پکی تحریر

ہمارا کردار اور اخلاق بیماریوں سے مزین ہے تو سارے بظاہر اچھے فیصلے بھی ہماری مخالفت میں چلے جائیں گے

اسرائیل طاقت کے نشے میں چور ہے اور اس کی مدد کرنے والے اس نشے کو بڑھانے کی تگ و دو میں لگے ہیں کہ فلسطینی قوم کی نسل کشی کا جوش ان کے ہوش بھی کھونے لگا یہاں تک کہ امدادی ادارے کے کارکنوں کو بھی نہ بخشا گیا اور انھیں ایک نیک عمل کرنے کی سزا کے طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

یہ ایک بھیانک خبر ہے جو عالمی اداروں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے لیکن شاید اس کا اثر اسرائیل کے شیطانی عزم پر کچھ خاص نہیں پڑنے والا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں ایک سو چھیانوے امدادی کارکنوں کے قتل پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے تاکہ آیندہ ایسا نہ ہو۔

امریکا نے فوراً اس تحقیقات کی ذمے داری کسی تیسرے فریق پر ڈالنے کی مخالفت کردی ہے شاید اسے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تیسرا فریق اسرائیل کی فوج کے حملے کی اتنی شفاف تحقیق نہ شروع کردے کہ اس سے ان کے جھوٹ کا پول ہی کھل جائے گو اب اس پول میں کچھ بھی نہیں رہا۔

دنیا پر واضح ہو چکا ہے کہ یہ مذہبی منافرت کا ثبوت ہے، کھلا ظلم اور دہشت گردی ہے اب چاہے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اسرائیل سے اس حملے کی تحقیق کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرے یا کوئی دوسرا ملک ناراض ہو، عوام سمجھ دار ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ تعصب اور مذہبی جنون پسندی کا یہ کھیل مظلوم انسانوں کے خون سے کھیلا جا رہا ہے اور اس میں وہ لوگ بھی پس گئے جن کا اس گیم سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔

سنا گیا ہے کہ سرخ مقدس گائیوں اور بھیڑوں کی قربانی کا سلسلہ بھی فلسطین میں جنون پسندی کی داستان کی ایک تصویر ہے جس کا شور بہت اٹھا ہے۔ یہ سارے وہ چھوٹے چھوٹے پیرائے ہیں جنھیں جمع کرکے نیتن یاہو ایک دیوان ترتیب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب اس میں کون کس کو شدت پسند کہے کہ الزام لگانے والے خود اس کھیل کے اہم کھلاڑی ہیں، ان کے لیے یہ تکلیف دہ صورت حال ایک کھیل کے میدان کی مانند ہی تو ہے کہ کہیں سے آواز اٹھتی ہے، ایٹم بم گرا دینا چاہیے، کوئی کچل کر رکھ دینا چاہتا ہے، کوئی اسپتالوں میں مریضوں کے درمیان دہشت پسندوں کو ڈھونڈ رہا ہے تو کہیں معصوم شیرخوار بچوں کے وارڈ کو کرید دیا ہے، یہ سب نئے زمانے کے فرعون کی ایجادات ہیں۔

بہت سی باتیں سننے میں بڑی عجیب لگتی ہیں لیکن ماضی کے حصے کے ایسے بہت سے واقعات سن کر یوں لگتا ہے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، کوئی طاقت کے نشے میں اس قدر سرکش کیسے ہو سکتا ہے لیکن آج کے دور میں ارض فلسطین پر ہونے والی خونی کارروائیاں دیکھ کر فرعون کی یاد تازہ ہوگئی اور بالکل جو ماضی میں ہوا تھا ایسے ہی ہوا ہوگا جیسے آج ہو رہا ہے۔ ان تمام واقعات میں ایک اہم نقطہ ابھرتا ہے '' حق کی آواز، سچ کا ساتھ'' اصحاب الاخدود کے واقعات پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ بالکل ایسا ہی ہوا ہوگا جیسا آج فلسطین میں ہو رہا ہے۔


دین پر قائم رہنے کی سزا۔۔۔۔ سرکشی کی حد۔''اخدود'' زمین میں گڑھے کو کہتے ہیں یہ ان تمام واقعات سے منسوب ہے جس میں مومنوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا گیا اور ان کو دین اسلام سے ہٹانے کی کوشش کی گئی، جب مومنوں نے اپنے دین کو چھوڑنے سے انکار کیا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو کفار نے ایک بہت بڑا گڑھا کھود کر اس میں آگ لگا دی اور مسلمانوں کو اس کے موقف سے ہٹنے کو کہا، ان کے انکار کی صورت میں سزا یہ مقرر کی کہ ان کو اس آگ میں ڈال دیا گیا۔

اصحاب الاخدود کا زمانہ خاصا قدیم ہے یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پانچ سو سال بعد کا واقعہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور اکرمؐ کے درمیان کا زمانہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے واقعات متعدد بار رونما ہوئے۔

یمن میں تبع کے زمانے میں اخدود کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں کو یہ سزا دی گئی جب لوگ دین صحیح کو چھوڑ کر بے دین ہو گئے تھے اور دین پر کاربند لوگ اس عذاب سے دوچار کیے گئے تھے۔ عراق کے شہر بابل میں بخت نصر کے زمانے میں جب بخت نصر کے بت بنا کر لوگوں کو اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو کہا گیا، دانیال علیہ السلام اور ان کے ساتھی میشائیل اور کچھ لوگوں نے بتوں کی اس عبادت سے انکار کردیا تھا۔ تب بخت نصر نے ان لوگوں کے لیے آگ کی بھٹی تیار کی اور لوگوں کو اس میں ڈال دیا۔

عراق، یمن اور شام کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں کھائیاں کھود کر لوگوں کو اس میں ڈالا گیا تھا۔ آج کے دور میں اصحاب الاخدود آگ کے شعلوں اور بارود کی بو سے کچھ اور بھی بھیانک ہو رہا ہے، یہاں گڑھے کھودنے کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کی جاتی، بس میزائل فائر کیے جاتے ہیں جو زمین کی گہرائی تک اتنی کھدائی کرتے ہیں کہ انسان دیکھتا رہ جائے۔ یہ ایک بار ہی بس نہیں ہوتی بلکہ بار بار رات کے اندھیرے میں جیسے آگ کے شعلے بھیانک آوازوں کے ساتھ زمین پر گر کر زبردست تباہی پھیلا دیتے ہیں۔

انسانی چیخوں کا شور، خون اور اذیتیں، ناقابل برداشت تکلیفوں کا سلسلہ جو دنیا کے ایک کونے سے محسوس ہو کر آخری کونے تک پھیل رہا ہے۔انسان ابھی اتنا بھی بے بس نہیں ہوا ہے کہ اپنے جیسے گوشت پوست سے بنے وجود کے چیتھڑے فضاؤں میں پھیلتے دیکھ سکے۔ انسانیت ابھی زندہ ہے لیکن حکمرانی کے جذبوں میں چور وہ نفوس جو اپنے مذہبی شدت پسندی کے نشے میں اپنی ڈھلکی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں گو انھیں کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا کہ ان کے بارے میں تو بہت پہلے سے ہی طے ہے۔

قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سورت کی تفسیر و ترجمے کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جو قدرت نے فیصلہ کر رکھا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جو معاشی اور سیاسی الجھنوں کا شکار ہے، ابہام میں الجھے، قرض میں جکڑے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ بڑے طاقتور ممالک ہمارے باس ہیں، ہمارے نجات دہندہ ہیں، اگر ہم نے ان کی مرضی کے خلاف کچھ کہہ دیا تو وہ ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور شاید ایسا ہو بھی، لیکن کیا ہمارے پاس غور و فکر کرنے کے لیے دنیا بنانے والے کی تحریر کافی نہیں ہے، پکی اسٹامپ کے ساتھ اس تحریر کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلے دراصل ہمارے کردار اور اخلاق کے محتاج ہیں۔

ہم کتنے ہی اچھے فیصلے کر لیں لیکن ہمارا کردار اور اخلاق بیماریوں سے مزین ہے تو سارے بظاہر اچھے فیصلے بھی ہماری مخالفت میں چلے جائیں گے اور کچھ فیصلے کرنے والے سرکش ہم سے بازی جیت جائیں گے چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم آج کے اصحاب الاخدود کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس پکی تحریر کے نشے کے اثر میں ہیں اور ہم گڑھے کھودنے والوں کے اثر میں ہیں کیونکہ زمانے کی گرد سے ہمارے ہاتھ میلے ہو چکے ہیں شاید ہمیں اپنے ہاتھ دھونے کا احساس ہو جائے۔ دعا ہے کہ جلد ہی ہو، تحریر ہمیں دیکھ رہی ہے۔
Load Next Story