ہندکو زبان پر اردو کے اثرات
خیبرپختونخوا میں ثقافتی اور لسانی تنوع پایا جاتا ہے
خیبرپختون خوا اس لحاظ سے ثقافتی خوش بختی والا صوبہ ہے کہ اس صوبے کے ہرخطے کے باشندوں میں اپنی علاقائی زبان سے گہرا لگاؤ اور ایک طرح کا احساس تفاخر پایا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ قومی سطح پر ہمارا جو لسانی شعور یا کلچر ہے، اس کے متعلق بھی مثبت رویہ پایا جاتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علاقائی زبانوں نے مثبت طور پر اردو سے اثرات قبول کیے ہیں۔ اگرچہ اردو کو خود انگریزی زبان سے ٹکراؤ کا سامنا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے علاقائی تنوع میں اردو زبان پورے ملک کے عوام کو آپس میں جوڑتی ہے۔
بحیثیت مجموعی اردو زبان پاکستانی قوم کی ایک اجتماعی ثقافت ہے، جس سے جڑ کر ہی پاکستانی قوم پوری یک جہتی سے اپنا ممتاز مقام رکھتے ہوئے کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کے ہر خطے کا فرد شعوری یا غیر شعوری طور پر بھی اردو کے ساتھ منسلک ہے۔ خیبرپختون خوا کے کوہستانی اورصحرائی علاقوں سے لے کر پشاور جیسے تہذیبی اور تمدنی خطے کے لوگ اگرچہ اپنی اپنی علاقائی زبانوں اور ان کے لہجوں کو زندہ وسلامت رکھے ہوئے ہیں، مگر زبانی اختلاف میں جو بھی اجنبیت حائل ہے، اس اجنبیت کو بڑی حد تک اگرکو ئی شے ختم کرنے کا ذریعہ ثابت ہورہی ہے تو وہ ہے پاکستان کی قومی زبان اردو۔ جس نے بین الاعلاقائی خطوں کی اجنبیت کو ختم کرکے قومیت کے ایک تصور کو اجاگر کرنے میں اہم اور غیر معمولی کردار اداکر رکھا ہے ۔
رابطے کی زبان اس وقت اردو ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اردو کی اثر آفرینی کے ضمن میں جو ایک اورحقیقیت سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی مقامی زبان بولنے والے باشندے اپنے ہی علاقوں میں بھی خود اپنے طور سے اردو بول چال کو اس لیے قبول کیے ہوئے ہیں کہ اردو کے بارے میں یہ تصور بھی پختہ تر چلاجارہا ہے کہ زبانی تہذیب وشائستگی کی وہ تمام خوبیاں اردو میں موجود ہیں جو کسی زبان میں ہونی چاہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ اردو کی حیثیت زبانوں کی تاریخ میں نسبتاً ایک کم عمر زبان کی ہے، اردو میں بہت سی علاقائی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی ، ہندی زبانوں کا بھی اشتراک ہے۔ اس کی وجہ سے یہ آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے اور اس سے اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔
موجودہ دور میں علاقائی زبانوں سے متعلق تنظیمیں بڑی شدومد کے ساتھ لسانی تحریکیں چلا رہی ہیں جو کہ ثقافت و روایت کو قائم و دائم رکھنے کے سلسلہ میں حوصلہ افزاء معاملہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اردو بحیثیت قومی زبان کے بھی علاقوں میں قدرتی اور فطری طور پر آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
مثال کے طور پر پشاور میں ہندکو زبان سے متعلق ایسی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں جو ہندکو زبان کی ترویج وترقی کے لیے بہت مفید اور تسلی بخش حد تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہیں، اسی طرح صوبے کے دوسرے حصوں کی زبانوں اور بولیوں پر مقامی سطح پر قائم ہونے والی لسانی تنظیموں نے کام شروع کر رکھا ہے۔
خیبرپختون خوا کی متفرق اور متنوع سطح کی زبانوں پر کام ہو رہا ہے، پھر بھی ہر ایک کو یہ بھی احساس ہے کہ ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جو 1947ء میں اس لیے نئی آن بان اور شان سے وجود میں آیا کہ پاکستانی قوم اپنا ایک مخصوص اور ممتاز قومی مقام رکھتی ہے۔ اس قومیت کی ایک عظیم تر شناخت زبان بھی ہے۔ اردو اسی قومی شناخت کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جس کے بغیر قومیت کی جڑ مضبوط نہیں ہوسکتی چنانچہ اسی احساس کے تحت ہر علاقے کی اپنی اپنی زبان کے ارتقائی عمل میں پاکستان کی قومی زبان اردو کا بھی اہم حصہ ہے۔
اس اعتبار سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ خیبرپختون خوا کے تمام خطوں کی زبانوں پر اردو کے اثرات اس لحاظ سے خوش آئند ہیں کہ قومی زبان اردو کو ایک رابطے اور وسیلے کی زبان کی حیثیت سے مقبول حیثیت حاصل ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اردو کے الفاظ بڑی حد تک دیگر علاقائی زبانوں کے الفاظ سے صوتی اشتراک رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ لہجوں میں بھی کوئی خاص مغائرت کا احساس نہیں ہوتا اور یہ مغائیرتی احساس کی معدومیت بھی اس سلسلے میں بڑی حد تک اردو بولنے میں معاون ثابت ہوئی ہے۔
ہندکو زبان کی بول چال میں کوئی اجنبیت و مغائرت کااحساس دامن گیر نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ پشاور کی جس جغرافیائی حدود میں ٹھیٹ ہندکو بولی جاتی ہے وہاں اردو بڑی سہولت اور روانی کے ساتھ بولنے میں کوئی قابل ذکر مشکل پیش نہیں آتی۔ اس لیے ہندکو دان بڑی خوبی و شستگی کے ساتھ اردو بولتے ہیں۔
پشاورشہر کے وہ گھرانے جن کی مادری زبان ہندکو ہے موجودہ دورانیے میں یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ ان گھرانوں کے بچوں میں اردو بولنے کا رواج عام ہوچکا ہے اور یہ بچے اپنی اپنی عمروں کے مطابق اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ ساتھ اردو بولنے میں بھی اسی طرح معروف حیثیت رکھنے لگے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جن گھرانوں میں بچوں کو اردو کی طرف مائل کیاجا رہا ہے وہاں بچوں کو اپنی مادری زبان ہندکو بولنے سے دوررکھنے کی کوشش ہورہی ہے۔
یہ سوچ خام ہے، کیوں کہ مادری زبان کے ساتھ بچے کا رشتہ قدرتی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ وہ اپنی مادری زبان، اس کی دانائی اور کلچر سے مکمل جڑے ہوئے دوسری زبان کے ثمرات کو بھی اپنے دامن میں سمیٹتا ہے۔ دو زبانوں میں مہارت حاصل کرنے سے بچے اپنی علاقائی تہذیب وثقافت کے ساتھ جڑ کر قومی شناخت کی بابت بھی اپنا مقام متعین کر رہے ہیں۔
اردو زبان اور ہندکو زبان کے رشتے بڑے مضبوط ہیں بلکہ اس وقت تو ہندکو زبان کے تحقیق کار اور ماہرین لسانیات کی تحقیق کادائرہ اس حد تک وسعت اختیار کرچکا ہے کہ وہ اردو کا ماخذ ہندکو زبان کے تحریری مواد کو قرار دے رہے ہیں۔
ہندکو کے نامور دانشور لکھاری خاطرغزنوی نے اردو زبان کا ماخذ ہندکو کو قرار دیا ہے، چنانچہ اس لحاظ سے تو یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ قومی زبان اور ہندکو کا تاریخی رشتہ بہت گہرا، دیرینہ اورپائیدار ہے۔ اس نظریے کی موجودگی میں یہ اوربھی ضروری ہوگیا ہے کہ ہر ہندکو دان کو اردو کے ساتھ بھی ویسا ہی رشتہ رکھنا چاہیے جیسا کہ اس کا اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ استوار ہے کہ یہی زبانوں کی تہذیبوں کے اشتراک کا تقاضا ہے ۔
ہندکو اوراردو میں الفاظ کی شکلوں میں بہت سے ایسے الفاظ ہیں جن میں کافی حد تک مماثلت موجود ہے بعض تو وہ الفاظ ہیں جن میں ہندکو اور اردو میں ذرا سا بھی کوئی اختلاف موجود نہیں۔ بعض الفاظ وہ ہیں جن میں معمولی تخفیف واضافہ ہے جو کہ زیر ، زبر (اعراب)کا ہے یاکسی ایک حرف کے آگے پیچھے کرنے کا معاملہ ہے مگر مجموعی طور پر یکسانیت موجود ہے جس کی مثال میں کئی الفاظ پیش کئے جاسکتے ہیں۔ یہی الفاظ کی مماثلت و یگانگت ہے، جس کی وجہ سے ہندکودان اردو بولنے میں ایسی کوئی دشواری ومشکل محسوس نہیں کرتے۔
اس کے ساتھ قومی سطح پر ہمارا جو لسانی شعور یا کلچر ہے، اس کے متعلق بھی مثبت رویہ پایا جاتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علاقائی زبانوں نے مثبت طور پر اردو سے اثرات قبول کیے ہیں۔ اگرچہ اردو کو خود انگریزی زبان سے ٹکراؤ کا سامنا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے علاقائی تنوع میں اردو زبان پورے ملک کے عوام کو آپس میں جوڑتی ہے۔
بحیثیت مجموعی اردو زبان پاکستانی قوم کی ایک اجتماعی ثقافت ہے، جس سے جڑ کر ہی پاکستانی قوم پوری یک جہتی سے اپنا ممتاز مقام رکھتے ہوئے کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کے ہر خطے کا فرد شعوری یا غیر شعوری طور پر بھی اردو کے ساتھ منسلک ہے۔ خیبرپختون خوا کے کوہستانی اورصحرائی علاقوں سے لے کر پشاور جیسے تہذیبی اور تمدنی خطے کے لوگ اگرچہ اپنی اپنی علاقائی زبانوں اور ان کے لہجوں کو زندہ وسلامت رکھے ہوئے ہیں، مگر زبانی اختلاف میں جو بھی اجنبیت حائل ہے، اس اجنبیت کو بڑی حد تک اگرکو ئی شے ختم کرنے کا ذریعہ ثابت ہورہی ہے تو وہ ہے پاکستان کی قومی زبان اردو۔ جس نے بین الاعلاقائی خطوں کی اجنبیت کو ختم کرکے قومیت کے ایک تصور کو اجاگر کرنے میں اہم اور غیر معمولی کردار اداکر رکھا ہے ۔
رابطے کی زبان اس وقت اردو ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اردو کی اثر آفرینی کے ضمن میں جو ایک اورحقیقیت سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی مقامی زبان بولنے والے باشندے اپنے ہی علاقوں میں بھی خود اپنے طور سے اردو بول چال کو اس لیے قبول کیے ہوئے ہیں کہ اردو کے بارے میں یہ تصور بھی پختہ تر چلاجارہا ہے کہ زبانی تہذیب وشائستگی کی وہ تمام خوبیاں اردو میں موجود ہیں جو کسی زبان میں ہونی چاہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ اردو کی حیثیت زبانوں کی تاریخ میں نسبتاً ایک کم عمر زبان کی ہے، اردو میں بہت سی علاقائی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی ، ہندی زبانوں کا بھی اشتراک ہے۔ اس کی وجہ سے یہ آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے اور اس سے اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔
موجودہ دور میں علاقائی زبانوں سے متعلق تنظیمیں بڑی شدومد کے ساتھ لسانی تحریکیں چلا رہی ہیں جو کہ ثقافت و روایت کو قائم و دائم رکھنے کے سلسلہ میں حوصلہ افزاء معاملہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اردو بحیثیت قومی زبان کے بھی علاقوں میں قدرتی اور فطری طور پر آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
مثال کے طور پر پشاور میں ہندکو زبان سے متعلق ایسی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں جو ہندکو زبان کی ترویج وترقی کے لیے بہت مفید اور تسلی بخش حد تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہیں، اسی طرح صوبے کے دوسرے حصوں کی زبانوں اور بولیوں پر مقامی سطح پر قائم ہونے والی لسانی تنظیموں نے کام شروع کر رکھا ہے۔
خیبرپختون خوا کی متفرق اور متنوع سطح کی زبانوں پر کام ہو رہا ہے، پھر بھی ہر ایک کو یہ بھی احساس ہے کہ ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جو 1947ء میں اس لیے نئی آن بان اور شان سے وجود میں آیا کہ پاکستانی قوم اپنا ایک مخصوص اور ممتاز قومی مقام رکھتی ہے۔ اس قومیت کی ایک عظیم تر شناخت زبان بھی ہے۔ اردو اسی قومی شناخت کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جس کے بغیر قومیت کی جڑ مضبوط نہیں ہوسکتی چنانچہ اسی احساس کے تحت ہر علاقے کی اپنی اپنی زبان کے ارتقائی عمل میں پاکستان کی قومی زبان اردو کا بھی اہم حصہ ہے۔
اس اعتبار سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ خیبرپختون خوا کے تمام خطوں کی زبانوں پر اردو کے اثرات اس لحاظ سے خوش آئند ہیں کہ قومی زبان اردو کو ایک رابطے اور وسیلے کی زبان کی حیثیت سے مقبول حیثیت حاصل ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اردو کے الفاظ بڑی حد تک دیگر علاقائی زبانوں کے الفاظ سے صوتی اشتراک رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ لہجوں میں بھی کوئی خاص مغائرت کا احساس نہیں ہوتا اور یہ مغائیرتی احساس کی معدومیت بھی اس سلسلے میں بڑی حد تک اردو بولنے میں معاون ثابت ہوئی ہے۔
ہندکو زبان کی بول چال میں کوئی اجنبیت و مغائرت کااحساس دامن گیر نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ پشاور کی جس جغرافیائی حدود میں ٹھیٹ ہندکو بولی جاتی ہے وہاں اردو بڑی سہولت اور روانی کے ساتھ بولنے میں کوئی قابل ذکر مشکل پیش نہیں آتی۔ اس لیے ہندکو دان بڑی خوبی و شستگی کے ساتھ اردو بولتے ہیں۔
پشاورشہر کے وہ گھرانے جن کی مادری زبان ہندکو ہے موجودہ دورانیے میں یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ ان گھرانوں کے بچوں میں اردو بولنے کا رواج عام ہوچکا ہے اور یہ بچے اپنی اپنی عمروں کے مطابق اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ ساتھ اردو بولنے میں بھی اسی طرح معروف حیثیت رکھنے لگے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جن گھرانوں میں بچوں کو اردو کی طرف مائل کیاجا رہا ہے وہاں بچوں کو اپنی مادری زبان ہندکو بولنے سے دوررکھنے کی کوشش ہورہی ہے۔
یہ سوچ خام ہے، کیوں کہ مادری زبان کے ساتھ بچے کا رشتہ قدرتی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ وہ اپنی مادری زبان، اس کی دانائی اور کلچر سے مکمل جڑے ہوئے دوسری زبان کے ثمرات کو بھی اپنے دامن میں سمیٹتا ہے۔ دو زبانوں میں مہارت حاصل کرنے سے بچے اپنی علاقائی تہذیب وثقافت کے ساتھ جڑ کر قومی شناخت کی بابت بھی اپنا مقام متعین کر رہے ہیں۔
اردو زبان اور ہندکو زبان کے رشتے بڑے مضبوط ہیں بلکہ اس وقت تو ہندکو زبان کے تحقیق کار اور ماہرین لسانیات کی تحقیق کادائرہ اس حد تک وسعت اختیار کرچکا ہے کہ وہ اردو کا ماخذ ہندکو زبان کے تحریری مواد کو قرار دے رہے ہیں۔
ہندکو کے نامور دانشور لکھاری خاطرغزنوی نے اردو زبان کا ماخذ ہندکو کو قرار دیا ہے، چنانچہ اس لحاظ سے تو یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ قومی زبان اور ہندکو کا تاریخی رشتہ بہت گہرا، دیرینہ اورپائیدار ہے۔ اس نظریے کی موجودگی میں یہ اوربھی ضروری ہوگیا ہے کہ ہر ہندکو دان کو اردو کے ساتھ بھی ویسا ہی رشتہ رکھنا چاہیے جیسا کہ اس کا اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ استوار ہے کہ یہی زبانوں کی تہذیبوں کے اشتراک کا تقاضا ہے ۔
ہندکو اوراردو میں الفاظ کی شکلوں میں بہت سے ایسے الفاظ ہیں جن میں کافی حد تک مماثلت موجود ہے بعض تو وہ الفاظ ہیں جن میں ہندکو اور اردو میں ذرا سا بھی کوئی اختلاف موجود نہیں۔ بعض الفاظ وہ ہیں جن میں معمولی تخفیف واضافہ ہے جو کہ زیر ، زبر (اعراب)کا ہے یاکسی ایک حرف کے آگے پیچھے کرنے کا معاملہ ہے مگر مجموعی طور پر یکسانیت موجود ہے جس کی مثال میں کئی الفاظ پیش کئے جاسکتے ہیں۔ یہی الفاظ کی مماثلت و یگانگت ہے، جس کی وجہ سے ہندکودان اردو بولنے میں ایسی کوئی دشواری ومشکل محسوس نہیں کرتے۔