خواجہ خورشید انور اور بوسیدہ فائل
کیسی کیسی نایاب آوازیں! انسان سنتا ہے تو سحر میں ڈوب جاتا ہے۔
کیسی کیسی نایاب آوازیں! انسان سنتا ہے تو سحر میں ڈوب جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ جب خدا کی خاص عنایت ہوتی ہے تو انسان اپنی آواز کی بدولت اَمر ہو جاتا ہے۔ مجھے تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ خوبصورت آواز کسی بھی گلوکار کے گلے یا سینے سے نہیں، بلکہ اس کی روح کی تاروں کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے۔ پھر وہ لوگ کتنے عنقا ہیں جو ساز کو آواز سے ملا کر نئی طرز کی موسیقی ترتیب دیتے ہیں۔ یہ تمام لوگ رب نے بہت احتیاط اور توجہ سے بنائے ہیں۔ یہ قطعاً عام انسان نہیں ہیں۔
سیاست پر لکھنا سہل ہے۔ مگر میرا دل نہیں مانتا کہ میں سرکار کی نوکری میں ہوتے ہوئے اس موضوع پر لکھوں! آپکو ملک میں سال پہلے کی کابینہ کے وزراء کے نام یاد نہیں ہو نگے۔ نہ تمام وزراء اعظم کے نام مگر اس کے برعکس جب آپ سے خواجہ خورشید انور، بڑے غلام علی خان یا کے۔ ایل سہگل کے متعلق کوئی بات ہو گی، تو آپ ضرور اپنے ماضی کے گلاب سے کچھ عطر کشید کر کے کچھ نہ کچھ بیان کرینگے۔ کیا محمد رفیع، بیگم اختر فیض آبادی، ثریا بیگم، نور جہاں، امانت علی خان روز پیدا ہو سکتے ہیں؟ کیا کوئی بھی اعلیٰ ترین ترقی یافتہ ملک ان گلوکاروں کے برابر کی ایک بھی آواز پیدا کر سکتا ہے؟ کیا یہ حیرت انگیز حقیقت نہیں کہ نصرت فتح علی خان اور پاپا روتی جو ایک مغربی کلاسیکل سنگر تھا، ان دونوں کی آواز کی بلندی تک پہنچنا ناممکن قرار دیا ہے۔
جنرل ضیاء نے تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف پھیر دیا۔ اس نے آزاد فکر کو لوہے کے ڈبے میں قید کرنے کی کوشش کی۔ ہمارا معاشرہ بالکل منجمد کر دیا گیا۔ خواجہ خورشید انور میانوالی سے تعلق رکھتے تھے۔ان کی علامہ اقبال سے بہت نزدیک کی رشتہ داری تھی۔ ان کے نانا، خان بہادر عطا محمد شیخ کی بیٹی علامہ کی اہلیہ تھیں۔ ان کے والد فیروزالدین لاہور کے ایک کامیاب بیرسٹر تھے۔ ان کے والد کو صرف ایک شوق تھا اور وہ تھا کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی سننا اور جمع کرنا۔
بیرسٹر فیروز الدین کے گھر میں ہزاروں کی تعداد میں ریکارڈ موجود تھے۔ خورشید انور کو اس تمام موسیقی کے خزانے سے استفادہ کرنے کا بچپن سے ہی رستہ مل گیا۔ ان کے گھر میں موسیقی کی ہفتہ وار محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ فیروز الدین کو برصغیر کے تمام نمایاں گائک سننے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا۔ یہ وہ دو عوامل تھے جس نے خورشید انور کو ایک لافانی موسیقار بنا دیا۔ خواجہ خورشید نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں ماسٹرز کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب تقسیم انعامات کی تقریب پر قصداً خود نہیں گئے۔ انگریز وائس چانسلر نے جب گولڈ میڈل کے لیے نام پکارا۔ وہ موجود نہ پائے گئے۔ تو اس نے برجستہ کہا کہ جو طالبعلم اپنا میڈل لینا بھول گیا ہے وہ حقیقی طور پر ایک فلسفی ہے۔ مگر خورشید انور کی منزل کوئی اور تھی۔ اسکو سُر اور ساز کا بادشاہ بننا تھا۔
خواجہ خورشید نے آل انڈیا ریڈیو دہلی پر میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے نوکری کر لی۔ یہ1939ء کا زمانہ تھا۔ وہاں ان کی ملاقات اے۔آر۔ کاردار سے ہوئی۔ کاردار اس زمانے کے سکہ بند فلمساز تھے۔ 1941ء میں خواجہ صاحب نے ایک پنجابی فلم"کڑمائی" کا میوزک بنایا۔ یہ فلم اتنی کامیاب نہ ہو سکی جتنی توقع کاردار اور خورشید انور کر رہے تھے۔ دو سال کے بعد1943ء میں "اشارہ" فلم آئی۔ اس میں بھی موسیقی خواجہ صاحب ہی کی تھی۔ اس کے گانے "ثریا بیگم" ـ" گوہر سلطان" اور وستالہ کماٹھیکر نے گائے تھے۔ ان گانوں نے برصغیر کو ایک سحر میں مبتلا کر دیا۔ ہر گلی کوچہ میں ان کی آواز سنائی دیتی تھی۔ یہ اس عظیم موسیقار کی پہلی عظیم کامیابی تھی۔ اس کے بعد شہرت کا ایک لامتناہی زینہ تھا جس پر یہ نوجوان چڑھتا چلا گیا۔
میں کے ایل سہگل کو ایک گائک نہیں بلکہ آواز کا جادو گر سمجھتا ہوں۔ آج بھی سہگل کی آواز آپکو اپنی قوت سماعت سے نہیں بلکہ روح سے سننی پڑتی ہے۔ یہ بے مثال سنگر موسیقی کا ایک نایاب ہیرا تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ1947ء میں سہگل نے خواجہ خورشید انور کی بنائی ہوئی دُھن پر اپنی زندگی کا آخری گانا گایا۔ اس فلم کا نام "پروانے" تھا۔ سہگل کی گائیکی کا قدرتی اختتام خورشید انور کی دُھن پر ہوا۔ کیا لوگ تھے! اور کیسی ملکوتی آوازیں! 1949ء میں خواجہ صاحب کو موسیقی کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا گیا۔ اس کا نام "کلیئر ایوارڈ" تھا۔
آپ اندازہ کریں کہ موسیقار"روشن" اور "شنکر جے کشن" اس موسیقی کے جادوگر کی دہلیز پر بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ "نوشاد" جو خود ایک یکتا موسیقار تھا، خواجہ صاحب کے احترام میں کھڑا رہتا تھا۔ خورشید انور1952ء میں پاکستان آ گئے۔ یہاں ان کے پایہ کے موسیقار نہ ہونے کے برابر تھے۔ نورجہاں جیسی عظیم گائیکہ بھی ایک مشکل دور سے دوچار تھی۔1956ء میں خورشید انور نے"انتظار" فلم کی دُھنیں ترتیب کیں۔ اس کے گانے نورجہاں کے لیے ایک نئی فنی زندگی کا زریعہ بنے۔ یہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلم تھی۔ اس کی کامیابی کی کنجی خواجہ صاحب کے بے مثال میوزک میں تھی۔ اس فلم کے بعد تو ایک طوفان سا آ گیا۔ خواجہ صاحب اپنے فن کے آسمان پر چمکنے لگے۔
مرزا صاحبان، زہرعشق، جھومر، کوئل، ایاز، گھونگھٹ، حویلی،چنگاری،سرحد،ہیررانجھا،شیریںفرہاد،مرزاجٹ اور سلام محبت، وہ فلمیں تھیں جنکی کامیابی کا سہرا خواجہ خورشید انور کی جادوئی موسیقی کو جاتاہے۔ فیض احمد فیضؔ اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کی شاعری میں خورشید انور کا جذب موجود ہے۔ فیض صاحب، ان سے بہت متاثر تھے۔ میرے خیال میں یہ دونوں تخلیق کار ایک دوسرے کے لیے ایک خوبصورت اثر رکھتے تھے۔ خواجہ صاحب کا ایک اور عظیم کام یہ بھی تھا کہ انھوں نے کلاسیکل موسیقی کو جمع کرنے کی نایاب کوشش کی۔یہ کاوش"آہنگ خسروی" کی شکل میں موجود ہے۔
اس کے علاوہ انھوں نے90 راگ جمع کیے۔ اس کا نام"راگ مالا" تھا۔ اس کے دس حصے تھے۔ ہر راگ سے پہلے خواجہ صاحب نے اسکو عام لوگوں کے لیے انتہائی سہل طریقے سے بیان کیا تھا۔ "آہنگ خسروی" اور "راگ مالا" ایسے عظیم کام ہیں جو ان کے بعد بہت کم لوگ کر پائے۔ میری نظر سے آج تک کوئی دوسرا نہیں گزرا۔ میں ایک دلچسپ بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ خواجہ صاحب کا موسیقی بنانے یا ترتیب دینے کا طریقہ بہت مختلف بلکہ منفرد تھا۔ انھوں نے بہت سی کامیاب دُھنیں ماچس کی ڈبیا پر بنائی ہیں۔
روایت ہے کہ وہ ماچس کی ڈبیا کو ایک خاص انداز میں بجاتے تھے اور وہیں سے وہ اپنی نایاب دُھن کی بنیاد تشکیل دے دیا کرتے تھے۔1980ء میں خواجہ صاحب کو "ستارہ امیتاز" سے نوازا گیا۔ 1982ء میں انھیں بمبئی کی میوزک انڈسٹری کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ کا نام تھا"Mortal- Men- Immortal- Melodius Award" موسیقار ہونے کے علاوہ خواجہ صاحب نے کئی فلمیں بھی ڈائریکٹ کیں۔ انھوں نے مختلف فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ کچھ فلمیں بھی بنائیں۔
میں کبھی بھی ایک دور کی موسیقی کا کسی دوسرے دور سے مقابلہ نہیں کرتا۔ ہر دور کے اپنے منفرد تخلیقی ذہن ہوتے ہیں۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ خواجہ خورشید انور اور ان کے دور کے گائک اب طلسماتی کردار نظر آتے ہیں۔ ان جیسے لوگ اب ہم کہاں سے لائیں! کیسے لائیں! شدت پسندی نے ہمارے معاشرہ کی اکثریت کو تخلیقی صلاحیت سے بانجھ کر دیا ہے۔ دور دور تک کوئی نئی چیز سنائی نہیں دیتی۔ خواجہ صاحب نے I.C.S مقابلے کا امتحان بھی کامیابی سے پاس کیا تھا۔ مگر باغیانہ خیالات اور انگریز غلامی کے خلاف ذہن کی وجہ سے وہ اس کھوکھلے انتظامی نظام کے قابل نہ گردانے گئے۔
میری دانست میں تو نوکری میں نہ ہونے کا عنصر ان کی ذات کے لیے ایک نعمت ثابت ہوا! وگرنہ خواجہ خورشید انور کی ذہانت، لیاقت اور فن شناسی فائلوں کے کسی دیمک زدہ ڈھیر میں گم ہو چکی ہوتی! اگر خواجہ صاحب افسر بن جاتے تو سیکریٹریٹ کے کسی دفتری بورڈ پر ان کا نام لکھا ہوتا! اس بیکار سے بورڈ پر ان سے پہلے اور بعد کے تمام سرکاری بابوئوں کا نام بھی موجود ہوتا! خواجہ پرانے کاغذ کی طرح گرد زدہ ریکارڈ روم کا حصہ ہوتے! مگر آج ہر موسیقی شناس شخص کے دل کے کاغذ پر ان کا نام چمکتے حروف میں آویزاں ہے! وہ کسی بوسیدہ فائل کا نہیں، ہماری موسیقی کی روح کا حصہ ہیں!