بجٹ میں آئی ایم ایف کی خوشنودی دیکھی گئی آل پاکستان چیمبرز
اسلام آباد چیمبر کی پوسٹ بجٹ کانفرنس، لاہور، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ و دیگر چیمبرز کے صدور کا خطاب
MIRPUR:
پاکستان بھر کے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور نے نئے مالی سال کے بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کاروبار ی سرگرمیاں بہت متاثر ہوں گی، معیشت کو مجموعی طور پر نقصان پہنچے گا۔
عام آدمی پر بہت بوجھ پڑے گا اور مہنگائی بڑھے گی، موجودہ بجٹ معیشت کو بہتر کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلیے بنایا گیا ہے جس سے بہتری کی توقع کم ہے۔ بجٹ میں مختلف شعبوں کیلیے فنڈز مختص کرتے وقت حکومت نے درست ترجیحات پر توجہ نہیں دی۔ توانائی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، بجٹ میں توانائی کے جو منصوبے سامنے لائے گئے ہیں ان کی تکمیل میں تقریبا 8 سال کا عرصہ لگے گا جبکہ بجٹ میں توانائی کو اولین ترجیح دینے کی ضرورت تھی۔
حکومت نئے بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافے پر نظرثانی کرے۔ ہفتہ کو یہاں اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے منعقدہ پوسٹ بجٹ کانفرنس سے، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے دیگر چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ 2014-15 میں بہت سے ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے کاروبار ی سرگرمیاں بہت متاثر ہوں گی اور معیشت کو مجموعی طور پر نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی بجائے حکومت کاروبار اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلیے سازگار ماحول پیدا کرے جس سے ٹیکس ریونیو میں خودبخود اضافہ ہو گا۔
اپنے افتتاحی خطاب میں اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شعبان خالد نے کہا کہ آج کی کانفرنس کا مقصد نئے بجٹ کے اہم نکات کو زیر بحث لانا اور بجٹ میں مزید بہتری لانے کیلیے تاجر راہنماؤں کی متفقہ تجاویز حکومت تک پہنچانا ہے تاکہ ایسے بجٹ کو حتمی شکل دی جائے جو کاروبار کو فروغ دینے میں سہولت فراہم کرے جس سے معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو گی۔ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے بجٹ میں کنزمشن ٹیکسز میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے عام آدمی پر بہت بوجھ پڑے گا اور مہنگائی بڑھے گی۔ مشہور ماہر معاشیات جناب ثاقت شیرانی نے کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے بجٹ میں جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔
اس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو گی جبکہ نجی شعبے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کل اخراجات کا 85 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر چلا جاتا ہے جس سے معیشت کے تمام شعبے متاثر ہو تے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قرضے حاصل کرنے کی روش کو ترک کرے اور ملکی وسائل کو بڑھانے پر توجہ دے۔ انہوں نے کہا حکومت ٹیکس کا دائرہ کار بڑھائے، ٹیکس ریٹس میں کمی کرے، ٹیکس نظام کو منصفانہ اور آسان بنائے اور ایک ترقی پسند ٹیکس سسٹم تشکیل دے جس سے ملک کیلیے زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ ایف بی آر کے ممبر اکاؤنٹ خواجہ تنویر احمد نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے بجٹ میں حکومت نے موجودہ ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنے اور نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیمبرز آف کامرس بھی اپنے ممبران کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ترغیب دیں تا کہ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھاکر ٹیکس ریونیو کو بہتر کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ چیمبرز آف کامرس ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے میں ایف بی آر کے ساتھ تعاون کریں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت تاجر برادری کی شکایات کو زیر غور لائے گی اور ان کے تحفظات کو دور کرنے کیلیے مطلوبہ اقدامات اٹھائے گی۔
پاکستان بھر کے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور نے نئے مالی سال کے بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کاروبار ی سرگرمیاں بہت متاثر ہوں گی، معیشت کو مجموعی طور پر نقصان پہنچے گا۔
عام آدمی پر بہت بوجھ پڑے گا اور مہنگائی بڑھے گی، موجودہ بجٹ معیشت کو بہتر کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلیے بنایا گیا ہے جس سے بہتری کی توقع کم ہے۔ بجٹ میں مختلف شعبوں کیلیے فنڈز مختص کرتے وقت حکومت نے درست ترجیحات پر توجہ نہیں دی۔ توانائی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، بجٹ میں توانائی کے جو منصوبے سامنے لائے گئے ہیں ان کی تکمیل میں تقریبا 8 سال کا عرصہ لگے گا جبکہ بجٹ میں توانائی کو اولین ترجیح دینے کی ضرورت تھی۔
حکومت نئے بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافے پر نظرثانی کرے۔ ہفتہ کو یہاں اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے منعقدہ پوسٹ بجٹ کانفرنس سے، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے دیگر چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ 2014-15 میں بہت سے ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے کاروبار ی سرگرمیاں بہت متاثر ہوں گی اور معیشت کو مجموعی طور پر نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی بجائے حکومت کاروبار اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلیے سازگار ماحول پیدا کرے جس سے ٹیکس ریونیو میں خودبخود اضافہ ہو گا۔
اپنے افتتاحی خطاب میں اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شعبان خالد نے کہا کہ آج کی کانفرنس کا مقصد نئے بجٹ کے اہم نکات کو زیر بحث لانا اور بجٹ میں مزید بہتری لانے کیلیے تاجر راہنماؤں کی متفقہ تجاویز حکومت تک پہنچانا ہے تاکہ ایسے بجٹ کو حتمی شکل دی جائے جو کاروبار کو فروغ دینے میں سہولت فراہم کرے جس سے معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو گی۔ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے بجٹ میں کنزمشن ٹیکسز میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے عام آدمی پر بہت بوجھ پڑے گا اور مہنگائی بڑھے گی۔ مشہور ماہر معاشیات جناب ثاقت شیرانی نے کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے بجٹ میں جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔
اس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو گی جبکہ نجی شعبے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کل اخراجات کا 85 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر چلا جاتا ہے جس سے معیشت کے تمام شعبے متاثر ہو تے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قرضے حاصل کرنے کی روش کو ترک کرے اور ملکی وسائل کو بڑھانے پر توجہ دے۔ انہوں نے کہا حکومت ٹیکس کا دائرہ کار بڑھائے، ٹیکس ریٹس میں کمی کرے، ٹیکس نظام کو منصفانہ اور آسان بنائے اور ایک ترقی پسند ٹیکس سسٹم تشکیل دے جس سے ملک کیلیے زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ ایف بی آر کے ممبر اکاؤنٹ خواجہ تنویر احمد نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے بجٹ میں حکومت نے موجودہ ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنے اور نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیمبرز آف کامرس بھی اپنے ممبران کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ترغیب دیں تا کہ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھاکر ٹیکس ریونیو کو بہتر کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ چیمبرز آف کامرس ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے میں ایف بی آر کے ساتھ تعاون کریں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت تاجر برادری کی شکایات کو زیر غور لائے گی اور ان کے تحفظات کو دور کرنے کیلیے مطلوبہ اقدامات اٹھائے گی۔