میری سیاست

میرے بزرگ نے ہر ایک درخواست پر اس امیدوار کی پر زور سفارش کا نوٹ لکھا۔

h.sethi@hotmail.com

لاہور:
جب میں کالج میں داخل ہوا تو ایک نالائق طالبعلم سمجھا جاتا تھا لیکن تعلیم کے علاوہ ہر دوسرے شعبے میں تیز و طرار اور شاطر ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ جہاں تک سیاست نامی لفظ سے تعارف کا تعلق ہے میں اپنے گھرانے کے بزرگ اور ان کے حجرے میں ان سے ملنے آئے لوگوں کے پاس بیٹھا انھیں ملاقاتیوں سے بات چیت کرتے دیکھتا رہتا تھا۔ وہ ہر سوالی سے اس کا کام کروا دینے کا وعدہ کر لیا کرتے تھے۔ ایک روز دس پندرہ لوگوں نے ان کے پاس اپنا بندہ کانسٹیبل پولیس میں بھرتی کروانے کی درخواستیں پیش کیں۔

میرے بزرگ نے ہر ایک درخواست پر اس امیدوار کی پر زور سفارش کا نوٹ لکھا۔ سب کے چلے جانے کے بعد میرے چچا نے ہنس کر کہا، میاں جی کانسٹیبل کی اسامی تو صرف ایک ہے۔ میاں جی نے اپنے پاس رکھی ہوئی ایک درخواست اسے دکھائی اور کہا ''اصل امیدوار جو بھرتی ہو گا وہ یہ ہے جس کے باپ کو میں نے ابھی گالی دے کر دفع ہو جانے کے لیے کہا تھا اور اس کی پیش کردہ درخواست ایک طرف پھینک دی تھی۔ بچے تم سیاست میں ابھی ناپختہ ہو۔'' یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے مناظر میرے مشاہدات اور واقعات میرے نوٹس میں اکثر آتے جن کی حقیقت اور منطق میرے ناقص ذہن سے بھی کترا کے گزر جاتی یعنی بقول ایک زیرک مصاحب کے؎

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

یعنی میرے بزرگ سیاستدان اکثر و بیشتر کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہی تھے۔ اکثر تو میں بھی جو تسلیم شدہ ناقص العقل تھا چکرا کر رہ جاتا۔ تعلیم چھوڑیے میری تربیت کی بنیاد بھی کچھ کچھ ایسی ہی رہی۔

مختلف تنازعوں میں ملوث فریق ان کے فیصلے کروانے میرے سیاسی بزرگوں کے پاس آتے رہتے۔ ایک روز فریقین کی باتیں سنتے ہوئے میں نے خلاف معمول دخل اندازی کرتے ہوئے کہا اس جھگڑے کا ایک حل یہ ہے کہ ہر دو فریق اپنی اپنی اراضی میرے پاس فروخت کر کے میری طے کردہ رقم لے کر صلح کر کے دس سالہ تنازع ختم کر دیں۔ میں نے تمام اراضی مارکیٹ ویلیو سے آدھی قیمت پر خریدنے کا عندیہ دیا تو میرے بزرگ سیاستدان میری اس چال پر انگشت بدنداں رہ گئے اور فریقین کو حکم دیا کہ فیصلہ قبول کر لیں۔

میں نے اس اراضی کا ایک خریدار بھی پیدا کر لیا اور بغیر کوئی رقم لگائے منافع بھی کما لیا۔ اس روز میرے بڑوں نے حکم سنا دیا کہ اس نوعیت کے تمام تنازعے آئندہ صرف میں حل کیا کروں گا۔ میں خود اپنی اس چالاکی پر حیران تو ہوا لیکن جو رقم اس مہارت پر کما لی اس پر میرے بزرگوں نے میری ستائش کے ساتھ اس فیصلے کو سیاست بازی میں میرا پہلا قدم قرار دے دیا اور مجھے مستقبل کا کامیاب سیاستدان ڈکلیئر کر دیا۔


اس واقعے کے بعد البتہ اراضی کے تنازعوں کو فریقین کی بات سن کر طے کرنے میں مجھے کبھی دیر لگی نہ دقت ہوئی کیونکہ میرے فیصلے سے کسی کو اختلاف کی جرأت تھی نہ ہی اس کے خلاف اپیل کی گنجائش اور میرے بزرگ کسی بھی فریق کی بات فیصلے کے بعد سننے کے مجاز نہ تھے کیونکہ مجھے حتمی فیصلہ صادر کرنے کا اختیار بھی ان ہی کا دیا ہوا تھا اور فیصلے سے روگردانی کا انجام بھی سب کے علم میں تھا۔

مجھے بتایا گیا تھا کہ زر، زن اور زمین کے جھگڑے اور مقدمات بہت طول کھینچتے ہیں اور جو ایک بار کچہری تھانے چڑھ گیا اس کا فیصلہ اس سے اگلی نسل تک جاتا ہے یا پھر اس سے بھی آگے اس لیے میرا مکالمہ فریقین سے دو ٹوک اور درشت ہوتا جس کا خاطر خواہ اثر ہوتا اور یوں میرے فیصلوں کی دھاک بیٹھتی گئی جب کہ میرا سیاسی قد کم عمری کے باوجود طویل اور سیاسی دہشت میں مضبوطی آتی گئی۔ میری تو ابھی کالج کی تعلیم بھی پختہ نہ ہوئی تھی کہ لوگوں کے اراضی کے تنازعات حل کرتے ہوئے اپنے مالی مفادات کو دم پخت کرنے میں مہارت حاصل ہو گئی۔

اگرچہ سیاست گری میں میرا یہ پہلا سبق تھا اور مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا سیاست دان کو فرائض کے لحاظ سے کرنا کیا ہوتا ہے لیکن میری زر، زن زمین کی ٹرائی اینگل میں سے حصول زمین سے دلچسپی دیکھ کر بزرگوں نے فیصلہ سنا دیا کہ تم اس شعبے ہی کو اپنی آئندہ سیاسی زندگی کا محور بنا لینا۔ تو قارئین میری سیاسی زندگی کی بنیاد میرے بزرگوں نے اسی وقت اسی مقصد کے لیے طے کر دی۔ لوگوں کے اراضی کے تنازعوں کے فیصلے کرنے میں میرا دل ایسا بھایا اور اس میں بغیر سرمایہ لگائے کاروبار میں بھی اتنی برکت پڑی کہ میں نے اسے عوامی خدمت کا مستقل ذریعہ بنا لیا۔

اسی خدمت کے دوران میں جوان ہو گیا اور عوام نے مجھے آئندہ الیکشن میں کامیاب کروا کے سیاست کے خار زار میں دھکیل دیا۔ میں اب اپنے ایک اسکول فیلو کی کامیاب سیاست کی کہانی بھی سناتا چلوں، میرے اس دوست کے بزرگ اور والد پچاس سال سے اپنے علاقے کی سیاست پر چھائے چلے آ رہے تھے۔

دراصل تقسیم ہند سے بھی قبل ان کے علاقے میں ایک مرد قلندر کا آنا ہوا ان کی نیکی پاکیزگی اور دینداری کی دھوم تھی لوگ ان کی خوبیوں کے معترف ہوئے کسی نے انھیں اراضی کا حصہ تو کسی نے مکان پیش کر دیا۔ وہ بزرگ دنیا دار نہ تھے لیکن ان کے گزر جانے کے بعد ایک مرد ہشیار نے جو اس کی اولاد میں سے تھا خود کو اللہ لوک کا جانشین ظاہر کر کے علاقے میں ان کی گدی قائم کر کے مرحوم بزرگ کے نام پر لوگوں کو مائل اور قائل کرنا شروع کیا کہ ان خدا پرست بزرگ کی یاد تازہ رکھنے کا بہترین طریقہ ان کے نام پر نقد اور زمینوں کا نذرانہ پیش کرتے رہنے ہی میں دنیا اور آخرت میں ان کی بخشش کا وسیلہ ہو گا۔

لوگوں نے اسے آسان ذریعہ نجات جانا اور یوں اس مرد ہشیار نے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا کر اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے علاوہ علاقے میں الیکشن ہونے پر نمائندگی پر قبضہ اور سیاست گری میں کامیابی حاصل کر لی۔ اب میں نے اسے اپنے گروپ میں بھی شامل کر لیا ہے اور ہم دونوں نے دوستی کے ساتھ رشتہ داری قائم کر کے اپنے اپنے علاقے کی سیاست میں مضبوط مقام پا لیا ہے۔ میں آپ قارئین کو مزید دوستوں کا تعارف کبھی آئندہ کراؤں گا تا کہ کسی کو شبہ نہ رہے کہ کوئی نووارد اپنی تعلیم یا اصول پرستی کے زعم میں ہمیں ملکی سیاست سے باہر نکالنے کا خواب بھی دیکھے گا۔

ہماری سیاست کا ایک ہی اصول ہے کہ ہم نے اپنے پیچھے بھیڑوں کے جو غول پال رکھے ہیں انھیں نہ کوئی توڑ سکتا ہے نہ وہ کسی کے ورغلانے سے ہم سے منہ موڑنے کی جرأت کر سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے میں نے یا میرے دوست نے آئین و قانون نہیں پڑھا لیکن اپنے اپنے علاقے کی سیاست سے خوب واقف ہیں اور کامیاب جا رہے ہیں۔
Load Next Story