ملت کا ولی … ابصار عبدالعلی

انہوں نے صداکاری کیساتھ ساتھ کچھ ڈراموں میں ادکاری کے جوہر بھی دکھائے

ممتاز ادیب، شاعر، براڈ کاسٹر، پاکستان ٹیلی وژن کے ابتدائی دور کے مقبولِ خواص و عام، خوش شکل، خوش آواز، نیوز کاسٹر، صحافی، مورخ مدیر، تجزیہ کار اور کمپیئر ابصار عبدالعلی، ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، ان کا حافظہ حیران کن تھا۔ وہ نصف صدی سے قبل کا کوئی واقعہ اس قد جزیات سمیت سناتے تھے کہ سننے والے دھنگ رہ جاتے۔ ان کا اندازِ گفتگو بہت رسیلا تھا۔

ان کے سینے میں معلومات کا ایک خزانہ تھا جو وہ ہر آنے والے کو لٹاتے رہے۔ ابصار صاحب 11 ستمبر1940 ء کو بھارت کے شہر لکھنو میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق تحریک خلافت اور تحریک پاکستان کے نامور رہنما اور عظیم صحافی و شاعر مولانا محمد علی جوہرؒ کے نواسے ہونے سے تھا۔ اسی نسبت انہیں صحافت، علم وادب اور پاکستان سے محبت ورثے میں ملی۔

ابصار صاحب بتاتے تھے کہ میری جب پیدائش ہوئی تو میرے والد نے میرا نام انتظار رکھا جو سات ماہ تک چلتا رہا یوں ایک روز میری والدہ قرآن مجید پڑھ رہی تھی تو وہ پہلے پارے کی ایک آیت پر رُک گئی اور فوراََ سب سے کہا کہ یہ نام تو محمد علی جوہرؒ نے کہا تھا کہ تم اپنے بیٹے کا رکھنا۔ یوں میرا نام ابصار عبدالعلی رکھا گیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لکھنو یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور وہیں انڈین نیشنل کانگریس کے اُردو روزنامہ ''قومی آواز'' سے 1956 ء میں عملی صحافت کا آغاز کیا۔

اس سے قبل پندرہ سال کی عمر میں آپ لکھنو شہر سے بچوں کے رسالے ''کلیاں'' کے مدیر بنے۔ قیام پاکستان ہجرت کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے شہر لاہور میں مقیم ہو کر رہ گئے۔ یہاں آپ محکمہ سماجی بہبود ترقی خواتین پنجاب میں تعلقات عامہ اور مطبوعات شعبہ کے سربراہ رہے جہاں سے پھر وہ 2000 ء میں بطور ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے۔ وہ ریڈیو پاکستان اورٹیلی وژن پاکستان کے ابتدائی نیوز کاسٹروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ انہیں تمثیلی ڈراموں کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔

اس حوالے وزیر آغا اپنے ایک مضمون میں رقم دراز ہیں کہ''ابصار عبدالعلی کی تمثیلوں کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ ان میں ابھرنیوالے ہر کردار کو اس کا اپنا لہجہ فراہم کیا گیا ہے۔ لہجہ ہی نہیں اُسے اس کے خاص مزاج کے مطابق الفاظ کی ایک الگ فرہنگ بھی مہیا کی گئی ہے اور پھر بات کو منطقی تسلسل کے ساتھ تشبیہوں اور استعاروں سے مزین کر کے پیش نہیں کیا گیا جگہ جگہ اُسے عام گفتگو کی سطح پر لا کر توڑ پھوڑ دیا گیا ہے یوں تمثیل نگار نے مکالمے کو اس کا فطری انداز لوٹا کر بڑی فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔''

ان کے ڈرامائی تماثیل پر مشتمل کتاب ''شہ رگ'' بہت مشہور ہوئی۔ جس پر انہیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ سے بھی نواز گیا۔وہ پہلے مصنف تھے جن کے ٹیلی وژن ڈرامے پاکستان میں پہلی بار کتابی صورت میں شائع ہوئے۔1979 ء میں بچوں کے عالمی سال کے حوالے پاکستانی بچوں کا وفد لیکر میکسیکو میں بچوں کی عالمی اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 1991 ء میں اقوام متحدہ کی فیلو شپ حاصل کی۔ دسمبر 2005 ء میں دعوۃ اکیڈمی (انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی) سے قائداعظمؒ پر لکھی جانے والی نظم پر پہلا انعام حاصل کیا۔ اس نظم کا عنوان ''بابائے قوم'' تھا۔

جس کو چلیں اُٹھا کے وہ سر دے گیا ہمیں

زنجیر کاٹنے کا ہنر دے گیا ہمیں

ابصارصاحب لکھنو تہذیب کے علم بردار تھے۔ شائستگی ،تہذیب، وضع داری، خوش اخلاقی، مہمان نوازی، خوش گفتاری اور انکساری ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ وہ ریڈیو پاکستان سے بچوں کے پروگرام ''ہونہار'' میں ''بھائی جان'' کے نام سے دس برس تک میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ابصار صاحب کی زندگی میں انکے لاتعداد ڈرامے، نظمیں، کہانیاں اور معلوماتی پروگرام پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پر نشر ہوئے۔


انہوں نے صداکاری کیساتھ ساتھ کچھ ڈراموں میں ادکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ جن میں زیادہ تر تاریخی شخصیات کے کردار ادا کیے۔ جس میں بہادر شاہ ظفر،جابر بن حیان، مرزا غالب کے لے پالک بیٹے نواب زین العابدین خان عارف اور میر تقی میر وغیرہ شامل ہیں۔یہی نہیں وہ تین برس تک پاکستان ٹیلی وژن رائٹرز ایکوٹی کے گورنر بھی رہے۔ انہوںنے آخری شرکت اکادمی ادبیات اطفال کے زیر اہتمام بچوں کے ادب پر قومی کانفرنس میں کی۔ان کی ڈراموں پر مشتمل تصانیف میں 'خالی ہاتھ'، سارا جہاں ہمارا،شہ رگ،کیسے کیسے لوگ شائع ہوئی۔

بچوں کے ادب پر انہوں نے بہت کچھ لکھا اس حوالے سے ان کی تصانیف میں بتاشے، بنگلہ دیش کی کہانیاں،بچوں کی متبادل نگہداشت، گانے والا گدھا،چینی نانی کی میٹھی کہانیاں، بات ذرا سی، مزا آ گیا، سنو!سنو!'' شامل ہیں۔نصف صدی سے زیادہ صحافتی خدمات کے اعتراف میں پنجاب یونیورسٹی نے انہیں Journalism 4th state award سے نوازا۔

اس کے علاوہ انہیں بچوں کا ادب تخلیق کرنے پر قائداعظم گولڈ میڈل، پھول ایوارڈ، امتیاز علی تاج ایوارڈ، فروغ تعلیم ایوارڈ ،اور کئی مختلف اداروں نے ان کی خدمات کے اعتراف میںا نہیں ایوارڈز سے نوازا۔ افسوس سرکاری سطح پر ان کے طویل خدمات کا اعتراف نہ کیا گیا۔بہرحال جنر ل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ میں اسپیکر کے فرائض سرانجام دینے والی بھی پہلی شخصیت ابصار عبدالعلی تھے۔

نوائے وقت گروپ کے معمار مجید نظامی کو بھی ''آبروئے صحافت'' اور بانو قدسیہ کو ''آبروئے ادب''کا لقب بھی انہوں نے دیا۔حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے وہ زندگی کی آخری سانس تک سرانجام دیتے رہے۔ میری ان سے رفاقت پندرہ برس پر محیط رہی۔ اس دوران مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے جب قومی اخبارات میں کالم نگاری شروع کی تو میرے الفاظ کو سیدھا کرنے کا بوجھ انہوں نے اُٹھایا ابصار صاحب میرے شفیق اُستاد تھے۔ جنہوں نے مجھے اپنی زندگی میں ہی جان کاشمیری کی سرپرستی میں سونپ دیا۔ وہ وقت کی پابندی کو بہت ملحوظِ خاطر رکھتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ میری پہلی کتاب ''بھلیاں راہواں'' کی جب تقریب رونمائی پلاک میں ہوئی تو اس کی صدارت اجمل نیازی کی جگہ ان کی رکھی گئی تو پروگرام میں پہنچنے پر راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تو وہ وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے ایک منٹ ضائع کیے بغیر آٹو رکشہ پر تشریف لائے۔ مجھ خاکسار کو انکی فن وشخصیت پر مجلہ نوائے ادب کا خصوصی نمبر شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ بلا شبہ عہد موجود کے لیجنڈ اورملت کے ولی تھے۔بقول اعتبار ساجد

جو خیال تھے نہ قیاس تھے، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جو محبتوں کی اساس تھے، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں مانتا ہی نہیں دل، وہی لوگ ہیں مرے ہم سفر

مجھے ہر طرح سے جو راس تھے ، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
Load Next Story