بُک شیلف
ادبی کتابوں کا مجموعہ
جہاں بانی سے دشوار تر کارِجہاں بینی
مصنف: سید سلطان علی شاہ
مرتبہ: ڈاکٹر فلیحہ عقیل
ناشر: فریدپبلشرز، 12مبارک محل، نزد مقدس مسجد، اردوبازار، کراچی
صفحات:251
قیمت:1800روپے
یہ کتاب سید سلطان علی شاہ کے کالموں اور مضامین کا مجموعہ ہے، جو کوئی معروف شخصیت تو نہیں البتہ متحرک زندگی گزارنے والے ایک وسیع المطالعہ اور غوروفکر کرنے والے انسان کی حیثیت سے ان کی تحریریں دل چسپ اور معلوماتی ہیں۔ یہ تحریریں اپنے لکھنے والے کی مشاہدے کی زبردست صلاحیت اور شان دار یادداشت کا ثبوت بھی ہیں۔ سید سلطان علی شاہ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے گائوں چک قاضیاں میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ لاہور میں زیرتعلیم رہے۔ زندگی کا ایک حصہ ریاست حیدرآباد دکن میں گزارہ۔ برطانوی فوج سے لگ بھگ دس سال وابستہ رہے اور دوسری جنگ عظیم میں شریک ہوکر ایران، عراق، فلسطین اور اس جنگ کا حصہ بننے والے دیگر علاقوں کا سفر کیا۔ قیام پاکستان سے کچھ قبل وہ واپس اپنے گائوں چک قاضیاں آگئے، جہاں کھیتی باڑی کے ذریعے یافت کرنے کے ساتھ مطالعہ کا شوق پورا کرتے رہے اور کالم نویسی کا شغل اپنا کر انھوں نے اپنے تجربات، خیالات اور علم سے اپنے قارئین کو مستفید کیا۔ انھوں نے 1995میں وفات پائی۔ مرتبہ فلیحہ عقیل نے بڑی محنت سے سیدسلطان علی شاہ کی کئی عشروں پر محیط تحریروں کو اکٹھا کرکے کتابی صورت دی ہے۔
کتاب میں شامل کالموں اور مضامین کو موضوعات کے اعتبار سے تین حصوں ''جہاں نما''، ''اسلامی عقائد اور مسلمان'' اور ''سکھ ازم اور برصغیرپاک وہند۔'' سیدسلطان علی شاہ کی یہ تمام تحریریں اس عہد کے بارے میں ہیں جو برصغیر خاص کر اس خطے کے مسلمانوں کے لیے نہایت اہم دور تھا۔ انگریز ہندوستان سے رخصتی کے لیے پَر تول رہے تھے اور پورے ہندوستان کی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ اس کتاب میں شامل مضامین اور کالم، جو تقسیم کے خاصے عرصے بعد لکھے گئے، تجزیے اور تبصرے کی صورت بہت سے تاریخی حقائق سامنے لاتے ہیں۔
سکھوں کا مذہب، تاریخ اور سیاست سیدسلطان علی شاہ کا خاص موضوع رہے۔ ان کی تحریروں سے عیاں ہوتا ہے وہ سکھ دھرم کے ماننے والوں سے قلبی لگائو اور ہم دردی رکھتے تھے اور بٹوارے کے بعد سکھوں کے پیش آنے والی مشکلات پر انھیں افسوس تھا۔ کتاب میں شامل سکھوں پر لکھے گئے مضامین قاری کو سکھ تاریخ اور تقسیم کے وقت سکھوں کی پوزیشن سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کتاب میں شامل کئی نگارشات دوسری جنگ عظیم کے براہ راست تجربے کے باعث مفید تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان تحریروں کا اسلوب نہایت سادہ، تصنع سے پاک اور رواں ہے، کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ صاحب قلم یہ الفاظ دوسروں کے لیے نہیں تحریر کر رہا بلکہ ڈائری لکھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے دامن میں قارئین کے لیے بہت کچھ ہے۔ کتاب کا سرورق دل کش اور طباعت معیاری ہے۔
حکایاتِ سعدی
(شیخ سعدی شیرازی کی منتخب حکایات)
انتخاب: سیدفرید حُسین
ناشر: فریدپبلشرز، کراچی
صفحات:96
قیمت:500 روپے
مسلم ادب وثقافت میں شیخ سعدی جو مقام رکھتے ہیں اس سے کون واقف نہیں۔ جس نے شہرۂ آفاق کتابوں ''گلستان سعدی'' اور ''بوستان سعدی'' کو چھوا بھی نہ ہو وہ بھی ان کے خالق کے نام سے آشنا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں تو پچھلی صدی تک ہر گھر میں تعلیم کی ابتدا انھیں کتابوں سے ہوتی تھی۔
نظم ونثر میں لکھی گئی یہ حکایات زندگی کا سبق سکھاتی اور اخلاقی نکات پر مبنی ہیں، ایسے نکات جو ہر دور اور ہر خطے کے انسان کے لیے راہ نما ہیں۔ یہ حکایتیں دل پذیروذہن نشیں ہونے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ صدیوں سے زبانوں پر ہیں اور علماء، مصلحین، اہل دانش و اہل ادب کی تحریروں میں مہک رہی ہیں۔ ان حکایات کے قصے، کردار، فقرے زماں ومکاں سے ماورا ہوچکے ہیں، یہی شیخ سعدی کا کمال ہے۔
زیرتبصرہ کتاب شیخ سعدی کی منتخب حکایات کا مجموعہ ہے جن کی تعداد پچانوے ہے۔ سیدفرید حسین نے ان حکایات کا انتخاب اور انھیں مرتب کرکے اپنے ادارے فریدپبلشرز سے شایع کیا ہے، جو قابل ستائش کوشش ہے۔ اس طرح کی کتابیں ہماری علمی، ادبی اور ثقافتی روایات کو آگے بڑھانے اور نئی نسل کو ان سے جوڑنے کا سبب بن سکتی ہیں، ساتھ ہی ایسی کتابوں کا مطالعہ نوجوانوں کے اخلاق وکردار پر مثبت نتائج مرتب کرنے کا حامل ہوتا ہے۔
پٹیالہ شاہی (پنجابی ناول)
مصنف: ابوعلیحہ
ناشر: سید دلاور حُسین
صفحات: 144
قیمت:600 روپے
پنجابی میں تخلیق کیے جانے والے اس ناول کے خالق ابوعلیحہ صحافی، اسکرپٹ رائٹر، ہدایت کار اور بلاگر کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ فلم ان کا خاص شعبہ ہے، چناں چہ ان کے بلاگز بھی شوبز کا احاطہ کیے ہوتے ہیں۔ شاید فلم کے شعبے سے گہرے لگائو کا نتیجہ ہے کہ ''پٹیالہ شاہی'' کے اسلوب سے کہانی اور مکالموں تک سب کچھ فلمی لگتا ہے۔ ناول کا بیانیہ اسکرپٹ کا روپ لیے ہوئے ہے اور پورے ناول میں مناظر کا نقشہ کھینچ کر اور کرداروں کے درمیان ہونے والے مکالموں کے ذریعے کہانی بیان کی گئی ہے۔
ناول پڑھتے ہوئے باربار بولی وڈ کی مشہور فلم ''دل والے دلنہیا لے جائیں گے'' کے مناظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں، ایک مکالمے میں ''دل والے دلنہیا لے جائیں گے'' کا تذکرہ ظاہر کرتا ہے کہ ''پٹیالہ شاہی'' کے مصنف کو خود بھی گہری مشابہت اور مماثلت کا احساس تھا۔ بہ ہر حال، یہ ایک سادہ، ہلکی پھلکی محبت کی کہانی ہے، جس میں شگفتگی کا عنصر نمایاں ہے۔ ابوعلیحہ نے مکالموں اور سچویشنز میں اپنی مزاح نگاری کی صلاحیت کو خوب برتا ہے۔ ''بابرجٹ'' اور اس کی بیوی ''ناجو'' کے کردار اور ان کا باہمی تعلق وتکرار ناول کا حاصل ہیں۔
ان کرداروں اور ان کی کہانی نے ناول کا فکاہیہ رنگ نکھار دیا ہے۔ یہ دو کردار اور ان کی کہانی اتنی منفرد ہے کہ اسے پر الگ ناول لکھا جاسکتا ہے۔ ''پٹیالہ شاہی'' کی خصوصیت اس کا سِکھ پس منظر ہے۔ ہیرو ہیروئن سمیت، بابرجٹ اور ناجو کو چھوڑ کر۔ ناول کے مرکزی کردار سکھ ہیں اور کہانی ننکانہ صاحب سے تعلق رکھتی ہے۔ غالباً یہ پاکستان میں لکھا جانے والا پہلا ناول ہے جس میں کہانی کا محور سکھ برادری کے افراد ہیں۔
اچھا ہوتا کہ کہانی کے توسط سے سکھ دھرم کی مذہبی رسومات اور عقائد کو ذرا تفصیل سے بیان کردیا جاتا، یوں یہ ناول سکھ کلچر کی نمائندگی کرتا ناول بن کر سامنے آتا۔ ناول کے ساتھ تین افسانے بھی کتاب کا حصہ ہیں، جن کے عنوانات ہیں ''پکوڑیاں آلی کڑاہی''، ''میں خمیازہ ساحل دا'' اور ''پوری غیرت آلا۔'' حیرت کی بات ہے کہ سرورق سے لے کر پیش لفظ تک کہیں ان افسانوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اپنے موضوعات اور بُنت کے اعتبار سے یہ تینوں مختصر افسانے پڑھے جانے اور داد کے قابل ہیں اور تینوں کا انجام چونکادینے والا ہے۔
عشق رسول ﷺ کی لازوال داستان
مصنفہ: نتاشہ انور
ناشر: فرید پبلشرز، کراچی
صفحات:212
قیمت: 1500 روپے
بہ طور اینکر اور ٹی وی ہوسٹ مقبولیت کی ان چھوئی بلندیاں سر کرنے والے ڈاکٹرعامرلیاقت حسین کی زندگی بے مثال عروج اور افسوس ناک اختتام کی ایک عجیب کہانی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے مذہبی پروگراموں کو ریٹنگ میں سرفہرست لے آنا پاکستانی ٹی وی چینلز کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ ہے جو ڈاکٹر عامرلیاقت کے نام کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے صحافت اور سیاست میں بھی نام بنایا۔ اس کے ساتھ ہی متنازعہ جملے اور تنازعات بھی ان کی شخصیت کا تعارف ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ڈاکٹرعامرلیاقت حسین کی زندگی اور شخصیت پر لکھی گئی ہے، جس کا کا پورا نام ''عشق رسول ﷺ کی لازوال داستان، یقین کا اک سفر، ڈاکٹرعامر لیاقت حسین'' ہے۔ کتاب کی مصنفہ نتاشہ انور ڈاکٹرعامر لیاقت کو اپنا مرشد مانتی ہیں اور ان کی تحریر کی سطرسطر میں ایک مرید کی محبت وعقیدت بسی ہوئی ہے۔
اس عقیدت اور تعلقِ خاطر کے باعث اس تصنیف سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ یہ ہمارے عہد کی ایک نہایت مقبول شخصیت، جس کا نام تین بار مسلم دنیا میں اثر رکھنے والی شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا اور اپنی ذات میں دل چسپی کے کئی پہلو رکھنے والے انسان کی زندگی کے بارے میں حقائق اور ان کے کرداروشخصیت کو پوری سچائی سے قارئین کے سامنے لائے گی۔ مصنفہ کے دل میں ڈاکٹرعامر کا جو احترام اور مقام ہے اس کا اندازہ ایک باب کی سُرخی سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے: ''مرشد پاک کے خدوخال اور خصائلِ حمیدہ۔'' یہ محض ایک عقیدت نامہ ہے اور کوئی پڑھنا چاہے تو اسے یہی حیثیت دیتے ہوئے مطالعہ کرے، ورنہ سخت مایوسی ہوگی۔
علینہ (ناول)
مصنف: عبدالصمد خان
زیراہتمام: The Branches Publications, Karachi
صفحات:144
قیمت:500
اردو میں ناول کی صنف کا آغاز اصلاحی قصوں سے ہوا۔ ڈپٹی نذیراحمد، راشدالخیری جیسے مصنفین کے یہ ناول بالخصوص عورتوں کی اصلاح اور ذہنی تربیت کے لیے لکھے گئے۔ ''علینہ'' بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے، جسے ادبی معیار اور ناول نگاری کے اصول وضوابط کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے مصنف کی ایک ایسی کاوش کے طور پر دیکھنا چاہیے جو انھوں نے پاکستانی لڑکیوں کو پُراعتماد اور بہادر بنانے کے لیے انھوں نے کی ہے۔
وہ اپنی سوچ کو سیدھی سادی تحریر کی صورت میں بھی قلم بند کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے اپنی فکر کو ایکشن، ایڈوینچر اور جاسوسی عنصر سے بُنی کہانی میں ڈھال کر دل چسپ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ''علینہ'' کے خالق عبدالصمد خان ''تائی کوانڈو'' کے بہترین کھلاڑی ہیں۔
ان کے ناول کا پلاٹ اسی کھیل پر استوار کیا گیا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار علینہ ایک دلیر لڑکی ہے۔ اپنے والد کے دیے ہوئے اعتبارواعتماد کے باعث وہ مارشل آرٹ میں مہارت حاصل کرچکی اور موٹرسائیکل چلاتی ہے۔ ناول میں کہیں وہ غنڈوں اور راہ زنوں کی مرمت کرتی نظر آتی ہے تو کہیں کسی بُردہ فروش کی واردات ناکام بناتی دکھائی دیتی ہے، آخر میں وہ ملک دشمن تخریب کاروں کا منصوبہ خاک میں ملادیتی ہے۔
اس کتاب کا مقصد والدین کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ اپنے بچیوں کو مارشل آرٹ کی تربیت دلوائیں، تاکہ وہ خطرے کی صورت میں اپنی اور دوسروں کی حفاظت کرنے کے قابل ہوسکیں۔ قومی ہاکی ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی اور سابق اولمپیئن حنیف خان اور پاکستان تائی کوانڈو فیڈریشن کے صدر لیفٹیننٹ کرنل (ر) وسیم احمد کی مختصر تحریریں کتاب کا حصہ ہیں، جن میں مصنف کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ کتاب کا سرورق ناول کی کہانی کا پوری طرح ترجمان ہے اور طباعت معیاری ہے۔
مصنف: سید سلطان علی شاہ
مرتبہ: ڈاکٹر فلیحہ عقیل
ناشر: فریدپبلشرز، 12مبارک محل، نزد مقدس مسجد، اردوبازار، کراچی
صفحات:251
قیمت:1800روپے
یہ کتاب سید سلطان علی شاہ کے کالموں اور مضامین کا مجموعہ ہے، جو کوئی معروف شخصیت تو نہیں البتہ متحرک زندگی گزارنے والے ایک وسیع المطالعہ اور غوروفکر کرنے والے انسان کی حیثیت سے ان کی تحریریں دل چسپ اور معلوماتی ہیں۔ یہ تحریریں اپنے لکھنے والے کی مشاہدے کی زبردست صلاحیت اور شان دار یادداشت کا ثبوت بھی ہیں۔ سید سلطان علی شاہ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے گائوں چک قاضیاں میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ لاہور میں زیرتعلیم رہے۔ زندگی کا ایک حصہ ریاست حیدرآباد دکن میں گزارہ۔ برطانوی فوج سے لگ بھگ دس سال وابستہ رہے اور دوسری جنگ عظیم میں شریک ہوکر ایران، عراق، فلسطین اور اس جنگ کا حصہ بننے والے دیگر علاقوں کا سفر کیا۔ قیام پاکستان سے کچھ قبل وہ واپس اپنے گائوں چک قاضیاں آگئے، جہاں کھیتی باڑی کے ذریعے یافت کرنے کے ساتھ مطالعہ کا شوق پورا کرتے رہے اور کالم نویسی کا شغل اپنا کر انھوں نے اپنے تجربات، خیالات اور علم سے اپنے قارئین کو مستفید کیا۔ انھوں نے 1995میں وفات پائی۔ مرتبہ فلیحہ عقیل نے بڑی محنت سے سیدسلطان علی شاہ کی کئی عشروں پر محیط تحریروں کو اکٹھا کرکے کتابی صورت دی ہے۔
کتاب میں شامل کالموں اور مضامین کو موضوعات کے اعتبار سے تین حصوں ''جہاں نما''، ''اسلامی عقائد اور مسلمان'' اور ''سکھ ازم اور برصغیرپاک وہند۔'' سیدسلطان علی شاہ کی یہ تمام تحریریں اس عہد کے بارے میں ہیں جو برصغیر خاص کر اس خطے کے مسلمانوں کے لیے نہایت اہم دور تھا۔ انگریز ہندوستان سے رخصتی کے لیے پَر تول رہے تھے اور پورے ہندوستان کی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ اس کتاب میں شامل مضامین اور کالم، جو تقسیم کے خاصے عرصے بعد لکھے گئے، تجزیے اور تبصرے کی صورت بہت سے تاریخی حقائق سامنے لاتے ہیں۔
سکھوں کا مذہب، تاریخ اور سیاست سیدسلطان علی شاہ کا خاص موضوع رہے۔ ان کی تحریروں سے عیاں ہوتا ہے وہ سکھ دھرم کے ماننے والوں سے قلبی لگائو اور ہم دردی رکھتے تھے اور بٹوارے کے بعد سکھوں کے پیش آنے والی مشکلات پر انھیں افسوس تھا۔ کتاب میں شامل سکھوں پر لکھے گئے مضامین قاری کو سکھ تاریخ اور تقسیم کے وقت سکھوں کی پوزیشن سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کتاب میں شامل کئی نگارشات دوسری جنگ عظیم کے براہ راست تجربے کے باعث مفید تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان تحریروں کا اسلوب نہایت سادہ، تصنع سے پاک اور رواں ہے، کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ صاحب قلم یہ الفاظ دوسروں کے لیے نہیں تحریر کر رہا بلکہ ڈائری لکھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے دامن میں قارئین کے لیے بہت کچھ ہے۔ کتاب کا سرورق دل کش اور طباعت معیاری ہے۔
حکایاتِ سعدی
(شیخ سعدی شیرازی کی منتخب حکایات)
انتخاب: سیدفرید حُسین
ناشر: فریدپبلشرز، کراچی
صفحات:96
قیمت:500 روپے
مسلم ادب وثقافت میں شیخ سعدی جو مقام رکھتے ہیں اس سے کون واقف نہیں۔ جس نے شہرۂ آفاق کتابوں ''گلستان سعدی'' اور ''بوستان سعدی'' کو چھوا بھی نہ ہو وہ بھی ان کے خالق کے نام سے آشنا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں تو پچھلی صدی تک ہر گھر میں تعلیم کی ابتدا انھیں کتابوں سے ہوتی تھی۔
نظم ونثر میں لکھی گئی یہ حکایات زندگی کا سبق سکھاتی اور اخلاقی نکات پر مبنی ہیں، ایسے نکات جو ہر دور اور ہر خطے کے انسان کے لیے راہ نما ہیں۔ یہ حکایتیں دل پذیروذہن نشیں ہونے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ صدیوں سے زبانوں پر ہیں اور علماء، مصلحین، اہل دانش و اہل ادب کی تحریروں میں مہک رہی ہیں۔ ان حکایات کے قصے، کردار، فقرے زماں ومکاں سے ماورا ہوچکے ہیں، یہی شیخ سعدی کا کمال ہے۔
زیرتبصرہ کتاب شیخ سعدی کی منتخب حکایات کا مجموعہ ہے جن کی تعداد پچانوے ہے۔ سیدفرید حسین نے ان حکایات کا انتخاب اور انھیں مرتب کرکے اپنے ادارے فریدپبلشرز سے شایع کیا ہے، جو قابل ستائش کوشش ہے۔ اس طرح کی کتابیں ہماری علمی، ادبی اور ثقافتی روایات کو آگے بڑھانے اور نئی نسل کو ان سے جوڑنے کا سبب بن سکتی ہیں، ساتھ ہی ایسی کتابوں کا مطالعہ نوجوانوں کے اخلاق وکردار پر مثبت نتائج مرتب کرنے کا حامل ہوتا ہے۔
پٹیالہ شاہی (پنجابی ناول)
مصنف: ابوعلیحہ
ناشر: سید دلاور حُسین
صفحات: 144
قیمت:600 روپے
پنجابی میں تخلیق کیے جانے والے اس ناول کے خالق ابوعلیحہ صحافی، اسکرپٹ رائٹر، ہدایت کار اور بلاگر کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ فلم ان کا خاص شعبہ ہے، چناں چہ ان کے بلاگز بھی شوبز کا احاطہ کیے ہوتے ہیں۔ شاید فلم کے شعبے سے گہرے لگائو کا نتیجہ ہے کہ ''پٹیالہ شاہی'' کے اسلوب سے کہانی اور مکالموں تک سب کچھ فلمی لگتا ہے۔ ناول کا بیانیہ اسکرپٹ کا روپ لیے ہوئے ہے اور پورے ناول میں مناظر کا نقشہ کھینچ کر اور کرداروں کے درمیان ہونے والے مکالموں کے ذریعے کہانی بیان کی گئی ہے۔
ناول پڑھتے ہوئے باربار بولی وڈ کی مشہور فلم ''دل والے دلنہیا لے جائیں گے'' کے مناظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں، ایک مکالمے میں ''دل والے دلنہیا لے جائیں گے'' کا تذکرہ ظاہر کرتا ہے کہ ''پٹیالہ شاہی'' کے مصنف کو خود بھی گہری مشابہت اور مماثلت کا احساس تھا۔ بہ ہر حال، یہ ایک سادہ، ہلکی پھلکی محبت کی کہانی ہے، جس میں شگفتگی کا عنصر نمایاں ہے۔ ابوعلیحہ نے مکالموں اور سچویشنز میں اپنی مزاح نگاری کی صلاحیت کو خوب برتا ہے۔ ''بابرجٹ'' اور اس کی بیوی ''ناجو'' کے کردار اور ان کا باہمی تعلق وتکرار ناول کا حاصل ہیں۔
ان کرداروں اور ان کی کہانی نے ناول کا فکاہیہ رنگ نکھار دیا ہے۔ یہ دو کردار اور ان کی کہانی اتنی منفرد ہے کہ اسے پر الگ ناول لکھا جاسکتا ہے۔ ''پٹیالہ شاہی'' کی خصوصیت اس کا سِکھ پس منظر ہے۔ ہیرو ہیروئن سمیت، بابرجٹ اور ناجو کو چھوڑ کر۔ ناول کے مرکزی کردار سکھ ہیں اور کہانی ننکانہ صاحب سے تعلق رکھتی ہے۔ غالباً یہ پاکستان میں لکھا جانے والا پہلا ناول ہے جس میں کہانی کا محور سکھ برادری کے افراد ہیں۔
اچھا ہوتا کہ کہانی کے توسط سے سکھ دھرم کی مذہبی رسومات اور عقائد کو ذرا تفصیل سے بیان کردیا جاتا، یوں یہ ناول سکھ کلچر کی نمائندگی کرتا ناول بن کر سامنے آتا۔ ناول کے ساتھ تین افسانے بھی کتاب کا حصہ ہیں، جن کے عنوانات ہیں ''پکوڑیاں آلی کڑاہی''، ''میں خمیازہ ساحل دا'' اور ''پوری غیرت آلا۔'' حیرت کی بات ہے کہ سرورق سے لے کر پیش لفظ تک کہیں ان افسانوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اپنے موضوعات اور بُنت کے اعتبار سے یہ تینوں مختصر افسانے پڑھے جانے اور داد کے قابل ہیں اور تینوں کا انجام چونکادینے والا ہے۔
عشق رسول ﷺ کی لازوال داستان
مصنفہ: نتاشہ انور
ناشر: فرید پبلشرز، کراچی
صفحات:212
قیمت: 1500 روپے
بہ طور اینکر اور ٹی وی ہوسٹ مقبولیت کی ان چھوئی بلندیاں سر کرنے والے ڈاکٹرعامرلیاقت حسین کی زندگی بے مثال عروج اور افسوس ناک اختتام کی ایک عجیب کہانی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے مذہبی پروگراموں کو ریٹنگ میں سرفہرست لے آنا پاکستانی ٹی وی چینلز کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ ہے جو ڈاکٹر عامرلیاقت کے نام کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے صحافت اور سیاست میں بھی نام بنایا۔ اس کے ساتھ ہی متنازعہ جملے اور تنازعات بھی ان کی شخصیت کا تعارف ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ڈاکٹرعامرلیاقت حسین کی زندگی اور شخصیت پر لکھی گئی ہے، جس کا کا پورا نام ''عشق رسول ﷺ کی لازوال داستان، یقین کا اک سفر، ڈاکٹرعامر لیاقت حسین'' ہے۔ کتاب کی مصنفہ نتاشہ انور ڈاکٹرعامر لیاقت کو اپنا مرشد مانتی ہیں اور ان کی تحریر کی سطرسطر میں ایک مرید کی محبت وعقیدت بسی ہوئی ہے۔
اس عقیدت اور تعلقِ خاطر کے باعث اس تصنیف سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ یہ ہمارے عہد کی ایک نہایت مقبول شخصیت، جس کا نام تین بار مسلم دنیا میں اثر رکھنے والی شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا اور اپنی ذات میں دل چسپی کے کئی پہلو رکھنے والے انسان کی زندگی کے بارے میں حقائق اور ان کے کرداروشخصیت کو پوری سچائی سے قارئین کے سامنے لائے گی۔ مصنفہ کے دل میں ڈاکٹرعامر کا جو احترام اور مقام ہے اس کا اندازہ ایک باب کی سُرخی سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے: ''مرشد پاک کے خدوخال اور خصائلِ حمیدہ۔'' یہ محض ایک عقیدت نامہ ہے اور کوئی پڑھنا چاہے تو اسے یہی حیثیت دیتے ہوئے مطالعہ کرے، ورنہ سخت مایوسی ہوگی۔
علینہ (ناول)
مصنف: عبدالصمد خان
زیراہتمام: The Branches Publications, Karachi
صفحات:144
قیمت:500
اردو میں ناول کی صنف کا آغاز اصلاحی قصوں سے ہوا۔ ڈپٹی نذیراحمد، راشدالخیری جیسے مصنفین کے یہ ناول بالخصوص عورتوں کی اصلاح اور ذہنی تربیت کے لیے لکھے گئے۔ ''علینہ'' بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے، جسے ادبی معیار اور ناول نگاری کے اصول وضوابط کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے مصنف کی ایک ایسی کاوش کے طور پر دیکھنا چاہیے جو انھوں نے پاکستانی لڑکیوں کو پُراعتماد اور بہادر بنانے کے لیے انھوں نے کی ہے۔
وہ اپنی سوچ کو سیدھی سادی تحریر کی صورت میں بھی قلم بند کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے اپنی فکر کو ایکشن، ایڈوینچر اور جاسوسی عنصر سے بُنی کہانی میں ڈھال کر دل چسپ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ''علینہ'' کے خالق عبدالصمد خان ''تائی کوانڈو'' کے بہترین کھلاڑی ہیں۔
ان کے ناول کا پلاٹ اسی کھیل پر استوار کیا گیا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار علینہ ایک دلیر لڑکی ہے۔ اپنے والد کے دیے ہوئے اعتبارواعتماد کے باعث وہ مارشل آرٹ میں مہارت حاصل کرچکی اور موٹرسائیکل چلاتی ہے۔ ناول میں کہیں وہ غنڈوں اور راہ زنوں کی مرمت کرتی نظر آتی ہے تو کہیں کسی بُردہ فروش کی واردات ناکام بناتی دکھائی دیتی ہے، آخر میں وہ ملک دشمن تخریب کاروں کا منصوبہ خاک میں ملادیتی ہے۔
اس کتاب کا مقصد والدین کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ اپنے بچیوں کو مارشل آرٹ کی تربیت دلوائیں، تاکہ وہ خطرے کی صورت میں اپنی اور دوسروں کی حفاظت کرنے کے قابل ہوسکیں۔ قومی ہاکی ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی اور سابق اولمپیئن حنیف خان اور پاکستان تائی کوانڈو فیڈریشن کے صدر لیفٹیننٹ کرنل (ر) وسیم احمد کی مختصر تحریریں کتاب کا حصہ ہیں، جن میں مصنف کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ کتاب کا سرورق ناول کی کہانی کا پوری طرح ترجمان ہے اور طباعت معیاری ہے۔