کیسے کہوں کہ آزاد ہوں

کہا جاتا ہے کہ میڈیا آزاد ہے، جو چاہے لکھے،جو چاہے کہے، کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔


Muqtida Mansoor June 15, 2014
[email protected]

کہا جاتا ہے کہ میڈیا آزاد ہے، جو چاہے لکھے،جو چاہے کہے، کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ جب یہ لاف گزاف اخبارات میں پڑھتا اور ٹیلی ویژن پر ہر لمحہ دیکھنے کے علاوہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور اپنے پیٹی بند بھائیوں سے یہی کچھ سنتا ہوں، تو بے اختیار ہنسنے کو جی چاہتا ہے۔ کیونکہ آزادی اظہار کے بارے میں میرے تجربات چہار سو گونجتے دعوئوں سے قطعی مختلف ہیں۔ میں 1968ء میں طلبا سیاست کے ذریعے ملک کے سیاسی و سماجی عمل کا حصہ بنا۔ 1972ء سے عملی زندگی کا آغاز کیا، جب کہ اکتوبر 1988ء سے مختلف اخبارات و جرائد میں بلاناغہ اظہاریے تحریر کرنا شروع کیے۔

اقتدار کی غلام گردشوں سے فٹ پاتھ پر بنے چائے خانوں تک اور اربابِ حل و عقد سے پسینے میں شرابور محنت کشوں تک، ہر ایک کی بات سننے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ مگر آج تک عوام کے موقف اور اپنے دل کی بات کھل کر بیان کرنے کے لیے کم از کم مجھے سازگار ماحول نہیں مل سکا۔ اس میں اخبار کی ادارتی پالیسی سے زیادہ اطراف میں موجود عوامل کا عمل دخل ہے۔ بلکہ آج میں خود کو زیادہ پابند، زیادہ خوفزدہ اور زیادہ محدود محسوس کرتا ہوں۔ اس لیے میں کیسے تسلیم کر لوں کہ مجھے عمر کے اس حصے میں اظہار کی آزادی مل گئی ہے؟ اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل پاکستان میں اب تک بننے اور نافذ ہونے والے مختلف آئینوں میں آزادی اظہار و آزادی صحافت سے متعلق شقوں اور ان پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔

اب تک ملک میں تین آئین نافذ ہوئے ہیں۔ ہر آئین میں آزادیِ اظہار کے بارے میں ایک آدھ شق ضرور شامل رہی ہے، مگر ان شقوں پر عملدرآمد کبھی نہیں ہوا۔ ملک کے پہلے آئین (جو مارچ 1956ء کو نافذ ہوا) کی شق 8 میں آزادی اظہار کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ یہ آئین پوری طرح نافذ ہونے سے پہلے ہی اکتوبر 1958ء میں منسوخ کر دیا گیا۔ فوجی آمر ایوب خان نے دوسرا آئین دیا، جو 1962ء میں نافذ ہوا۔ اس آئین کی شق 6 میں آزادیِ اظہار کی ضمانت دی گئی تھی۔ ان دونوں آئینوں میں مگر آزادی صحافت کا کوئی ذکر نہیں تھا، کیونکہ ان دنوں صحافت کی آزادی کو خطرناک تصور کیا جاتا تھا۔ اس لیے آزادی اظہار بھی ایک موہوم سی بات ہو کر رہ گئی تھی۔

1973ء میں متفقہ آئین منظور کیا گیا۔ یہ آئین آج بھی نافذ العمل ہے۔ اس کی شق 19 میں آزادیِ اظہار کے ساتھ آزادی صحافت کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ مگر آزادی صحافت مسلسل ایک خواب ہی رہی، کیونکہ نہ بھٹو مرحوم نے، نہ ان کے بعد آنے والی منتخب حکومتوں نے اس آئینی شق کے عملدرآمد پر سنجیدگی سے کوئی توجہ دی۔ بلکہ 1977ء سے 1988ء کے دوران ضیاء دور صحافت کے لیے سیاہ ترین دور ثابت ہوا۔ جب صحافیوں کو قید و بند کے علاوہ کوڑوں کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔ سابقہ دور حکومت میں جب 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کی اصل شکل و صورت اور اس کا پارلیمانی تشخص بحال کرنے کی کوشش کی گئی تو ایک ذیلی شق 19-A کا اضافہ کر دیا گیا۔ جو درج ذیل ہے۔

Every citizen shall have the right to have access to information in all matters of public importance subject to regulation and reasonable restrictions imposed by law.

مگر عوام کو ان شقوں کا ابھی تک کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ کیونکہ پاکستان کی 66 برس کی تاریخ میں مگر کبھی آزادیِ اظہار اور آزادیِ صحافت پر ان اصطلاحات کے وسیع تر معنی و مطالب کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوسکا اور نہ ہونے کی توقع ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ اول، پاکستان میں قبائلی اور جاگیردار کلچر کی جڑیں مضبوط ہونے کی وجہ سے گھر سے ریاست تک ہر جگہ مطلق العنان یعنی Despotic مزاج کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔ اس لیے ایسے معاشروں میں فکری تنوع کے لیے بہت مشکل سے گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ جب کہ 32 برس کی فوجی آمریّتوں نے عوامی مزاج میں موجود مطلق العنانی کو مزید مضبوط کر کے فکری تنوع کے پروان چڑھنے کا راستہ ہی روک دیا ہے۔

دوئم، تعلیم کی تشویشناک حد تک کم شرح اور پھر انتہائی پست معیار تعلیم جمہوریت اور جمہوری کلچر کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ سوئم، ریاست کے منطقی جواز کی مذہبی تفہیم اظہارِ رائے پر مختلف النوع پابندیوں کا سبب ہے۔ چہارم، صرف ریاست ہی آزادی اظہار میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ دیگر شراکت دار یعنی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور بعض طاقتور غیر ریاستی عناصر بھی ذرایع ابلاغ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

میرا مطالعہ و مشاہدہ یہ ہے کہ موجودہ دور جسے آزادی اظہار اور آزادی صحافت کا دور قرار دیا جا رہا ہے، وہ قطعی غلط ہے۔ کئی دہائیوں سے مختلف انداز میں جاری پابندیاں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں، بلکہ ان کے دائرے تبدیل ہوئے ہیں۔

اگر میں اپنے تجربات کی روشنی میں گفتگو کروں تو مجھے ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ خوف آتا ہے۔ پہلے بعض حقائق بیان کرنے کی پاداش میں گرفتاری، جیل یاترا یا جرمانے وغیرہ جیسی سزائوں کا خطرہ رہتا تھا۔ ہم نے جنرل ضیاء کا بدترین دور بھی دیکھا ہے۔ اس دور میں صحافیوں پر ہونے والے بدترین مظالم کا مشاہدہ بھی کیا۔ لیکن عوامی مقامات پر ہم خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔ مگر آج ہم اپنے گھروں، محلوں، تفریح گاہوں اور عبادت گاہوں تک میں غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ قتل ایک معمولی سا عمل ہو کر رہ گیا ہے۔ آج ریاستی اداروں ہی کا نہیں سیاسی جماعتوں کا دبائو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پھر مختلف ہتھیار بند گروپ بھی دبائو ڈالتے رہتے ہیں۔

کم از کم 20 برس سے یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ رپورٹر کسی حساس ریاستی معاملے، سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں اور فرقہ وارانہ امور پر جلسے یا کسی تنظیم کی سرگرمی کے بارے میں اپنی رپورٹ دیتے ہوئے کترانے لگے ہیں۔ جب کہ تجزیہ نگار بھی ایسے نازک امور پر کھرا تجزیہ دینے سے دامن بچاتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ پریس ریلیز مل جائے تا کہ رپورٹنگ پر ہونے والی تلخی سے بچنے کی سبیل ہو سکے۔ ایسا تجزیہ دیا جائے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ البتہ جس پر زور چل جاتا ہے اس کے بخیے ادھیڑ دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ پچھلے پانچ برس پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت کے ساتھ کیا گیا۔

حد یہ کہ منتخب صدر جو کہ ریاست کی علامت تصور کیا جاتا ہے اور مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے، اسے آزادیِ صحافت کے نام پر جس طرح رگیدا گیا، سمجھ نہیں آ رہا کہ اس عمل کو کس بنیاد پر آزادی صحافت قرار دوں۔اب دوسری طرف آئیے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 40 برس کی پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدائی دو دہائیوں کے دوران کبھی کسی نے ہمارا مسلکی پس منظر جاننے کی کوشش نہیں کی۔

ہمارا پیشہ اور سیاسی و نظریاتی جھکائو ہی ہماری شناخت ہوا کرتا تھا۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ لوگ پہلے ہی تعارف کے دوران مسلک اور عقیدہ پوچھ کر ہماری پنتالیس برسوں پر محیط جدوجہد کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ یہ رویے معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور جنون پرستی کا مظہر ہیں۔ ایسے پراگندہ ماحول میں کس طرح تحقیق و تخلیق کا عمل جاری رہ سکتا ہے؟ کس طرح دل کی بات سینہ قرطاس پر منتقل ہو سکتی ہے؟ سمجھ سے باہر ہے۔

پروفیسر اقبال احمد خان مرحوم عبداﷲ ہارون کالج کھڈہ (لیاری) کے استاد اور ایک ترقی پسند دانشور تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ سقوط ڈھاکہ دراصل باقی ماندہ پاکستان میں مڈل کلاس سیاست اور سوچ کا سقوط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سانحے کے بعد پاکستان میں فکری تنوع کے لیے گنجائش کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جو آگ افغانستان میں لگائی گئی ہے، اس کے شعلے بہت جلد پاکستان کے طول و عرض کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور پھر بچت کا کوئی راستہ باقی نہیں بچ پائے گا۔ وہ جو کچھ کہہ گئے آج حقیقت بن کر ہمارے سامنے آ رہا ہے۔ آج اندازہ ہو رہا ہے کہ جس طرح معاملات و مسائل کو جس انداز میں چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے محسوس ہو رہا ہے کہ آزادیِ اظہار مزید قدغنوں کا شکار ہونے جا رہی ہے۔ ایسے میں کس طرح کہوں کہ میں آزاد ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں