دو بڑی دہشت گردیاں

یقینا اس واقعے میں سیکیورٹی لیپس تھا۔ پوری دنیا میں ایئرپورٹ جیسے اہم مقامات کے ارد گرد باڑ fence لگائی جاتی ہے

mohsin014@hotmail.com

RAWALPINDI:
8جون کو ہمارے وطن میں بیک وقت دوبہت بڑے حادثات ہوئے، ایک واقعہ ایران سے آنے والے زائرین کی بس اور ہوٹلوں پر دہشت گردوں کا حملہ اور دوسرا واقعہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے قائد اعظم انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر ہوا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں کس واقعے کو بڑا واقعہ قرار دوں۔ کراچی ایئر پورٹ پرچند دہشت گردوں نے کامیاب دہشت گردی کا عمل پورا کیا اور ردّ عمل میں دہشت گرد بھی مارے گئے لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ کیسا ایکشن تھا جس میں چند دہشت گردوں کے مقابلے پر 15اہلکار شہید ہو گئے۔

یقینا اس واقعے میں سیکیورٹی لیپس تھا۔ پوری دنیا میں ایئرپورٹ جیسے اہم مقامات کے ارد گرد باڑ fence لگائی جاتی ہے اور مزید سیکیورٹی کے لیے infra lights لگائی جاتی ہیں جس کے قریب اگر کوئی شئے آتی ہے تو الارم بجنے لگتا ہے جو سیکیورٹی روم میں سنا جاتا ہے ہر طرف ایسے کیمرے لگے ہوتے ہیں جو رات کے اندھیرے میںبھی ویڈیو بنا لیتے ہیں اس طرح ایئر پورٹ کے اطراف میں fence،کیمرے اور infra detectorکے ذریعے اسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے کہ صرف کنٹرول روم میں بیٹھ کر پورے ایئر پورٹ کی حفاظت کی جا سکتی ہے اور اس کے اردگرد کی بستیوں کو دور رکھنا چاہیے۔

جیسے پہلوان گوٹھ جوقریبی ترین بستی ہے ، لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری حکومت ہر واقعے کا adhocحل تلاش کرتی ہے اور عوام کو یہ کہہ کر بے وقوف بنا دیا جاتا ہے کہ ہم نے fool proofسیکیورٹی انتظامات کر لیے ہیں، کتنی حیرت کی بات ہے کی چند افراد اتنے بڑے ہتھیاروں کے ساتھ اندر داخل ہو گئے۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس ایمرجینسی حالات سے نمٹنے کے ذمے دار افسران انتہائی کم اور نا اہل ہیں۔ کم سے کم حکومت ان اداروں کے ذمے داروں پر کڑی نگرانی تو رکھے۔

اس واقعے میں سب سے افسوس ناک واقعہ یہ ہے کہ سات افراد کولڈ اسٹوریج کی عمارت میں پھنسے رہے اور کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی انھیں rescueمدد نہ ملی ۔چلی میں کان کن سنگلاخ زمین میں دھنس گئے تھے،اس کو کھود کر اس میں ہنگامی لفٹ( کیپسول) بنوا کر چلی کے صدر نے 37 کان کنوں کے ریسکیو آپریشن کی نگرانی کی تھی، وہ کئی دن کی مسلسل کوششوں کے بعد زندہ نکالے گئے ۔ کسی کو شاید یاد نہ ہو، ایئرپورٹ کے واقعے کی ذمے داری تحریک طالبان اور ازبک اسلامک فرنٹ نے اور تافتان میں زائرین پر جو حملہ ہواجس میں 23سے زائد زائرین شہید ہوئے اس کی ذمے داری جیش اسلامی نے قبول کی ہے۔ یہ دونوں واقعے یکے بعد دیگرے ہوتے رہے خاص طور پر زائرین کو شہید کرنا کسی طور پر انسانیت کے مطابق نہیں ۔


کئی سو سالوںسے تاریخ گواہ ہے کہ زائرین کا سلسلہ کسی طور بند نہیں ہو سکتا، یہ ایک ملت کا ایمانی فریضہ ہے جس کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ ہم حکومت پاکستان اور حکومت ایران سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ غریب زائرین کے لیے تافتان سے آمدو رفت کو اس وقت تک معطل کر دیں جب تک حالات قابو میں نہیں آ جاتے، مگر زیارات کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کراچی سے ہوائی سفر کی ایسی سہولیات مہیا کریں جس میں زائرین کے ٹکٹ کا50%حکومت پاکستان ،40%حکومت ایران اور 10%زائرین خود دیں لیکن یہ سہولیات صرف ان ہی زائرین کو دی جائیں جو غریب ہیں یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں اس طرح یہ ایک نیک کام ہو گا جس کے اجر میں حکومت پاکستان اور حکومت ایران بھی شامل ہوں گی ، یہ ہمارا حکومت پاکستان اور حکومت ایران کو مشورہ ہے۔

ہماری حکومت انتظامی طور پر بالکل مفلوج ہو گئی ہے اس لیے تمام اداروں کے سیکریٹریزکی نگرانی کے لیئے وزیر اعظم non political معزز لوگوں کی ٹیم بنائیں جو ان اداروں کو متحرک رکھیں، اگر یہ قدم نہ اٹھایا گیا تو اس کا اثر عوام پر مایوسی کی شکل میں پیدا ہوتا ہے اور سب سے زیادہ منفی اثر ہمارے سیکیورٹی اداروں پر پڑ سکتا ہے۔ ہمارے سیکیورٹی ادارے باصلاحیت ہیں جو پاکستان کے چند ہزار دہشتگردوں سے بھی نمٹ سکتے ہیں ۔

یقیناً اگر انھیں free handدیا جائے تو پانچ سے دس ہفتوں میں ان ملک، اسلام و جمہوریت دشمنوں سے نمٹنا مشکل نہیں مگر نہ جانے وہ کون سے مصلحتیں ہیں جو سابقہ حکومت کو بھی اور موجودہ حکومت کو بھی بلا امتیاز کارروائی سے روک رہی ہیں۔ ہمارے سامنے کراچی کی بدامنی میںکمی کی مثال موجود ہے یہ کامیابی پولیس اور رینجرز کو فری ہینڈ دینے کی وجہ سے ہوئی اور وزیر اعظم نواز شریف کے اس عزم کی وجہ سے جس میں انھوں نے کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، انتظامی معاملات میں کسی دباؤ کے بغیر آپریشن کرنے کا حکم دیا۔

اگر اب بھی سیکیورٹی اداروں کو free handدے دیا جائے توکوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اور کراچی میں پائیدار امن قائم ہو جائے۔ ہماری ترقی کی چابی امن وامان ہے اورخاص طور پر کراچی جیسے شہر پر توجہ کی ضرورت ہے ۔ یہ تجارتی دارالخلافہ ہے یہاں ساحلی و صنعتی سہولت بھی ہے مگر ایک سازش کے تحت اس شہر کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ جب تک اس شہر کو وہ حق نہ ملے جو اس کے کثیر المشربی معاشرے کا حق ہے اس وقت تک پاکستان کے کسی خطے میں پائیدار ترقی ممکن نہیں ۔
Load Next Story