بنیادی مسائل کی ترجیحات کا تعین
پنجاب کی حکومت نے اگرچہ پراسیکوشن کے نظام کو موثر بنانے کے لیے کچھ بڑے اقدامات بھی کیے ہیں
پاکستان کے بنیادی مسائل کا تجزیہ کیا جائے تو ہر فرد یا ادارہ ان مسائل کی ترجیحات کا تعین اپنے تجربات اور علمی فہم و فراست کی بنیاد پر کرتا ہے۔ ریاستی و حکومتی سطح پر بھی دیکھیں تو ہمارے بالادست طبقات کی ترجیحات میں بھی تضادات کے کئی پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بنیادی مسائل کی ترجیحات کے تعین کرنے میں ہمیں بطور ریاست، حکومت اور معاشرہ کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ عمومی طور پر سیاست اور سماجیات کے علوم میں لوگوں کی فلاح و بہبود، انصاف کی فراہمی اور بنیادی ضروریات کے حصول میں جہاں ریاست اور حکومت براہ راست ذمے دار ہوتی ہے، وہیں قومی اداروں کا استحکام، صلاحیت، بالادستی، نگرانی اور شفافیت کا نظام سمیت خود احتسابی کا عمل اہم ہوتا ہے کیونکہ عام لوگوں سمیت معاشرے کے کمزور طبقات کا بڑا انحصار اداروں کی شفافیت پر مبنی نظام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔
عمومی طور پر ہمارا حکمران طبقہ لوگوں کی فلاح کے بہت سے دعوے بھی کرتا ہے، بعض اوقات ان دعوؤں کی تکمیل کے لیے ان کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔ لیکن بنیادی سوال حکومتی اقدامات میں لوگوں کو فوری ریلیف دیتے ہوئے نظام کی درستگی اور اداروں کا استحکام ہونا چاہیے۔
لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے افراد کے گرد گھومتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارا بالادست طبقہ سمجھتا ہے کہ اگر ادارے مضبوط ہوئے تو وہ کمزور ہونگے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی ترجیحات میں اداروں کی خود مختاری اور بالادستی کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ حکمرانوں کی اکثر تقاریر میں نظام کی تبدیلی پر بہت زور دیا جاتا ہے لیکن مسائل جوں کے توں ہی ہیں۔ کیونکہ نظام محض سیاسی نعروں، شعر و شاعری سے تبدیل نہیں ہوتے۔ اس کے لیے ہمیں جہاں ایک طرف سیاسی و انتظامی وژن درکار ہوتا ہے، تو دوسری طرف اداروں کی مضبوطی کے لیے ہمیں ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک فکری مغالطہ یہ ہے کہ اگر حکومت کے پاس مضبوط سیاسی کمٹمنٹ ہے تو وہ سب کچھ بدل سکتی ہے، بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ مضبوط سیاسی کمٹمنٹ میں آپ کا وژن بھی اہم ہوتا ہے۔ یعنی آپ اپنے اور ادارے کے درمیان کس کو مضبوط کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ حکمران برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی جانب سے پولیس اور انصاف کے نظام پر بے پناہ وسائل خرچ کرنے کے باوجود یہ ادارے عوامی توقعات پر پورا اترنے اور انصاف کی فراہمی میں عملی طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا صرف اعتراف کا عمل کافی ہے۔
جب ریاست یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ اس کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو ہر صورت میں انصاف فراہم کرنے کی پابند ہے، تو اس کا براہ راست تعلق انصاف پر مبنی اداروں اور پراسیکوشن کے نظام سے بھی جڑا ہوا ہے۔ معاشرہ میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے تین اداروں کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
اول عدالتیں، دوئم پولیس اور سوئم پراسیکوشن۔ ہماری عدالتوں بالخصوص لوئر عدالتوں اور پولیس کے نظام میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں بنیادی اہمیت پراسیکوشن یعنی تفتیش کے نظام کی ہوتی ہے۔ انصاف فراہم کرنیوالے نے محض تفتیشی عمل کو دیکھ کر ہی انصاف کرنا ہوتا ہے۔ اگر پراسیکوشن کا عمل شفافیت اور سیاسی مداخلت پر مبنی نہ ہو تو انصاف کا حصول ممکن ہوجاتا ہے، وگرنہ دوسری صورت میں انصاف کے نام پر عدم انصاف کا کلچر مضبوط ہوتا ہے۔
انصاف کی عدم فراہمی میں ایک بڑا مسئلہ پولیس، عدالت اور پراسیکوشن کے نظام میں کمزور رابطہ کاری اور ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھ کر تعاون نہ کرنے کا عمل ہے۔ پراسیکوشن کے عمل میں ہمیں جو مسائل درپیش ہیں ان میں تربیت یافتہ افراد کی کمی، پولیس اور پراسیکوشن محکموں کی عدم خود مختاری، پراسیکوشن کا غیر تسلیم شدہ آئینی کردار، پراسیکوٹرز کے لیے احتسابی نظام کی غیر موجودگی، خود مختار فوجداری نظام برائے فراہمی عدل کی غیر موجودگی، تیزی سے بڑھتا ہوا عدالتی التوا کا کلچر، پراسیکیوٹرز میں تربیت اور مہارت کی شدید کمی، مضبوط شہادتوں کے بغیر عدالتی چالان کی منظوری اور کمزور و ناقص تفتیش جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔
ان مسائل کی موجودگی میں یہ سوال ریاست اور حکومت سے کیا جانا چاہیے کہ وہ بتائے کہ ایک عام شہری کو انصاف تک رسائی سے متعلق تمام بنیادی آئینی و قانونی حقوق کی اصل فراہمی میں ریاستی و حکومتی اداروں کا کیا کردار ہے۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی تیزی سے عام لوگوں اور ریاستی و حکومتی اداروں کے درمیان عدم اعتماد اور فاصلے کی فضا بالادست ہوگئی ہے۔ جن معاشروں میں اداروں اورلوگوں کے درمیان فاصلے ہوں یا عدم اعتماد ہو تو وہاں انتشار کی کیفیت نمایاں ہوکر مزید ابتری کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جب معاشروں کو چلانے کے لیے بالادست طبقات کی بنیاد ظلم اور استحصال پر مبنی ہوتو وہاں قانون کی عملداری کا نظام ان قوتوں کے نشانہ پر ہوتا ہے۔ کیونکہ قانون کی عملداری کا کمزور نظام ہی ان کے ذاتی مفادات کو تقویت دینے کا سبب بنتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی کیا حکمت عملی اختیار کی جائے کہ ہمارے ہاں پولیس، عدلیہ اور پراسیکوشن سمیت دیگر اداروں میں ریاستی وحکومتی مداخلت کو روک کر انھیں خود مختار اداروں میں ڈھالا جاسکے۔
ابھی تک فوجداری نظام میں پراسیکوشن کے اصل کردار کی حیثیت کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے جرائم میں ملوث ملزم ناکافی ثبوت کے باعث آزاد ہوجاتے ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ پراسیکوشن کا نظام عملی طور پر نظام انصاف کا تیسرا اہم ستون ہے، جو پولیس اور عدالتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے، جب کہ عملا یہاں پولیس اور پراسیکوٹرز کے درمیان عدم تعاون کا مسئلہ ہے۔
پنجاب کی حکومت نے اگرچہ پراسیکوشن کے نظام کو موثر بنانے کے لیے کچھ بڑے اقدامات بھی کیے ہیں، جن میں سیاسی بھرتیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیاں، پراسیکوٹرز کی جدید تربیت، پراسیکوشن اکیڈمی اور لائبریری کا قیام جیسے امور شامل ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ پولیس اور پراسیکوشن کے محکموں کی عملی خود مختاری کا ہے۔ بالخصوص پولیس کے موجودہ نظام میں رہتے ہوئے جو لوگ اصلاح کے عمل کو تلاش کرنا چاہتے ہیں، وہ بظاہر ممکن نہیں۔ پولیس کے پورے نظام کو جدید خطوط پر لانے کے لیے ایک بڑا ایمرجنسی پلان ترتیب دینا ہوگا۔ لیکن ایسا معاشرہ جہاں حکومتیں اور سیاسی قیادتیں پولیس کے نظام کی مدد سے اپنی حکمرانی کے نظام کو مضبوط کرتی ہیں وہاں اصلاح کا عمل کیسے ممکن ہوگا۔
اصل میں نظام اور اداروں کی بالادستی ایسے معاشروں میں ہوتی ہے جہاں معاشرے کے تمام اہم فریق اور عام لوگ بھی اداروں کی بالادستی کی جنگ کا حصہ بنیں۔ یہ سمجھنا کہ یہ کام ہمارے جیسے معاشروں میں صرف ریاست او رحکومتیں کریں گی، ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ ہمارا حکمرانی کا نظام پہلے ہی کافی بگاڑ کا شکارہے۔
اس کی اصلاح کے لیے ایک بڑے دباؤ کی سیاست کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں، میڈیا، سول سوسائٹی اور دیگر اشرافیہ کے طبقوں کو انصاف کی منصفانہ فراہمی اور شفافیت پر مبنی نظام کے لیے ایک بڑی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ کام محض سیاسی نعروں اور سیاسی تقریروں اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں اپنی حکمت عملی میں کچھ نئے تقاضوں کے ساتھ نئی جدوجہد کا حصہ بننا ہو گا۔