شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز
شمالی وزیرستان کے علاقے دیگان میں ہفتہ کو جیٹ طیاروں کی بمباری سے کراچی ایئر پورٹ پر حملے
UNITED NATIONS:
شمالی وزیرستان کے علاقے دیگان میں ہفتہ کو جیٹ طیاروں کی بمباری سے کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے ازبک ماسٹر مائنڈ سمیت 150 سے زائد ازبک دہشت گرد مارے گئے' ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اتوار کو شمالی وزیرستان میں باقاعدہ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ضرب عزب کے نام سے شروع کیے گئے اس آپریشن کا مقصد شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے۔ پاک فوج نے حکومت کی ہدایت کی روشنی میں اس آپریشن کا آغاز کیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق یہ آپریشن تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کیا جائے گا۔
گزشتہ روز دیگان میں جیٹ طیاروں کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر جو بمباری کی گئی وہ کراچی ایئر پورٹ پر حملے کا ردعمل تھی،اس حملے میں پہلی بار اسلامک موومنٹ ازبکستان کا نام سامنے آیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروائی تیز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ادھر شمالی وزیرستان میں 6 ماہ بعد ڈرون حملے بھی ہوئے جن میں 16 دہشت گرد مارے گئے تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان میں بھی ازبکوں کی ایک تعداد ماری گئی تھی۔
امریکی ڈرون حملوں اور حالیہ جیٹ طیاروں کی بمباری میں ازبکوں کی ہلاکت سے یہ امر سامنے آیا ہے کہ یہاں ازبکوں اور دیگر غیر ملکی جنگجوئوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ وسط ایشیا' افغانستان اور پاکستان میں موجود شدت پسندوں کے درمیان اتحاد موجود ہے اور وہ مشترکہ پلیٹ فارم سے انتہا پسندانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان پہلے قبائلی علاقوں میں موجود انتہاپسندوں کی کارروائیوں سے پریشان تھا اب یہ نیٹ ورک مزید وسیع ہو گیا ہے۔ اس میں ازبکوں' افغانوں اور پاکستانی طالبان کے علاوہ القاعدہ کی معاونت خطے کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
حکومت کو اس خطرے کو روایتی انداز میں نہیں لینا چاہیے اگر اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا تو یہ آنے والے وقتوں میں اتنے بڑے پیمانے پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کہ جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد شدت پسند منظم ہو کر اپنی کارروائیاں تیز کر سکتے ہیں۔ اس خطرے کا اظہار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے کہ القاعدہ سے منسلک نیٹ ورکس 2014ء کے بعد نیٹو کے انخلا کے باوجود افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے خطرہ رہیں گے۔
یہ رپورٹ طالبان کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کرنے والے ماہرین کی جانب سے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ سے منسلک پاکستانی شدت پسند تنظیمیں مشرقی اور جنوبی افغانستان میں افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتی آ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے مستقبل میں رونما ہونے والے جس خطرے کی نشاندہی کی ہے پاکستانی حکام کو اس سے نمٹنے کے لیے ابھی سے پلاننگ شروع کر دینا چاہیے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی جنگجوئوں کی موجودگی خطرے کی علامت بن چکی ہے جس کا اظہار کراچی ایئر پورٹ پر حملے کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔
پیشتر اس کے کہ یہ جنگجو مزید کارروائیاں کر کے ملکی اداروں اور تنصیبات کو نقصان پہنچائیں۔ بالآخر حکومت نے تذبذب کی پالیسی چھوڑ کر ملکی سالمیت اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو اولیت دیتے ہوئے قطعی فیصلہ کیا اور پاک فوج کو آپریشن کا حکم دے دیا۔ گومگو کی پالیسی سے ملک کا امن دائو پر لگ چکا تھا۔ پاکستانی فورسز کی جانب سے شروع کیا گیا آپریشن اس بات کا واضح پیغام ہے کہ دہشت پسند یہ نہ سمجھیں کہ وہ اپنی مذموم کارروائیاں کر کے محفوظ رہیں گے اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اس وقت قبائلی علاقوں میں طالبان گروہ منقسم ہو چکے ہیں۔
غیر ملکی جنگجوئوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب حالات میں تبدیلی آ چکی ہے اور معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ حالات کا رخ ان کے مخالف ہو چکا ہے۔ اب ان کے اندر بھی تقسیم ہونے سے وہ کمزور ہو چکے ہیں۔ اس لیے غیر ملکی جنگجوئوں کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کا حصہ نہ بنیں یا علاقہ چھوڑ دیں' اگر کچھ قوتیں پاکستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کی بدولت یہ سمجھتی ہیں کہ وہ پاکستان میں خانہ جنگی کے حالت پیدا کر کے اسے عراق یا شام بنا دیں گی تو انھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے اس مذموم ارادے میں قطعی کامیاب نہیں ہو پائیں گی۔
11 جون کو پاک فوج کے فارمیشن کمانڈرز کے 72 ویں اجلاس کے موقع پر عسکری قیادت نے یہ واضح کر دیا تھا کہ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے ہر ضروری قدم اٹھایا جائے گا۔ اگر طالبان یا غیر ملکی جنگجو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی کارروائیوں کی بدولت پاکستانی فورسز کو شکست دے دیں گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ پاکستانی فورسز انھیں شکست دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوگیاہے۔ پوری قوم کو اس آپریشن کے سلسلے میں حکومت اور پاک فوج کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ دہشت گردوں کا یہ آخری ٹھکانہ ہے۔ اگر انھیں یہاں سے پاک کر دیا گیا تو پاکستان سے دہشت گردی کی لعنت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔
شمالی وزیرستان کے علاقے دیگان میں ہفتہ کو جیٹ طیاروں کی بمباری سے کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے ازبک ماسٹر مائنڈ سمیت 150 سے زائد ازبک دہشت گرد مارے گئے' ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اتوار کو شمالی وزیرستان میں باقاعدہ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ضرب عزب کے نام سے شروع کیے گئے اس آپریشن کا مقصد شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے۔ پاک فوج نے حکومت کی ہدایت کی روشنی میں اس آپریشن کا آغاز کیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق یہ آپریشن تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کیا جائے گا۔
گزشتہ روز دیگان میں جیٹ طیاروں کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر جو بمباری کی گئی وہ کراچی ایئر پورٹ پر حملے کا ردعمل تھی،اس حملے میں پہلی بار اسلامک موومنٹ ازبکستان کا نام سامنے آیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروائی تیز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ادھر شمالی وزیرستان میں 6 ماہ بعد ڈرون حملے بھی ہوئے جن میں 16 دہشت گرد مارے گئے تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان میں بھی ازبکوں کی ایک تعداد ماری گئی تھی۔
امریکی ڈرون حملوں اور حالیہ جیٹ طیاروں کی بمباری میں ازبکوں کی ہلاکت سے یہ امر سامنے آیا ہے کہ یہاں ازبکوں اور دیگر غیر ملکی جنگجوئوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ وسط ایشیا' افغانستان اور پاکستان میں موجود شدت پسندوں کے درمیان اتحاد موجود ہے اور وہ مشترکہ پلیٹ فارم سے انتہا پسندانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان پہلے قبائلی علاقوں میں موجود انتہاپسندوں کی کارروائیوں سے پریشان تھا اب یہ نیٹ ورک مزید وسیع ہو گیا ہے۔ اس میں ازبکوں' افغانوں اور پاکستانی طالبان کے علاوہ القاعدہ کی معاونت خطے کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
حکومت کو اس خطرے کو روایتی انداز میں نہیں لینا چاہیے اگر اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا تو یہ آنے والے وقتوں میں اتنے بڑے پیمانے پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کہ جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد شدت پسند منظم ہو کر اپنی کارروائیاں تیز کر سکتے ہیں۔ اس خطرے کا اظہار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے کہ القاعدہ سے منسلک نیٹ ورکس 2014ء کے بعد نیٹو کے انخلا کے باوجود افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے خطرہ رہیں گے۔
یہ رپورٹ طالبان کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کرنے والے ماہرین کی جانب سے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ سے منسلک پاکستانی شدت پسند تنظیمیں مشرقی اور جنوبی افغانستان میں افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتی آ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے مستقبل میں رونما ہونے والے جس خطرے کی نشاندہی کی ہے پاکستانی حکام کو اس سے نمٹنے کے لیے ابھی سے پلاننگ شروع کر دینا چاہیے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی جنگجوئوں کی موجودگی خطرے کی علامت بن چکی ہے جس کا اظہار کراچی ایئر پورٹ پر حملے کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔
پیشتر اس کے کہ یہ جنگجو مزید کارروائیاں کر کے ملکی اداروں اور تنصیبات کو نقصان پہنچائیں۔ بالآخر حکومت نے تذبذب کی پالیسی چھوڑ کر ملکی سالمیت اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو اولیت دیتے ہوئے قطعی فیصلہ کیا اور پاک فوج کو آپریشن کا حکم دے دیا۔ گومگو کی پالیسی سے ملک کا امن دائو پر لگ چکا تھا۔ پاکستانی فورسز کی جانب سے شروع کیا گیا آپریشن اس بات کا واضح پیغام ہے کہ دہشت پسند یہ نہ سمجھیں کہ وہ اپنی مذموم کارروائیاں کر کے محفوظ رہیں گے اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اس وقت قبائلی علاقوں میں طالبان گروہ منقسم ہو چکے ہیں۔
غیر ملکی جنگجوئوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب حالات میں تبدیلی آ چکی ہے اور معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ حالات کا رخ ان کے مخالف ہو چکا ہے۔ اب ان کے اندر بھی تقسیم ہونے سے وہ کمزور ہو چکے ہیں۔ اس لیے غیر ملکی جنگجوئوں کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کا حصہ نہ بنیں یا علاقہ چھوڑ دیں' اگر کچھ قوتیں پاکستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کی بدولت یہ سمجھتی ہیں کہ وہ پاکستان میں خانہ جنگی کے حالت پیدا کر کے اسے عراق یا شام بنا دیں گی تو انھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے اس مذموم ارادے میں قطعی کامیاب نہیں ہو پائیں گی۔
11 جون کو پاک فوج کے فارمیشن کمانڈرز کے 72 ویں اجلاس کے موقع پر عسکری قیادت نے یہ واضح کر دیا تھا کہ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے ہر ضروری قدم اٹھایا جائے گا۔ اگر طالبان یا غیر ملکی جنگجو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی کارروائیوں کی بدولت پاکستانی فورسز کو شکست دے دیں گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ پاکستانی فورسز انھیں شکست دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوگیاہے۔ پوری قوم کو اس آپریشن کے سلسلے میں حکومت اور پاک فوج کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ دہشت گردوں کا یہ آخری ٹھکانہ ہے۔ اگر انھیں یہاں سے پاک کر دیا گیا تو پاکستان سے دہشت گردی کی لعنت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔