جدید بلوچی و براہوی ادب

اردو تو گزشتہ ایک صدی سے اس کے شہروں سے لے کر کوہ و بیابانوں تک رابطے کی زبان کا وسیلہ رہی ہے۔


عابد میر June 15, 2014
[email protected]

بلوچستان جس طرح وسیع وعریض رقبے اور متنوع ثقافتی مظاہرکا مالک ہے، بعینہٰ رنگا رنگی زبانوں کے معاملے بھی ہے۔ یہاں کے اکثریتی بلوچ علاقوں میں بلوچی ،براہوی سمیت جہاں سندھی،سرائیکی وسیع پیمانے پر بولی اور سمجھی جاتی ہیں، وہیں دوسری جانب پشتو سمیت فارسی اور ہزارگی بھی اپنا اثر و نفوذ رکھتی ہیں۔

اردو تو گزشتہ ایک صدی سے اس کے شہروں سے لے کر کوہ و بیابانوں تک رابطے کی زبان کا وسیلہ رہی ہے۔لیکن جب ہم یہاں کے ادب کی بات کرتے ہیں تو گویا ہم سندھی اور سرائیکی کے علاوہ باقی زبانوں کا تذکرہ کر رہے ہوتے ہیں، کہ یہ زبانیں وسیع پیمانے پر بولے اور سمجھے جانے کے باوجود بلوچستان کے اندر اب تک اپنا تحریری وجود نہیں رکھتیں۔

تحریری سطح پر بلوچوں کی دو بڑی قومی زبانیں رائج ہیں؛بلوچی اور براہوی۔ بدقسمتی یہ رہی کہ ہر دو زبانوں میں تحریر کا رواج بہت دیر سے پڑا۔ بلوچی کی اولین تحریر کو ابھی ایک صدی بھی نہیں ہوئی۔حالانکہ لوک ادب کے لحاظ سے بلوچی خطے کی چند معتبر اور خوش نصیب زبانوں میں سے ہے۔ ہمارے ایک محقق اور دانش ور تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچی میں سولہ کلاسیک داستانیں پائی جاتی ہیں، جو دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں۔ قطع نظر اس کے، بلوچی کا کلاسیک بلاشبہ فنی و فکری جمالیات کا ایک شاہکار ہے۔

گوادر کے سید ظہور شاہ ہاشمی کو جدید بلوچی ادب کا بانی مبانی شمارکیا جاتا ہے۔ پہلے بلوچی افسانے سے لے کر، اولین بلوچی ناول انھی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اسی مردِ مجاہد نے بلوچی ادب میں تحقیق و تنقید کا رواج ڈالا۔ پہلی بلوچی لغت(انسائیکلوپیڈیا) '' سید گنج'' ترتیب دی۔ بعد کا سارا بلوچی ادب انھی کے نقشِ قدم پہ رواں رہا۔ انھی کے قافلے کے ایک جری استاد ، پروفیسر صبا دشیاری نے ان سے منسوب ایک ریفرنس لائبریری کی کراچی کے علاقے ملیر میں بنیاد ڈالی،جس کا خاصہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں بلوچی میں جہاں بھی، جب بھی کوئی تحریر شایع ہوئی ہے، اس کا ریکارڈ آپ کو اس لائبریری میں ضرور ملے گا۔

بلوچی اور اردو کے ایک ادیب نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، 'شاعری سماجی زوال اور نثر عروج کو ظاہر کرتی ہے۔' اس کلیے سے دیکھیں تو جدید بلوچی ادب کا آغاز جہاں سماجی زوال کا منظرنامہ بیان کرتا ہے، وہیں گزشتہ ایک عشرے کا ادب گویا اس کے عروج کی داستان ہے ۔ جب کہ بلوچی کے ایک استاد اور نام ور دانش ور نے ایک بار کہا تھا کہ ،'بلوچی کا سارا ادب مزاحمتی ہے۔' یہ واقعتاً درست دعویٰ ہے کہ کلاسیک سے لے کر جدید ادب تک اپنے معروض کے باعث بلوچی ادب میں یہ پہلو خاصا حاوی رہا ہے۔ پہلے انگریزاور سردار اور پھر نئی طالع آزما قوتوں سے برسرپیکار رہنے کے باوصف ہمارے ادب کا ایک بڑا حصہ اپنے اسی معروض سے جڑا رہا۔

اکیسویں صدی کے اولین چودہ برس بلوچ سماج کے لیے خواہ کیسے ہی خونخوار ثابت کیوں نہ ہوئے ہوں، لیکن بلوچی ادب کے لیے یہ اب تک کا سب سے زریں دور رہا ہے۔ ان برسوں میں بے تحاشا لکھا گیا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ سب سے زیادہ ناول لکھا گیا ۔ گزشتہ صدی میں یہ صنف پچھڑی رہی۔ پورے بلوچی ادب میں ناول ایک ،آدھ سے آگے نہ بڑھ سکے۔ جب کہ حالیہ عرصے میں محض ایک شخص نے پچاس سے زائد ناول لکھ کر بلوچی ادب میں اس صنف کو مالا مال کر ڈالا۔ سابق بیوروکریٹ اورگل خان نصیر کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے منیر احمد بادینی بلوچی میں نوے ناول لکھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں، جن میں اب تک پچاس کے لگ بھگ شایع ہو چکے ہیں۔

(یہ المیہ اپنی جگہ کہ تمام پچاس ناولوں کو اب تک پورے بلوچستان میں پچاس قارئین بھی نہیں مل پائے) افسانہ نگاری کا اہم نام غنی پرواز نے بھی ایک ناول دیا۔کل سات، آٹھ مختصر افسانوں سے شہرت حاصل کر نے والے ڈاکٹر حنیف شریف نے بھی اسی دورانیے میں ایک ناول تخلیق کر ڈالا۔ ساتھ ہی افسانہ نگاری میں بھی نئے نام سامنے آئے۔ شاعری تو خیر چلتی ہی رہتی ہے۔ بلوچی ادب میں اب تک جو شعبہ نظر انداز رہا ،وہ ہے؛تنقید و تحقیق۔ چند لوگوں نے گو کہ اپنے تئیں اس خالی جگہ کو پُر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے، لیکن اب تک اس ضمن میں کوئی بڑا کام سامنے نہیں آ پایا۔بلکہ اس میں ایک بدعت یہ آ گئی کہ بلوچی کے بعض نئے لکھنے والے، جن کا میڈیم اردو رہا،اردو سے متاثر ہوئے اور اردو تنقید میں مغرب سے جو رحجانات درآمد کیے گئے تھے۔

انھوں نے بھی عین اسی طرز پر ان رحجانات کو بلوچی ادب میں متعارف کروانا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے معروض سے لاتعلق ہونے کے باعث ان رحجانات کو عام قارئین کے ہاں کوئی پذیرائی نہیں مل پائی۔ جدیدیت، مابعدجدیدیت اور ساختیات و پس ساختیات کی تحاریک کا عالمی تناظر میں مطالعہ تو شاید بلوچی ادب کے قارئین کے لیے مفید ثابت ہو، لیکن ان نظریات کا بلوچی ادب پہ اطلاق اب تک کسی طور ممکن نہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے نقاد جب ان نظریات کے ترازو میں اپنے ادب کو تولتے ہیں، تو یاسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔کچھوے کی رفتار والے سماج پہ ، خرگوش کی چھلانگوں کا اطلاق کچھ اچھے نتائج تو نہیں دے گا۔

دوسری طرف براہوی ادب کا معاملہ بلوچی کی نسبت زیادہ خوش کن نہیں۔براہوی ادب کے ساتھ ایک 'حادثہ' تو یہ ہوا کہ بلوچی کے برعکس اس میں تحریر کا آغاز مذہبی بنیاد پرستانہ نظریات کے ساتھ ہوا، اس لیے ایک عرصہ تک یہ اس فکر سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکا۔ عمارت کی بنیاد میں کجی رہ جائے تو اس کی ٹیڑھ نکالنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ براہوی کی تحریرکا آغاز انگریزوں کے خلاف مکتبہ درخانی کی کاوشوں سے ہوتا ہے۔ جنھوں نے انگریز مشنری کے خلاف ایک محاذ قایم کیا۔ انھوں نے قرآن مجید کا پہلا براہوی ترجمہ کیا۔ براہوی شاعری کو رواج دیا، جو تمام تر مذہبی بنیادوں پہ تھی۔ یوں ایک لحاظ سے اس تحریک کی تاریخی اہمیت کو تو نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ جس نے پہلی بار براہوی میں تحریر کو رواج دیا۔

یہیں سے براہوی میں لکھنے والوں کی اولین کھیپ نے جنم لیا۔جس نے آگے چل کر پھر جدید براہوی ادب کی بنیاد رکھی۔بعدازاں بلوچی میں تخلیق ہونے والے ادب سے روابط اور خطے میں پنپنے والی سماجی تحریکوں کے باعث گو کہ اس کا رنگ خاصا تبدیل ہوا، اور براہوی میں 'مزاحمتی ادب' کا خانہ قابلِ فخر سرمائے سے پُر ہوا۔ لیکن ایک قدیم زبان کے ادب کی سطح پربطور مجموعی براہوی میں اب بھی وہ کام نہیں ہو سکا، جو ہونا چاہیے تھا۔ براہوی میں اب تک سب سے زیادہ شاعری ہی ہو رہی ہے۔

افسانے کی کتابیں درجنوں کی تعداد سے آگے نہیں بڑھیں۔ ناول تو اب تک ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد سے بھی کم ہیں۔ بڑا ناول تو رہا ایک طرف، اچھا ناول بھی ابھی تک سامنے نہیں آپایا۔البتہ ایک کام حالیہ وقتوں میں وسیع پیمانے پر ہوا ہے اور وہ ہے ؛تراجم۔ براہوی کا اولین ناول لکھنے والے بزرگ اکلوتے گل بنگل زئی صاحب نے عالمی ادب کے شاہکار ناول براہوی میں ترجمہ کر ڈالے ہیں۔ ان میں روسی شاہکار سے لے کر، شیکسپیئر اور جدید ادب میں پاؤلو کوہیلو تک شامل ہیں۔

براہوی ادب کی ترویج میں دو بڑی رکاوٹیں سمجھی جاتی ہیں؛ جن میں اولین اور اہم ترین قاری کا فقدان ہے۔ بلوچی ادب قارئین کی شدید قلت کا شکار ہے۔پانچ سو کی تعداد میں شایع ہونے والی کتاب پانچ برسوں تک پچاس قارئین بھی تلاش نہیں کر پاتی۔ حالانکہ گذشتہ چند برسوں میں براہوی میں لکھنے اور پڑھنے کے رحجان میں خاصی تیزی آئی ہے۔ لیکن اسے اب بھی قابلِ اطمینان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری بڑی وجہ براہوی کے بالخصوص نئے لکھنے والوں کا تحریرسے فنی و فکری اغماز ہے۔

نئے لکھنے والے تحریر کے فنی پہلوؤں پر توجہ دینے کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ اپنے لکھے کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔اصلاح کے روادار نہیں ہیں۔ روایتی فلیپ لکھنے والے بھی اس برائی کو پھیلانے کے ذمے دار ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کتاب چھپ بھی جائے تو قاری کو اپیل نہیں کرتی۔ چند دوستوں اور حلقہ احباب سے توصیفی کلمات کو کتاب کا حاصل وصول سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ بدعت بلوچی سمیت دیگر زبانوں کے نئے لکھنے والوں میں بھی کسی حد تک پائی جاتی ہے، لیکن وہاں بیک وقت اتنا کام ہو رہا ہے کہ اس جانب اتنی توجہ نہیں جاتی اور ایسی تحریروں کو'ردی' میں شمار کر لیا جاتا ہے۔

اس کی نسبت براہوی میں سوائے تراجم کے، اور کوئی ایسا بڑامعیاری کام سرے سے ہو ہی نہیں رہا، اس لیے جو موجود اور میسر ہے، اسی پہ بات ہوتی ہے۔البتہ ایک ہفت روزے کا تذکرہ یہاں بے محل نہ ہوگا جس نے گزشتہ ایک عشرے میں براہوی ادب کی ترویج میں شاندار کام کیا ہے۔ 'تلار' کے نام سے یہ پانچ کالمی اخبار گزشتہ ایک دَہائی سے اپنی مدد آپ کے تحت بنا کسی نمائش اور دعوے داری کے مسلسل کام کیے چلا جا رہاہے۔ کوئٹہ سے دو بھائیوں کی نجی محنت سے شایع ہونے والے اس جریدے نے بلاشبہ براہوی ادب میں جدید رحجانات کے فروغ میں مثالی کام کیا ہے۔

المختصر یہ کہ بلوچی ادب نے جہاں اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا شروع کر دیا ہے ، وہیں براہوی ادب ابھی گھٹنوں کے بل چل رہا ہے۔ارتقائی سفر جاری رہا تو بالآخر یہ بھی اپنے پیروں پہ آ ہی جائے گا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔