یہ مہر و مہ یہ ستارے…
دیہات میں زندگی ماضی کے مقابلے میں بہت آسان ہو گئی ہے، اب شہر کی سہولتیں دیہاتوں میں بھی دستیاب ہیں
رات کا ایک پہر گزر چکا ہے خنک موسم میں صاف شفاف آسمان پر ستارے جھلملا رہے ہیں، ستاروں کی کہکشاں دیکھنا تب ہی ممکن ہے ، جب آسمان صاف ہو اور صاف آسمان لاہور سے بہت دور گاؤں میں ہی ہوتا ہے۔
لاہور میں آب و ہوا اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ سانس لینا بھی دو بھر ہو جاتا ہے، آلودہ فضا میں آسمان پر تارے کیسے نظر آئیں، لاہور سے جب وادی سوں میں آبائی گاؤں پہنچتے ہیں تو سانسیں بحال ہو جاتی ہیں اور درخت دھلے دھلے نظر آتے ہیں، تازہ ہوا طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیتی ہے۔
میرے ایک شہری دوست ایک مرتبہ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ جب بھی گاؤں جاتے ہیں تو دیہی زندگی پر کالم لکھ دیتے ہیں، میرا مشورہ ہے، سیاست پر زیادہ لکھیںکہ قارئین یہی پسند کرتے ہیں، مقبولیت اپوزیشن کی حمایت میں لکھنے پر ہوتی ہے۔ میں نے ان کا مشورہ سن تو لیا لیکن یہ نہ کہہ سکا کہ ہم شہروں میںچاہے کتنے ہی ماہ و سال گزار لیں لیکن گاؤں ہمارے اندر سے نہیں نکل سکتا ، جب موقع ملتا ہے، ایک دیہاتی اپنے گاؤں ضرور جاتا ہے ۔
عید کا تہواردیہات واسیوں کے لیے میل جول کا موقع بن جاتا ہے ۔ اس لیے دیہاتی عید منانے اپنے گاؤں لازمی آتے ہیں، یہی معاملہ میرے ساتھ بھی ہے ، میں بھی عید منانے گاؤں آچکا ہوں ۔ لاہور کی ہنگامہ خیز زندگی سے دور سر سبز پہاڑوں میں گھرے گاؤں میں رات کے اس پہر ہو کا عالم ہے اور سانسوں کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے ۔ میں اپنے گھر کے برآمدے میں بیٹھا کمپیوٹر پر کالم لکھ رہا ہوں اور آسمان پر ستارے جگمگ جگمگ چمک رہے ہیں۔ حضرت اقبال فرماتے ہیں۔
یہ مہرومہ، یہ ستارے یہ آسمان کبود
کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجود
میںیہ سوچ رہا ہوں کہ یہ وہی گاؤں ہے جہاں میرے آباؤ اجداد پلے بڑھے، بارانی زمینوں پر اجناس اگا کر بچوں کو پڑھایا لکھایا اور ایک باعزت زندگی گزاری۔میرے مرحوم والد بھی اسی گاؤں سے ابتدائی تعلیم حاصل کر کے لاہور منتقل ہوئے اور اپنے وقت کے جید اساتذہ کرام سے جدید علوم کے علاوہ عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا، پھر اسی تعلیم کے زور پر صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اورجدید سیاسی کالم نگاری کے بانی کہلائے ۔
ان کے لیے یہ باعث حیرت ہوتا کہ جس گاؤں میں بنیادی سہولتیں تک دستیاب نہیں تھیں ، آج وہاں کمپیوٹر کے ذریعے کالم لکھ کر اخبار کے دفتر کو بجھوائے جارہے ہیں۔ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جس نے گاؤںکے اسکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی، اپنے اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سہی اور لالٹین کی روشنی میں کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔ لاہور سے بہت دور پنجاب کی وادی سون میں بجلی کے قمقمے 1985 کے بعد روشن ہوئے۔
اس سے قبل لالٹین ہوتی تھی، یہ لالٹین گاؤں کے دکانداروں کے پاس بھی دستیاب ہوتی تھیںلیکن لنڈی کوتل کی لالٹینیں بہت مشہور تھیں اورجب کوئی فوجی چھٹی آرہا ہوتا تھا تواسے خط لکھ کر لنڈی کوتل کی لالٹین لانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔ گاؤں میں چند ایک متمول گھرانوں میں کیروسین کے لیمپ بھی ہوتے تھے جو خاص موقع پر ہی روشن کیے جاتے تھے۔آج کے جدید زمانے میں یہ پائیدارچیزیں متروک ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ چائنہ سے درآمد شدہ بجلی کی لائٹوں نے لے لی ہے۔
دیہات میں زندگی ماضی کے مقابلے میں بہت آسان ہو گئی ہے، اب شہر کی سہولتیں دیہاتوں میں بھی دستیاب ہیں لیکن اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ روز گار کی ہے جو گاؤں میں دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے یہ کوشش کی ہے کہ دیہات میں روز گار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ دیہات سے شہروں کو نقل مکانی کم ہوسکے،بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کا سارا زور چند بڑے شہروں کی ترقی پر ہے، دیہات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کا خمیازہ شہروں میں بے پناہ آبادی کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں۔
آج بھی دیہات میں کھیتی باڑ ی کے سوا کوئی روز گار نہیں ہے البتہ سہولتیں زیادہ ہو گئی ہیں، جن کے لیے جیب گرم ہونی چاہیے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ روزگار ہوگا۔ بشرط زندگی مزید معروضات اگلے کالم میں ابھی تو قارئین کو عید مبارک۔
لاہور میں آب و ہوا اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ سانس لینا بھی دو بھر ہو جاتا ہے، آلودہ فضا میں آسمان پر تارے کیسے نظر آئیں، لاہور سے جب وادی سوں میں آبائی گاؤں پہنچتے ہیں تو سانسیں بحال ہو جاتی ہیں اور درخت دھلے دھلے نظر آتے ہیں، تازہ ہوا طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیتی ہے۔
میرے ایک شہری دوست ایک مرتبہ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ جب بھی گاؤں جاتے ہیں تو دیہی زندگی پر کالم لکھ دیتے ہیں، میرا مشورہ ہے، سیاست پر زیادہ لکھیںکہ قارئین یہی پسند کرتے ہیں، مقبولیت اپوزیشن کی حمایت میں لکھنے پر ہوتی ہے۔ میں نے ان کا مشورہ سن تو لیا لیکن یہ نہ کہہ سکا کہ ہم شہروں میںچاہے کتنے ہی ماہ و سال گزار لیں لیکن گاؤں ہمارے اندر سے نہیں نکل سکتا ، جب موقع ملتا ہے، ایک دیہاتی اپنے گاؤں ضرور جاتا ہے ۔
عید کا تہواردیہات واسیوں کے لیے میل جول کا موقع بن جاتا ہے ۔ اس لیے دیہاتی عید منانے اپنے گاؤں لازمی آتے ہیں، یہی معاملہ میرے ساتھ بھی ہے ، میں بھی عید منانے گاؤں آچکا ہوں ۔ لاہور کی ہنگامہ خیز زندگی سے دور سر سبز پہاڑوں میں گھرے گاؤں میں رات کے اس پہر ہو کا عالم ہے اور سانسوں کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے ۔ میں اپنے گھر کے برآمدے میں بیٹھا کمپیوٹر پر کالم لکھ رہا ہوں اور آسمان پر ستارے جگمگ جگمگ چمک رہے ہیں۔ حضرت اقبال فرماتے ہیں۔
یہ مہرومہ، یہ ستارے یہ آسمان کبود
کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجود
میںیہ سوچ رہا ہوں کہ یہ وہی گاؤں ہے جہاں میرے آباؤ اجداد پلے بڑھے، بارانی زمینوں پر اجناس اگا کر بچوں کو پڑھایا لکھایا اور ایک باعزت زندگی گزاری۔میرے مرحوم والد بھی اسی گاؤں سے ابتدائی تعلیم حاصل کر کے لاہور منتقل ہوئے اور اپنے وقت کے جید اساتذہ کرام سے جدید علوم کے علاوہ عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا، پھر اسی تعلیم کے زور پر صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اورجدید سیاسی کالم نگاری کے بانی کہلائے ۔
ان کے لیے یہ باعث حیرت ہوتا کہ جس گاؤں میں بنیادی سہولتیں تک دستیاب نہیں تھیں ، آج وہاں کمپیوٹر کے ذریعے کالم لکھ کر اخبار کے دفتر کو بجھوائے جارہے ہیں۔ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جس نے گاؤںکے اسکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی، اپنے اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سہی اور لالٹین کی روشنی میں کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔ لاہور سے بہت دور پنجاب کی وادی سون میں بجلی کے قمقمے 1985 کے بعد روشن ہوئے۔
اس سے قبل لالٹین ہوتی تھی، یہ لالٹین گاؤں کے دکانداروں کے پاس بھی دستیاب ہوتی تھیںلیکن لنڈی کوتل کی لالٹینیں بہت مشہور تھیں اورجب کوئی فوجی چھٹی آرہا ہوتا تھا تواسے خط لکھ کر لنڈی کوتل کی لالٹین لانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔ گاؤں میں چند ایک متمول گھرانوں میں کیروسین کے لیمپ بھی ہوتے تھے جو خاص موقع پر ہی روشن کیے جاتے تھے۔آج کے جدید زمانے میں یہ پائیدارچیزیں متروک ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ چائنہ سے درآمد شدہ بجلی کی لائٹوں نے لے لی ہے۔
دیہات میں زندگی ماضی کے مقابلے میں بہت آسان ہو گئی ہے، اب شہر کی سہولتیں دیہاتوں میں بھی دستیاب ہیں لیکن اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ روز گار کی ہے جو گاؤں میں دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے یہ کوشش کی ہے کہ دیہات میں روز گار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ دیہات سے شہروں کو نقل مکانی کم ہوسکے،بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کا سارا زور چند بڑے شہروں کی ترقی پر ہے، دیہات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کا خمیازہ شہروں میں بے پناہ آبادی کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں۔
آج بھی دیہات میں کھیتی باڑ ی کے سوا کوئی روز گار نہیں ہے البتہ سہولتیں زیادہ ہو گئی ہیں، جن کے لیے جیب گرم ہونی چاہیے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ روزگار ہوگا۔ بشرط زندگی مزید معروضات اگلے کالم میں ابھی تو قارئین کو عید مبارک۔