نتن یاہو اور گریٹر اسرائیل کا خواب
آج کل سوشل میڈیا پر نیتن یاہو کے حوالے سے عجیب و غریب باتیں گردش میں ہیں، جن کی کوئی مصدقہ حیثیت نہیں ہے
وزیرِ اعظم اسرائیل بنجمن نتن یاہو کے سر پر ایک جنون سوار ہے۔وہ فلسطینیوں سمیت تمام غیر یہودیوں کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔
وہ ایسا خوفناک فرد کیوں بنا ہوا ہے جب کہ بہت سے یہودی علما اور سیاستدانوں کی رائے میں وہ نہ تو توریت پر ایمان رکھتا ہے اور نہ ہی وہ کو ئی کٹر قدامت پسند یہودی ہے، ہاں وہ اپنی سیاست چمکانے کے لئے مذہبی ٹچ ضرور دیتا رہتا ہے۔
عام حالت میں وہ اپنے آپ کو ایک لبرل سیاست دان کہلوانا پسند کرتا تھا لیکن اقتدار میں رہنے کے لئے اب اس نے دائیں بازو کے الٹرا آرتھوڈاکس اور صیہونی یہودیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے۔ وہ حماس کو صفحہء ہستی سے مٹانے پر کمر بستہ ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر نیتن یاہو کے حوالے سے عجیب و غریب باتیں گردش میں ہیں، جن کی کوئی مصدقہ حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی تصدیق ہے۔ بہرحال دل پشوری کے لیے یہاں کچھ ایسی خیالی باتوں کا ذکر کرتا ہوں۔ کوئی کہتا ہے کہ دراصل نیتن یاہو کو آج سے تقریباً چالیس سال پہلے کی ایک پیشین گوئی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ وہ اس پیشین گوئی کے سبب یہ سمجھتا ہے کہ اسے ایک انتہائی اہم کام سر انجام دینے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اسے ہی وہ کام کرنا ہوگا۔یعنی گریٹر اسرائیل کا قیام ۔
تفصیل اس اجمال کی یوں بیان کی جاتی ہے کہ نتن یاہو تل ابیب میں 1949میںپیدا ہوا، ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلا گیا۔واپس آ کر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوا۔کچھ عرصہ بعد بطورِ کیپٹن ریلیز لے کر دوبارہ امریکا چلا گیا۔امریکا اور اسرائیل میں اس نے طاقتور افراد سے مراسم قائم کیے۔
1984 سے 1988 تک نتن یاہو نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب کی حیثیت میں کام کیا۔ غیرمصدقہ قیاسات کے مطابق قیام ِاقوامِ متحدہ کے دوران اس کی ملاقات خباد ''SCHABAD'' نامی یہودی تحریک کے سربراہ سے ہوئی۔یہ یہودی امریکا اور دنیا کے یہودیوں میں اتنا اثر و رسوخ رکھتا تھا کہ تقریباً ہر امریکی صدر اس کے گھر جا کر اس سے ملاقات کرنا بہت ضروری سمجھتا تھا۔
منہم مندیل شینرسن 1902 میں بحیرہ اسود کی بندر گاہ نکولائی میں پیدا ہوا۔اس وقت یہ علاقہ سوویت یونین کا حصہ تھا لیکن اب یہ یوکرین کی ایک اہم اور مصروف بندرگاہ ہے۔ نکولائی سے برلن اور پیرس میں قیام کے بعد یہ خاندان نیویارک منتقل ہو گیا۔شینرسن کے والد نے خباد یہودی تحریک کی بنیاد رکھی۔ جسکا بنیادی مقصد ان یہودیوں کو یہودیت میں واپس لانا تھا جو دوسرے مذہب اپنا چکے ہیں یا پھر Athiestہو گئے ہیں۔ دروغ بہ گردن راوی ، اس تنظیم کا ہیڈکوارٹر بروکلین میں ہے۔
امریکا کے علاوہ اس کی ایک سو سے زیادہ ممالک میں برانچیں کام کر رہی ہیں۔یہ تنظیم اسکول چلاتی ہے۔اس کے کیئر ہومزہیں۔ اس کی یہودی عبادت گاہیں سینا گوگ ہیں۔یہ اسپتال بھی رکھتی ہے اور اس کے ذہنی مریضوں کے لئے بہت سے ری ہیبز ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ کے پیروکار اسے نام سے نہیں پکارتے بلکہ اس کو دی ربی کہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے امریکی اسرائیل کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔
سفارتِ اقوامِ متحدہ کے دوران نتن یاہو کی دی ربی سے ملاقات ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ ایک دن دی ربی نے پیغام بھیج کر نتن یاہو کو بلوایا اور تخلیئے میں اسے بتایا کہ تمہیںخاص کر اس لئے بلایا ہے کہ تم سے وہ بات کر سکوں جو بہت اہم ہے اور جس کے لئے میں ایک عرصے سے انتظار کر رہا تھا۔دی ربی نے نتن یاہو سے کہا تم سیاست میں آ جائو تو یقینی طور پر وزیرِ اعظم اسرائیل بن جائو گے۔
تم ساری دنیا سے یہودیوں کو Promised Land ارضِ موعودہ میں اکٹھا کرنا، ہیکل کی تعمیر کا آغازکرنا اور غیر یہودیوں خاص کر فلسطینیوں کو نکال کر گریٹر اسرائیل کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔نتن یاہو نے سفارتِ اقوامِ متحدہ سے واپسی پر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور 1996میں محض 49سال کی عمر میں وزیرِ اعظم بن گیا۔دی ربی تو مسیحا کی آمد سے بہت پہلے ملک عدم کو سدھار گیا لیکن اس کی باتیں نتن یاہو کے دل پر نقش ہو گئیں۔
نتن یاہو اب تک تین بار وزیرِ اعظم بن چکا ہے۔مجموعی طور پر وہ شاید 16سال وزیرِ اعظم کے طور پر کام کر چکا ہے۔اب نتن یاہو کی مقبولیت گر رہی ہے۔اگر دائیں بازو کے انتہا پسند اور صیہونی یہودی ممبرانِ پارلیمان اس کو سہارا نہ دیتے تو وہ نہ صرف حکومت سے باہر ہوتا بلکہ بہت امکان ہے کہ جیل میں ہوتا۔بہرحال اس کی خواہش ہے کہ دی ربی کی کہی باتوں کو اپنے دور حکومت میں پورا کردے۔
وہ ایسا خوفناک فرد کیوں بنا ہوا ہے جب کہ بہت سے یہودی علما اور سیاستدانوں کی رائے میں وہ نہ تو توریت پر ایمان رکھتا ہے اور نہ ہی وہ کو ئی کٹر قدامت پسند یہودی ہے، ہاں وہ اپنی سیاست چمکانے کے لئے مذہبی ٹچ ضرور دیتا رہتا ہے۔
عام حالت میں وہ اپنے آپ کو ایک لبرل سیاست دان کہلوانا پسند کرتا تھا لیکن اقتدار میں رہنے کے لئے اب اس نے دائیں بازو کے الٹرا آرتھوڈاکس اور صیہونی یہودیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے۔ وہ حماس کو صفحہء ہستی سے مٹانے پر کمر بستہ ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر نیتن یاہو کے حوالے سے عجیب و غریب باتیں گردش میں ہیں، جن کی کوئی مصدقہ حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی تصدیق ہے۔ بہرحال دل پشوری کے لیے یہاں کچھ ایسی خیالی باتوں کا ذکر کرتا ہوں۔ کوئی کہتا ہے کہ دراصل نیتن یاہو کو آج سے تقریباً چالیس سال پہلے کی ایک پیشین گوئی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ وہ اس پیشین گوئی کے سبب یہ سمجھتا ہے کہ اسے ایک انتہائی اہم کام سر انجام دینے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اسے ہی وہ کام کرنا ہوگا۔یعنی گریٹر اسرائیل کا قیام ۔
تفصیل اس اجمال کی یوں بیان کی جاتی ہے کہ نتن یاہو تل ابیب میں 1949میںپیدا ہوا، ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلا گیا۔واپس آ کر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوا۔کچھ عرصہ بعد بطورِ کیپٹن ریلیز لے کر دوبارہ امریکا چلا گیا۔امریکا اور اسرائیل میں اس نے طاقتور افراد سے مراسم قائم کیے۔
1984 سے 1988 تک نتن یاہو نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب کی حیثیت میں کام کیا۔ غیرمصدقہ قیاسات کے مطابق قیام ِاقوامِ متحدہ کے دوران اس کی ملاقات خباد ''SCHABAD'' نامی یہودی تحریک کے سربراہ سے ہوئی۔یہ یہودی امریکا اور دنیا کے یہودیوں میں اتنا اثر و رسوخ رکھتا تھا کہ تقریباً ہر امریکی صدر اس کے گھر جا کر اس سے ملاقات کرنا بہت ضروری سمجھتا تھا۔
منہم مندیل شینرسن 1902 میں بحیرہ اسود کی بندر گاہ نکولائی میں پیدا ہوا۔اس وقت یہ علاقہ سوویت یونین کا حصہ تھا لیکن اب یہ یوکرین کی ایک اہم اور مصروف بندرگاہ ہے۔ نکولائی سے برلن اور پیرس میں قیام کے بعد یہ خاندان نیویارک منتقل ہو گیا۔شینرسن کے والد نے خباد یہودی تحریک کی بنیاد رکھی۔ جسکا بنیادی مقصد ان یہودیوں کو یہودیت میں واپس لانا تھا جو دوسرے مذہب اپنا چکے ہیں یا پھر Athiestہو گئے ہیں۔ دروغ بہ گردن راوی ، اس تنظیم کا ہیڈکوارٹر بروکلین میں ہے۔
امریکا کے علاوہ اس کی ایک سو سے زیادہ ممالک میں برانچیں کام کر رہی ہیں۔یہ تنظیم اسکول چلاتی ہے۔اس کے کیئر ہومزہیں۔ اس کی یہودی عبادت گاہیں سینا گوگ ہیں۔یہ اسپتال بھی رکھتی ہے اور اس کے ذہنی مریضوں کے لئے بہت سے ری ہیبز ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ کے پیروکار اسے نام سے نہیں پکارتے بلکہ اس کو دی ربی کہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے امریکی اسرائیل کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔
سفارتِ اقوامِ متحدہ کے دوران نتن یاہو کی دی ربی سے ملاقات ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ ایک دن دی ربی نے پیغام بھیج کر نتن یاہو کو بلوایا اور تخلیئے میں اسے بتایا کہ تمہیںخاص کر اس لئے بلایا ہے کہ تم سے وہ بات کر سکوں جو بہت اہم ہے اور جس کے لئے میں ایک عرصے سے انتظار کر رہا تھا۔دی ربی نے نتن یاہو سے کہا تم سیاست میں آ جائو تو یقینی طور پر وزیرِ اعظم اسرائیل بن جائو گے۔
تم ساری دنیا سے یہودیوں کو Promised Land ارضِ موعودہ میں اکٹھا کرنا، ہیکل کی تعمیر کا آغازکرنا اور غیر یہودیوں خاص کر فلسطینیوں کو نکال کر گریٹر اسرائیل کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔نتن یاہو نے سفارتِ اقوامِ متحدہ سے واپسی پر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور 1996میں محض 49سال کی عمر میں وزیرِ اعظم بن گیا۔دی ربی تو مسیحا کی آمد سے بہت پہلے ملک عدم کو سدھار گیا لیکن اس کی باتیں نتن یاہو کے دل پر نقش ہو گئیں۔
نتن یاہو اب تک تین بار وزیرِ اعظم بن چکا ہے۔مجموعی طور پر وہ شاید 16سال وزیرِ اعظم کے طور پر کام کر چکا ہے۔اب نتن یاہو کی مقبولیت گر رہی ہے۔اگر دائیں بازو کے انتہا پسند اور صیہونی یہودی ممبرانِ پارلیمان اس کو سہارا نہ دیتے تو وہ نہ صرف حکومت سے باہر ہوتا بلکہ بہت امکان ہے کہ جیل میں ہوتا۔بہرحال اس کی خواہش ہے کہ دی ربی کی کہی باتوں کو اپنے دور حکومت میں پورا کردے۔