں اور اپنی ان تمام نسلوں سے جو آئندہ آنے والی ہیں۔''
لارنس کی مثال سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ سوشل میڈیا ہمیں مرنے کے بعد بھی زندہ دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس مقصد کے لیے مخصوص ویب سائٹس بہت اہتمام سے تیار کردہ ''میموریل پیکیجز'' کے ذریعے مرنے والوں کی زندگی کو مصنوعی تسلسل دیا جاتا ہے۔ اس طرح مرنے والے کے مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بنائے جانے والے اکاؤنٹس اس کے مرنے کے بعد بھی سرگرم رہتے ہیں، یوں وہ صرف یاد نہیں بنتا بل کہ ایک متحرک فرد کے طور پر اپنے خاندان اور دوستوں میں موجود رہتا ہے۔
''ڈیڈسوشل'' ان ویب سائٹس میں نیا اضافہ ہے جو یوزرز کو مرنے کے بعد زندہ رہنے کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ جو ویب سائٹس یہ سروس دے رہی ہیں ان میں Legacy Locker،Cirrus Legacy اور Secure Safe شامل ہیں۔ یہ سائٹس اپنی سروس حاصل کرنے والے یوزر کے مختلف سوشل ویب سائٹس کے پاس ورڈز اور ان کی اہم فائلز اپنے پاس محفوظ کرلیتی ہیں اور پھر یوزر کے مرنے کے بعد یہ فائلز سوشل ویب سائٹس پر مرنے والے یوزر کے اکاؤنٹ سے پوسٹ کرتی رہتی ہیں۔
یوزر کے بعدازمرگ دنیا سے تعلق برقرار رکھنے والی سائٹس میں LivesOn بھی شامل ہے۔ اس سروس پرووائڈر سائٹ کا سلوگن ہے،''جب آپ کا دل دھڑکنا بند ہوجائے گا تو بھی آپ ٹوئٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔'' یہ سائٹ یوزرز کے زندگی میں کیے گئے ٹوئٹس کا تجزیہ کرتے ہوئے یوزر کے جملوں کی ساخت اور اس کے پسندیدہ موضوعات کے بارے میں اچھی طرح جان کر اسی انداز اور اسلوب میں اور ان ہی موضوعات سے متعلق، یوزر کے مرنے کے بعد، اس کی طرف سے ٹوئٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔
ضروری نہیں کہ کوئی یوزر اپنی موت کے بعد سوشل ویب سائٹس پر زندہ رہنے کے لیے کسی ویب سائٹ کا سہارا لے۔ اس مقصد کے لیے کسی قابل اعتماد شخص کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ جیسے فلموں کے تنقید نگار Roger Ebert نے کیا۔
سرطان کا شکار ہونے کے بعد اس نے اپنی بیوی Chaz کو اپنی ''ڈیجیٹل اسٹیٹ'' کا منیجر مقرر کردیا۔ اپریل 2013 میں جب Roger Ebert دنیا سے گیا تو اس کے فیس بک پیج کو لائیک کرنے والوں کی تعداد 100,000 تھی اور ٹوئٹر پر اس کے اکاؤنٹ کو فالو کرنے والے 850,000 سے زیادہ تھے، وہ چاہتا تھا کہ یہ سلسلہ چلتا رہے، سو اس کے بعد اس کی بیوی نے ان سائٹس پر اپنے شوہر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اپنی موت سے چند ہفتے قبل Roger Ebert نے اپنی بیوی سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اس کے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کرے گی، انھیں ایکٹیو رکھے گی اور اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ پرسنل میسیج بھی کرتی رہے گی۔
مرنے کے بعد سوشل میڈیا کی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے کسی ویب سائٹ یا سوفٹ ویئر پر انحصار کرنے کے بہ جائے کسی فرد کو ذریعہ بنانا ایک راست طریقہ تو ہے، لیکن اس میں کئی مشکلات آڑے آتی ہیں۔
Roger Ebert کی بیوی Chaz کو اپنے شوہر کا اکاؤنٹ استعمال کرنے کے لیے ٹوئٹر کی خصوصی اجازت حاصل کرنا پڑی، کیوں کہ یہ ٹوئٹر اور فیس بک کے ضوابط کے خلاف ہے کہ کسی یوزر کا اکاؤنٹ کوئی اور استعمال کرے۔ فیس بک انتظامیہ کسی مرجانے والے یوزر کے اکاؤنٹ کو ''یادگاری'' اسٹیٹس میں تبدیل کردینے دینے کو ترجیح دیتی ہے۔ جب ایک بار یہ حقیقت سامنے آجائے کہ اکاؤنٹ ہولڈر اس دنیا میں نہیں، تو فیس بک اس اکاؤنٹ سے اسٹیٹس اپ ڈیٹس اور کونٹیکٹ ڈیٹیلز ختم کردیتی ہے۔
مغربی ممالک میں مرنے کے بعد ڈیجیٹل دنیا میں زندہ رہنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے لوگوں کی خواہش پوری کرنے کے لیے قائم کی جانے والی ویب سائٹ DeadSocial کے بانی اور سی ای او James Norris کا دفتر شمالی لندن میں واقع ہے۔ جیمز کہتے ہیں،''اگر ہم امیر ہیں تو ہم اپنے لیے بڑے سے بڑا قبر کا کتبہ خریدیں گے، بہت دولت مند ہوں تو کسی اسپتال کا کوئی حصہ خود سے منسوب کرلیں گے، کتبہ ٹوٹ پھوٹ سکتا ہے، اسپتال گر سکتا ہے، لیکن انٹرنیٹ کہیں نہیں جارہا۔ آپ کا تمام ڈیجیٹل مواد اور دستاویزات یہاں (محفوظ) رہیں گی۔'' یہی وہ احساس ہے جس کی بنا پر موت کی بعد جیتے رہنے کی آرزو کرنے والے انٹرنیٹ کو اپنی اس خواہش کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔
James Norris کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کے مارچ سے، جب ان کی ویب سائٹ قائم ہوئی تھی، ہر روز ان کے یوزرز میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ویب سائٹ کو لوگ دو طرح سے استعمال کرسکتے ہیں، دنیا کو اپنے طریقے سے خیرباد کہنے کے لیے اور مرنے کے بعد بھی ڈیجیٹل دنیا میں زندہ اور متحرک رہنے کے لیے۔ James Norris کا کہنا ہے کہ ہمارے روزوشب کا بیشتر حصہ آن لائن سرگرمیوں میں گزرتا ہے۔ فیس بک پر آپ اپنے دوستوں اور کمیونٹیز کے ساتھ اپنا بہت سا وقت گزارتے ہیں۔ جب ہم مرجاتے ہیں تو ہمارے ڈیجیٹل نقش پا ہمارے ڈیجیٹل ورثہ بن جاتے ہیں۔ یہ ایک طریقہ ہے مرنے والوں کے اس ورثے کو منظم کرنے اور اس کی ملکیت حاصل کرنے کا اور یہ اہتمام کرنے کا کہ آپ کو مرنے کے بعد کیسے یاد رکھا جائے۔
مرنے والوں کو نئی زندگی دینے والی ویب سائٹس میں DeadSocial کی قریب ترین مدمقابل '' If I Die'' ہے۔ یہ 2011 میں سامنے آنے والی ایک اسرائیلی ایپلیکیشن ہے۔ یہ ایپلیکشن اپنے استعمال کنندہ کو یہ سہولت کسی معاوضے کے بغیر فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنا ایک پیغام ریکارڈ کروادیں، جو ان کے مرنے کے بعد ان کی فیس بک وال پر پوسٹ کردیا جائے گا، جب کہ پچیس ڈالر ادا کرکے اس ایپلیکشن کے ذریعے یوزر اپنی پانچ وڈیوز اپ لوڈ کرواسکتا ہے۔ ''اِف آئی ڈائی'' کے تخلیق کار Eran Alfonta کہتے ہیں کہ ان کے یوزرز کی تعداد لاکھوں میں ہے اور امکان ہے کہ یہ تعداد اس سال بڑھ کر دس لاکھ سے تجاوز کرجائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران اس سروس کو استعمال کرنے والوں شام سے تعلق رکھنے والے یوزرز کی تعداد حیرت انگیز طور پر بہت بڑھ گئی ہے۔
واضح رہے کہ شام خانہ جنگی کا شکار ہے، جہاں بھاری تعداد میں اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ زندہ رہنے کی آرزو بھی کتنی ظالم ہے، اس کے لیے انسان کیا کچھ نہیں کرتا۔ اسی آرزو کو اب کاروبار کی شکل دے دی گئی ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا ہے کہ آپ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والا کسی دوست یا عزیز کہ فیس بک اکاؤنٹ پر آپ اس کی شیئر کی ہوئی پوسٹس، تصاویر اور وڈیوز دیکھتے رہیں، اس کے کمنٹس آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے رہیں، اس کے پرائیویٹ میسیج آپ کے پاس آتے رہیں، شاید یہ خود فریبی یہ خوشی دے سکے کہ جو شخص ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلاگیا ہے وہ۔۔۔۔یہیں ہے۔۔۔۔یہیں کہیں ہے۔