غزہ میں عید
ہم ارض مقدس کے مظلوم باسیوں کو بھولے بیٹھے ہیں۔ غزہ خون میں ڈوبا ہوا ہے۔
عیدالفطر امت مسلمہ کا سب سے بڑا خوشی کا تہوار ہے۔ متمول مسلمان اپنے کمزور مسلمان بہن بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک کرتا ہے لیکن ہم ارض مقدس کے مظلوم باسیوں کو بھولے بیٹھے ہیں ۔ غزہ خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ فلسطینی آج بھی فضائی بمباری، میزائل حملوں، ٹینکوں اور توپ خانے کے نشانے پر اور ہر تحفظ سے محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ظلم، ناانصافی اور جارحیت کو روکنا تھا، کمزور اقوام کو زندہ رہنے کا حق دینا تھا، ان کی آزادی کا تحفظ کرنا تھا لیکن فلسطین کے مظلوم باسیوں کے حق میں اس ادارے نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔ چند روز قبل غزہ میں جنگ بندی کی ایک قرارداد سلامتی کونسل میں منظور ضرور ہوئی لیکن وہ قرارداد محض ایک کا غذ کا ٹکڑا ہے، کیوں کہ اس پر ایک فیصد بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
آٹھ اکتوبر کے بعد سے لمحہ موجود تک صیہونیت کا ظلم جاری ہے۔ پورا رمضان فلسطینیوں نے گولہ و بارود کے سائے میں گزارا۔ اپنے وطن کی آزادی کے لیے لازوال شہادتیں پیش کیں۔ چند روز قبل اسرائیل نے کئی دن کے محاصرے کے بعد غزہ میں الشفا اسپتال کو خالی کیا ہے۔ اسپتال بچوں اور خواتین کی لاشوں سے بھرا پڑا ہے۔ چار سو سے زیادہ افراد لاپتا ہیں جن میں اکثر خواتین ہیں غالب امکان یہی ہے کہ انھیں اسرائیلی درندے اٹھا کر لے گئے ہیں۔
یہ سب کچھ چنگیز خان، ہلاکو اور ہٹلر کے دور میں بھی نہیں ہوا لیکن آج کے مہذب ترین دور میں ہو رہا ہے۔آج سارا عالمی میڈیا ایسی ہی خبروں سے بھرا پڑا ہے لیکن مسلم ممالک کا میڈیا خاموش ہے۔ اس مجرمانہ خاموشی کی امت بہت بڑی قیمت ادا کر رہی ہے، شاید کسی نے اس کی قیمت وصول بھی کی ہو۔
پورے عالم اسلام کو ملت واحدہ بن کر جسد واحد کی طرح فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا لیکن یہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں، ترکی کردوں پہ بمباری کر رہا ہے، ایران ، یمن ،شام اور عراق پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ عرب عسکری اتحاد سعودی عرب کی قیادت میں یمنیوں کو سبق سکھانے میں مصروف ہے۔ لگتا ہے سب اپنے اپنے مفادات اور تعصبات میں الجھے ہوئے ہیں۔
امریکا اب تک اسرائیل کو سات ارب کا اسلحہ دے چکا ہے۔ فلسطینیوں کی حالت زار نے رمضان میں مسلسل بے چین کیے رکھا کہ غزہ میں میزائیلوں اور بمبوں کی بارش میں کیسے سحر و افطار ہوا ہو گا۔ رمضان کا ہر دن اسی خیال سے گزرا کہ اپنا دسترخوان تو نعمتوں سے سجا ہوا ہے لیکن غزہ کے بچے گھاس کا سوپ پی کر سحر وافطار کر رہے ہیں۔ اسرائیل سے کوئی گلہ نہیں کیوں کہ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا قوم یہود کی فطرت کے منافی ہے۔
انھوں نے اپنی قسمت، زبان، نسل سے آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا، نافرمانی کی، ستایا، مذاق اڑایا، قتل تک کرگزرے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدے کیے اور ہر بار عہد شکنی کے مرتکب ہوئے۔ مگر سوچتا ہوں وہ کیسے مسلمان حکمران ہوں گے۔
جہنوں نے سمندری قزاقوں کے ہاتھوں لٹنے والے جہاز سے ایک لڑکی کے لکھے ہوئے خط پر سندھ پر حملہ کیا اور برصغیر پاک و ہند میں ایک اسلامی ریاست قائم کی جو پورے برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ مگر آج روز زخموں سے چور فلسطینی بچے مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں روز دختران ملت کے دوپٹے سروں سے کھینچے جاتے ہیں مگر کسی مسلمان حکمران میں ہمت نہیں ہوتی کہ اسرائیل کو سبق سکھایا جائے ۔
اس بے حسی کو دیکھ کر ماننا پڑے گا کہ انسانی تاریخ اپنی تاریخ کے اس مقام پر آن پہنچی ہے جہاں سے اسے دوبارہ لکھے جانے کامرحلہ درپیش ہے۔ معیار، مثال، علامت اور استعارہ بدل چکا ہے۔ چنگیز خان کی منگول فتوحات میں چونتیس ملین افراد تہ تیغ ہوئے تھے۔
تیمور گورگان کی گردن پر چودہ ملین انسانی جانوں کا ہار ہے جب کہ ہٹلر پر اکیس ملین ہلاکتوں کی ذمے داری عائد ہے۔ اگر یہ قاتلین انسانیت جو مجموعی طور پر 73ملین افراد کے قتل پر ظلم و بربریت کا استعارہ بنے ہوئے ہیں تو لاکھوں فلسطینی، لاکھوں کشمیری، لاکھوں افغانیوں ایک ملین سے زائد عراقیوں، ہزاروں شامیوں کے قتل کو کیا کہا جائے گا؟ دنیا بھر کے دانشور، مفکر اور اہل قلم اس ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ خون آشامی کے معیار بدلیں کہ بربریت کی مثالیں۔ اسرائیل امریکی آشیر باد سے ظلم و بربریت کی نئی مثالیں قائم کرتا چلا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ اپنی ہی قرار دادوں پر عمل درآمد کرانے سے معذور اور مفلوج ہے، عالمی عدالت انصاف کے لولے لنگڑے فیصلے صیہونیت کو حوصلے بخش رہے ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کی معذرت خواہانہ پالیسیاں مظلوم فلسطینیوں کے بجائے ظالم اسرائیل کو سپورٹ کررہی ہیں۔ مظلوم قوم اور دنیا بھر کے بے بس مسلمان کہاں جائیں، کس سے فریاد کریں؟ ہماری امید تو اب سورۃ بنی اسرائیل کی اس نوید سے وابستہ ہے جس کی تکمیل کی راہ میں ہماری بدعملی اور بدعہدی دیوار کی طرح حائل ہے۔
سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''ہم نے پلٹا دیا تمہارے حق میں زمانے کی گردش کو جو دشمن کے خلاف تھی اور ہم نے قوت بخشی مال سے، بیٹوں سے اور بنا دیا تمہیں کثیر التعداد''۔ لاریب، بلا شک و بلا تحقیق ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے اللہ! تو نے مال سے، بیٹوں سے اور کثیر التعدادی سے ہمیں قوت بخشی اور خوب بخشی۔ اب زمانہ کی گردش بھی ہمارے حق میں پلٹا کر اس نصف عہد کو بھی ہم پر پورا کردے کہ جس کی تکمیل میں ہماری بد عہدیاں اور بداعمالیاں حائل ہیں۔ انھیں نظر انداز فرما۔ ہمیں معاف کردے۔ اہل فلسطین کے خلاف آندھیوں کی طرح چلنے والی گردش ہمارے حق میں پلٹا دے اورجو عید غزہ میں آئی ہے ایسی عید دنیا کے کسی خطے میں دوبارہ نہ آئے۔
اے امت مسلمہ کے غیور مسلمانوں اب ہم نے حکمرانوں کی طرف نہیں دیکھنا، جھولی پھیلا کر اپنے رب سے مانگنا ہے، توبہ و استغفار سے اللہ تبارک و تعالی کو راضی کرنا ہے ، قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا ہے۔ انشاء اللہ منتقم اللہ اسرائیلی درندوں سے مظلوم فلسطینیوں کا انتقام بھی لے گا اور مثل بدر نصرت الہی سے فتح یاب بھی کرے گا۔
اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ظلم، ناانصافی اور جارحیت کو روکنا تھا، کمزور اقوام کو زندہ رہنے کا حق دینا تھا، ان کی آزادی کا تحفظ کرنا تھا لیکن فلسطین کے مظلوم باسیوں کے حق میں اس ادارے نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔ چند روز قبل غزہ میں جنگ بندی کی ایک قرارداد سلامتی کونسل میں منظور ضرور ہوئی لیکن وہ قرارداد محض ایک کا غذ کا ٹکڑا ہے، کیوں کہ اس پر ایک فیصد بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
آٹھ اکتوبر کے بعد سے لمحہ موجود تک صیہونیت کا ظلم جاری ہے۔ پورا رمضان فلسطینیوں نے گولہ و بارود کے سائے میں گزارا۔ اپنے وطن کی آزادی کے لیے لازوال شہادتیں پیش کیں۔ چند روز قبل اسرائیل نے کئی دن کے محاصرے کے بعد غزہ میں الشفا اسپتال کو خالی کیا ہے۔ اسپتال بچوں اور خواتین کی لاشوں سے بھرا پڑا ہے۔ چار سو سے زیادہ افراد لاپتا ہیں جن میں اکثر خواتین ہیں غالب امکان یہی ہے کہ انھیں اسرائیلی درندے اٹھا کر لے گئے ہیں۔
یہ سب کچھ چنگیز خان، ہلاکو اور ہٹلر کے دور میں بھی نہیں ہوا لیکن آج کے مہذب ترین دور میں ہو رہا ہے۔آج سارا عالمی میڈیا ایسی ہی خبروں سے بھرا پڑا ہے لیکن مسلم ممالک کا میڈیا خاموش ہے۔ اس مجرمانہ خاموشی کی امت بہت بڑی قیمت ادا کر رہی ہے، شاید کسی نے اس کی قیمت وصول بھی کی ہو۔
پورے عالم اسلام کو ملت واحدہ بن کر جسد واحد کی طرح فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا لیکن یہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں، ترکی کردوں پہ بمباری کر رہا ہے، ایران ، یمن ،شام اور عراق پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ عرب عسکری اتحاد سعودی عرب کی قیادت میں یمنیوں کو سبق سکھانے میں مصروف ہے۔ لگتا ہے سب اپنے اپنے مفادات اور تعصبات میں الجھے ہوئے ہیں۔
امریکا اب تک اسرائیل کو سات ارب کا اسلحہ دے چکا ہے۔ فلسطینیوں کی حالت زار نے رمضان میں مسلسل بے چین کیے رکھا کہ غزہ میں میزائیلوں اور بمبوں کی بارش میں کیسے سحر و افطار ہوا ہو گا۔ رمضان کا ہر دن اسی خیال سے گزرا کہ اپنا دسترخوان تو نعمتوں سے سجا ہوا ہے لیکن غزہ کے بچے گھاس کا سوپ پی کر سحر وافطار کر رہے ہیں۔ اسرائیل سے کوئی گلہ نہیں کیوں کہ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا قوم یہود کی فطرت کے منافی ہے۔
انھوں نے اپنی قسمت، زبان، نسل سے آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا، نافرمانی کی، ستایا، مذاق اڑایا، قتل تک کرگزرے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدے کیے اور ہر بار عہد شکنی کے مرتکب ہوئے۔ مگر سوچتا ہوں وہ کیسے مسلمان حکمران ہوں گے۔
جہنوں نے سمندری قزاقوں کے ہاتھوں لٹنے والے جہاز سے ایک لڑکی کے لکھے ہوئے خط پر سندھ پر حملہ کیا اور برصغیر پاک و ہند میں ایک اسلامی ریاست قائم کی جو پورے برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ مگر آج روز زخموں سے چور فلسطینی بچے مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں روز دختران ملت کے دوپٹے سروں سے کھینچے جاتے ہیں مگر کسی مسلمان حکمران میں ہمت نہیں ہوتی کہ اسرائیل کو سبق سکھایا جائے ۔
اس بے حسی کو دیکھ کر ماننا پڑے گا کہ انسانی تاریخ اپنی تاریخ کے اس مقام پر آن پہنچی ہے جہاں سے اسے دوبارہ لکھے جانے کامرحلہ درپیش ہے۔ معیار، مثال، علامت اور استعارہ بدل چکا ہے۔ چنگیز خان کی منگول فتوحات میں چونتیس ملین افراد تہ تیغ ہوئے تھے۔
تیمور گورگان کی گردن پر چودہ ملین انسانی جانوں کا ہار ہے جب کہ ہٹلر پر اکیس ملین ہلاکتوں کی ذمے داری عائد ہے۔ اگر یہ قاتلین انسانیت جو مجموعی طور پر 73ملین افراد کے قتل پر ظلم و بربریت کا استعارہ بنے ہوئے ہیں تو لاکھوں فلسطینی، لاکھوں کشمیری، لاکھوں افغانیوں ایک ملین سے زائد عراقیوں، ہزاروں شامیوں کے قتل کو کیا کہا جائے گا؟ دنیا بھر کے دانشور، مفکر اور اہل قلم اس ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ خون آشامی کے معیار بدلیں کہ بربریت کی مثالیں۔ اسرائیل امریکی آشیر باد سے ظلم و بربریت کی نئی مثالیں قائم کرتا چلا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ اپنی ہی قرار دادوں پر عمل درآمد کرانے سے معذور اور مفلوج ہے، عالمی عدالت انصاف کے لولے لنگڑے فیصلے صیہونیت کو حوصلے بخش رہے ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کی معذرت خواہانہ پالیسیاں مظلوم فلسطینیوں کے بجائے ظالم اسرائیل کو سپورٹ کررہی ہیں۔ مظلوم قوم اور دنیا بھر کے بے بس مسلمان کہاں جائیں، کس سے فریاد کریں؟ ہماری امید تو اب سورۃ بنی اسرائیل کی اس نوید سے وابستہ ہے جس کی تکمیل کی راہ میں ہماری بدعملی اور بدعہدی دیوار کی طرح حائل ہے۔
سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''ہم نے پلٹا دیا تمہارے حق میں زمانے کی گردش کو جو دشمن کے خلاف تھی اور ہم نے قوت بخشی مال سے، بیٹوں سے اور بنا دیا تمہیں کثیر التعداد''۔ لاریب، بلا شک و بلا تحقیق ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے اللہ! تو نے مال سے، بیٹوں سے اور کثیر التعدادی سے ہمیں قوت بخشی اور خوب بخشی۔ اب زمانہ کی گردش بھی ہمارے حق میں پلٹا کر اس نصف عہد کو بھی ہم پر پورا کردے کہ جس کی تکمیل میں ہماری بد عہدیاں اور بداعمالیاں حائل ہیں۔ انھیں نظر انداز فرما۔ ہمیں معاف کردے۔ اہل فلسطین کے خلاف آندھیوں کی طرح چلنے والی گردش ہمارے حق میں پلٹا دے اورجو عید غزہ میں آئی ہے ایسی عید دنیا کے کسی خطے میں دوبارہ نہ آئے۔
اے امت مسلمہ کے غیور مسلمانوں اب ہم نے حکمرانوں کی طرف نہیں دیکھنا، جھولی پھیلا کر اپنے رب سے مانگنا ہے، توبہ و استغفار سے اللہ تبارک و تعالی کو راضی کرنا ہے ، قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا ہے۔ انشاء اللہ منتقم اللہ اسرائیلی درندوں سے مظلوم فلسطینیوں کا انتقام بھی لے گا اور مثل بدر نصرت الہی سے فتح یاب بھی کرے گا۔