امراؤ جان اور پھولن دیوی
فیض آباد کی امیرن لکھنو پہنچ کر امراؤ ہوگئی۔ اس کے والد نے کسی کے خلاف عدالت میں گواہی دی تھی۔
فیض آباد کی امیرن لکھنو پہنچ کر امراؤ ہوگئی۔ اس کے والد نے کسی کے خلاف عدالت میں گواہی دی تھی۔ ظالموں نے بدلے میں اس کی بیٹی کو اغوا کرکے بیچ دیا۔ مردوں کے جھگڑے میں عورت پر ستم کی یہ انوکھی کہانی ہے۔ مرزا ہادی رسوا کا یہ ناول صدیوں تک یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ ہدایت کار حسن طارق کی فلم ''امراؤ جان ادا'' ایک کامیاب اور جاندار فلم تھی۔
رانی کی خوب صورت اداکاری، عمدہ مکالموں اور شاندار نغموں کی اس فلم نے بڑا متاثر کیا۔ جب ریکھا اور فاروق کی بھارت میں بنائی جانے والی فلم دیکھی تو وہ قدرے مختلف تھی۔ حسن طارق نے امراؤ نامی خاتون کی مظلومیت کی شدت کو کچھ اور انداز میں فلمایا جب کہ بھارت میں بننے والی فلم نے مہیلا کی فریاد کے کچھ اور رنگ بکھیرے۔ امیرن پر ابتدا اور انتہا میں ظلم ڈھانے والے مرد ایک سے تھے۔ ناول بہت پھیلا ہوا ہے اور مرزا ہادی رسوا کا یہ شاہکار ڈھائی گھنٹے کی فلم میں مکمل طور پر دکھایا بھی نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے کئی قسطوں کا ٹیلی ڈرامہ درکار ہے۔
امراؤ پر ظلم ڈھانے والے پانچ مردوں پر استغاثہ دائر کیا ہے ناول نگار نے۔ تین ظالموں کو دونوں فلموں میں دکھایا گیا ہے۔ چوتھا ظالم پاک و ہند میں بننے والی فلموں میں الگ الگ ہے۔ گویا ناول کے مطابق پانچ ظالم مردوں نے امیرن کو امراؤ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اغواکار عاشق اور امیرن کے بھائی کو دونوں نے مشترکہ طور پر دکھایا۔ ہیرو کے باپ کو پاکستانی فلم تو دوسرے عاشق کو بھارتی فلم میں دکھایا گیا ہے۔ گویا ناول کی ہیروئن پر ظلم کرنے والوں کی تعداد پانچ ہے جب کہ رانی اور ریکھا پر فلم کے ظالم مردوں کی تعداد چار ہے۔ کیا فلم بنانے والے مردوں نے عورت پر ظلم کو بیس فیصد کم کرکے دکھایا ہے؟
پہلا مرد وہ تھا جس نے دس سالہ امیرن کو اغوا کیا۔ باپ کے عدالت میں گواہی دینے سے ناراض شخص نے اس کی بیٹی کی خوشگوار زندگی کو اندوہناک غم میں بدل دیا۔ امیرن کو خریدنے والی ایک عورت تھی۔ ظالم مرد بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی۔ سوال تذکیر و تانیث کا نہیں۔ آج ایک مرد کالم نگار ایک امید پر آدم زادوں کو کٹہرے میں کھڑا کر رہا ہے۔ امید ہے کہ کل کوئی حوا کی بیٹی بھی ان خواتین پر استغاثہ دائر کرے گی جو خود عورت ہوتے ہوئے عورت پر ظلم ڈھانے کا سبب بنتی ہیں۔ دوسرا مرد وہ تھا جس نے امراؤ سے محبت کی۔ شاہد اور فاروق نے ان فلموں میں ہیرو کے رول نبھائے ہیں۔
وہ خاندان کا دباؤ برداشت نہ کرسکے اور امراؤ کے گھر سنبھالنے اور بیگم بننے کے خواب کو بکھیر دیا۔ پاکستانی فلم میں تیسرا ظالم شخص ہیرو کا باپ ہوتا ہے۔ اس کردار میں آغا طالش نے شاندار اداکاری کی ہے۔ پہلے وہ شادی رکوانے کی کوشش کرتا ہے اور ناکامی کے بعد بچے کو ماں سے الگ کردیتا ہے۔ حسن طارق نے فلم کے آخر میں رانی سے گانا ''جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں'' پکچرائز کروایا اور جس انداز میں نورجہاں نے ''آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں'' گایا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ 1975 میں بننے والی فلم آج بھی متاثر کن ہے۔ پاکستانی فلم میں ہیرو کا باپ تیسرا ظالم مرد ہے۔
بھارت میں بننے والی فلم کے مطابق ہیرو فاروق اپنی محبت ریکھا سے شادی ہی سے منہ موڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک اور شخص امراؤ کی زندگی میں آتا ہے۔ یہ کردار راج ببر نے نبھایا ہے۔ دربانوں اور طبلہ نوازوں کو اشرفیاں بانٹنے والا شخص امراؤ کی باعزت زندگی گزارنے کے لیے اپنی ریاست لے جانے کی پیشکش کرتا ہے۔ گھر کی بیگم بننے کے خواب دیکھنے والی امیرن جب آگے بڑھتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص ڈاکو ہے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا ہے۔ حسن طارق نے فلم میں یہ کردار دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
پانچواں ظالم مرد بدنصیب امیرن کا اپنا رشتے دار ہوتا ہے۔ قافلہ ایسی جگہ ٹھہرتا ہے جو فیض آباد کہلاتی ہے۔ امیرن کے دل میں اپنے گھر جانے کی خواہش جنم لیتی ہے۔جان پہچان اور تعارف کے بعد ماں بیٹیاں گلے لگ کر روتی ہیں۔ جب امیرن کا بھائی آتا ہے تو وہ ماں سے کہتا ہے کہ اسے گھر سے نکال باہر کرو۔ یہ امیرن نہیں بلکہ امراؤ جان ہے۔ یوں ماں کے رونے کے باوجود بھائی کے ڈانٹنے پر وہ گھر چھوڑ دیتی ہے۔ یہ وہی بھائی تھا جسے امیرن بچپن میں گود میں کھلایا کرتی تھی۔
حسن طارق نے فلم کا اختتام امیرن کی موت پر کیا ہے جب کہ بھارتی فلم میں امراؤ حالات سے سمجھوتہ کرکے خوش و خرم زندگی گزارنے کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ ناول جب تحریر سے پردے پر آتا ہے تو اس میں کئی تبدیلیاں کردی جاتی ہیں۔ یہ ہر دور کے فلم بینوں کی ذہنی سطح اور فلم ساز کی ضرورت و محبتوں کے مطابق ہوتی ہیں۔رنگ کالا اور قد چھوٹا۔ ایک سیدھی سادھی اور عام سی عورت۔ گیارہ سال کی عمر میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں پھولن دیوی اغوا ہوجاتی ہے۔ زیادتی کا شکار عورت خود کو باغی قرار دیتی ہے۔ اسے Indian's Bandit Queen یا ہندوستان کی ''ڈاکو ملکہ'' قرار دیا گیا۔
بابو سنگھ ایک ولن تھا اور اسے مارنے والا وکرم ملاح پھولن کے لیے ہیرو بن گیا۔ یوں وہ ڈاکوؤں کے ہیرو کی ہیروئن بن گئی۔ پھولن دیوی اور وکرم مل کر ڈاکے مارتے۔ دولت مندوں کو لوٹنا اور غریبوں کی مدد کرکے ہمدردی سمیٹنا رابن ہڈ سمیت تمام ڈاکوؤں کا طریقہ ہوتا ہے۔ ڈاکو مان سنگھ سے پھولن دیوی کی شراکت داری سن 80 میں ہوتی ہے۔ اغوا برائے تاوان اور تجارتی لاریوں کو لوٹنے میں بڑا فائدہ تھا۔ پھولن دیوی نے ایک گاؤں پر حملہ کیا اور کسی رحم دلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
وہ ٹھاکروں کے سخت خلاف تھی۔ پھولن دیوی کے بارے میں بھارتی اور بین الاقوامی اخبارات میں بے شمار مضامین شایع ہوئے۔ وہ خاکی جین پہنتی اور میگافون سے گاؤں والوں پر حکم چلاتی۔ وہ اسے عقیدت سے ''کالی دیوی کا دوسرا جنم'' قرار دیتے۔ ایک انٹرویو میں اس نے کہا کہ وہ پولیس سے نہیں ڈرتی۔ وہ ایک مجرم ہے جسے پھانسی کا خطرہ تھا۔ فروری 83 میں ایک سرکاری تقریب میں پھولن دیوی نے ہتھیار ڈال دیے۔
امراؤ اور پھولن کی زندگی میں خواتین، ریاست اور معاشرے کے لیے کون کون سے پیغامات پوشیدہ ہیں؟ عورتوں کو حالات سے گھبرانے کی بجائے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ انسان بڑا خود غرض و چالاک ہے۔ تقریباً تمام رشتے مطلب پرستی و خودغرضی کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ گواہوں کو نقصان صدیوں قبل بھی پہنچایا جاتا تھا۔ ان کے تحفظ کے قانون کو موثر ہونا چاہیے۔ امیرن کے بھائی نے سگی بہن کو قبول نہیں کیا۔ بچپن میں اغوا ہوکر اور حالات کی ستم ظریفی سے مجبور ہوکر امراؤ بننے والی کو خون کے رشتے نے پہچاننے سے انکار کردیا۔
پھولن دیوی کے کردار سے سبق ملتا ہے کہ کسی پر اتنا ظلم نہیں ڈھانا چاہیے کہ آج کا مظلوم کل ظالم کے روپ میں لوگوں کے سامنے آئے۔ ریاست میں اپنے ناراض شہریوں کو معاف کرنے کا حوصلہ اور ان سے ہتھیار رکھوا دینے کی دانش ہونی چاہیے۔ قارئین کو اس کالم سے کیا حاصل ہوا؟ انھوں نے ایک ناول؟ دو خواتین کے علاوہ تین فلموں کے بارے میں جانا۔ ایک افسانوی اور ایک حقیقی کردار کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی۔ ہمیں آگہی حاصل ہوئی کہ کون تھیں امراؤ جان اور پھولن دیوی۔
رانی کی خوب صورت اداکاری، عمدہ مکالموں اور شاندار نغموں کی اس فلم نے بڑا متاثر کیا۔ جب ریکھا اور فاروق کی بھارت میں بنائی جانے والی فلم دیکھی تو وہ قدرے مختلف تھی۔ حسن طارق نے امراؤ نامی خاتون کی مظلومیت کی شدت کو کچھ اور انداز میں فلمایا جب کہ بھارت میں بننے والی فلم نے مہیلا کی فریاد کے کچھ اور رنگ بکھیرے۔ امیرن پر ابتدا اور انتہا میں ظلم ڈھانے والے مرد ایک سے تھے۔ ناول بہت پھیلا ہوا ہے اور مرزا ہادی رسوا کا یہ شاہکار ڈھائی گھنٹے کی فلم میں مکمل طور پر دکھایا بھی نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے کئی قسطوں کا ٹیلی ڈرامہ درکار ہے۔
امراؤ پر ظلم ڈھانے والے پانچ مردوں پر استغاثہ دائر کیا ہے ناول نگار نے۔ تین ظالموں کو دونوں فلموں میں دکھایا گیا ہے۔ چوتھا ظالم پاک و ہند میں بننے والی فلموں میں الگ الگ ہے۔ گویا ناول کے مطابق پانچ ظالم مردوں نے امیرن کو امراؤ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اغواکار عاشق اور امیرن کے بھائی کو دونوں نے مشترکہ طور پر دکھایا۔ ہیرو کے باپ کو پاکستانی فلم تو دوسرے عاشق کو بھارتی فلم میں دکھایا گیا ہے۔ گویا ناول کی ہیروئن پر ظلم کرنے والوں کی تعداد پانچ ہے جب کہ رانی اور ریکھا پر فلم کے ظالم مردوں کی تعداد چار ہے۔ کیا فلم بنانے والے مردوں نے عورت پر ظلم کو بیس فیصد کم کرکے دکھایا ہے؟
پہلا مرد وہ تھا جس نے دس سالہ امیرن کو اغوا کیا۔ باپ کے عدالت میں گواہی دینے سے ناراض شخص نے اس کی بیٹی کی خوشگوار زندگی کو اندوہناک غم میں بدل دیا۔ امیرن کو خریدنے والی ایک عورت تھی۔ ظالم مرد بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی۔ سوال تذکیر و تانیث کا نہیں۔ آج ایک مرد کالم نگار ایک امید پر آدم زادوں کو کٹہرے میں کھڑا کر رہا ہے۔ امید ہے کہ کل کوئی حوا کی بیٹی بھی ان خواتین پر استغاثہ دائر کرے گی جو خود عورت ہوتے ہوئے عورت پر ظلم ڈھانے کا سبب بنتی ہیں۔ دوسرا مرد وہ تھا جس نے امراؤ سے محبت کی۔ شاہد اور فاروق نے ان فلموں میں ہیرو کے رول نبھائے ہیں۔
وہ خاندان کا دباؤ برداشت نہ کرسکے اور امراؤ کے گھر سنبھالنے اور بیگم بننے کے خواب کو بکھیر دیا۔ پاکستانی فلم میں تیسرا ظالم شخص ہیرو کا باپ ہوتا ہے۔ اس کردار میں آغا طالش نے شاندار اداکاری کی ہے۔ پہلے وہ شادی رکوانے کی کوشش کرتا ہے اور ناکامی کے بعد بچے کو ماں سے الگ کردیتا ہے۔ حسن طارق نے فلم کے آخر میں رانی سے گانا ''جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں'' پکچرائز کروایا اور جس انداز میں نورجہاں نے ''آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں'' گایا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ 1975 میں بننے والی فلم آج بھی متاثر کن ہے۔ پاکستانی فلم میں ہیرو کا باپ تیسرا ظالم مرد ہے۔
بھارت میں بننے والی فلم کے مطابق ہیرو فاروق اپنی محبت ریکھا سے شادی ہی سے منہ موڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک اور شخص امراؤ کی زندگی میں آتا ہے۔ یہ کردار راج ببر نے نبھایا ہے۔ دربانوں اور طبلہ نوازوں کو اشرفیاں بانٹنے والا شخص امراؤ کی باعزت زندگی گزارنے کے لیے اپنی ریاست لے جانے کی پیشکش کرتا ہے۔ گھر کی بیگم بننے کے خواب دیکھنے والی امیرن جب آگے بڑھتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص ڈاکو ہے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا ہے۔ حسن طارق نے فلم میں یہ کردار دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
پانچواں ظالم مرد بدنصیب امیرن کا اپنا رشتے دار ہوتا ہے۔ قافلہ ایسی جگہ ٹھہرتا ہے جو فیض آباد کہلاتی ہے۔ امیرن کے دل میں اپنے گھر جانے کی خواہش جنم لیتی ہے۔جان پہچان اور تعارف کے بعد ماں بیٹیاں گلے لگ کر روتی ہیں۔ جب امیرن کا بھائی آتا ہے تو وہ ماں سے کہتا ہے کہ اسے گھر سے نکال باہر کرو۔ یہ امیرن نہیں بلکہ امراؤ جان ہے۔ یوں ماں کے رونے کے باوجود بھائی کے ڈانٹنے پر وہ گھر چھوڑ دیتی ہے۔ یہ وہی بھائی تھا جسے امیرن بچپن میں گود میں کھلایا کرتی تھی۔
حسن طارق نے فلم کا اختتام امیرن کی موت پر کیا ہے جب کہ بھارتی فلم میں امراؤ حالات سے سمجھوتہ کرکے خوش و خرم زندگی گزارنے کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ ناول جب تحریر سے پردے پر آتا ہے تو اس میں کئی تبدیلیاں کردی جاتی ہیں۔ یہ ہر دور کے فلم بینوں کی ذہنی سطح اور فلم ساز کی ضرورت و محبتوں کے مطابق ہوتی ہیں۔رنگ کالا اور قد چھوٹا۔ ایک سیدھی سادھی اور عام سی عورت۔ گیارہ سال کی عمر میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں پھولن دیوی اغوا ہوجاتی ہے۔ زیادتی کا شکار عورت خود کو باغی قرار دیتی ہے۔ اسے Indian's Bandit Queen یا ہندوستان کی ''ڈاکو ملکہ'' قرار دیا گیا۔
بابو سنگھ ایک ولن تھا اور اسے مارنے والا وکرم ملاح پھولن کے لیے ہیرو بن گیا۔ یوں وہ ڈاکوؤں کے ہیرو کی ہیروئن بن گئی۔ پھولن دیوی اور وکرم مل کر ڈاکے مارتے۔ دولت مندوں کو لوٹنا اور غریبوں کی مدد کرکے ہمدردی سمیٹنا رابن ہڈ سمیت تمام ڈاکوؤں کا طریقہ ہوتا ہے۔ ڈاکو مان سنگھ سے پھولن دیوی کی شراکت داری سن 80 میں ہوتی ہے۔ اغوا برائے تاوان اور تجارتی لاریوں کو لوٹنے میں بڑا فائدہ تھا۔ پھولن دیوی نے ایک گاؤں پر حملہ کیا اور کسی رحم دلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
وہ ٹھاکروں کے سخت خلاف تھی۔ پھولن دیوی کے بارے میں بھارتی اور بین الاقوامی اخبارات میں بے شمار مضامین شایع ہوئے۔ وہ خاکی جین پہنتی اور میگافون سے گاؤں والوں پر حکم چلاتی۔ وہ اسے عقیدت سے ''کالی دیوی کا دوسرا جنم'' قرار دیتے۔ ایک انٹرویو میں اس نے کہا کہ وہ پولیس سے نہیں ڈرتی۔ وہ ایک مجرم ہے جسے پھانسی کا خطرہ تھا۔ فروری 83 میں ایک سرکاری تقریب میں پھولن دیوی نے ہتھیار ڈال دیے۔
امراؤ اور پھولن کی زندگی میں خواتین، ریاست اور معاشرے کے لیے کون کون سے پیغامات پوشیدہ ہیں؟ عورتوں کو حالات سے گھبرانے کی بجائے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ انسان بڑا خود غرض و چالاک ہے۔ تقریباً تمام رشتے مطلب پرستی و خودغرضی کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ گواہوں کو نقصان صدیوں قبل بھی پہنچایا جاتا تھا۔ ان کے تحفظ کے قانون کو موثر ہونا چاہیے۔ امیرن کے بھائی نے سگی بہن کو قبول نہیں کیا۔ بچپن میں اغوا ہوکر اور حالات کی ستم ظریفی سے مجبور ہوکر امراؤ بننے والی کو خون کے رشتے نے پہچاننے سے انکار کردیا۔
پھولن دیوی کے کردار سے سبق ملتا ہے کہ کسی پر اتنا ظلم نہیں ڈھانا چاہیے کہ آج کا مظلوم کل ظالم کے روپ میں لوگوں کے سامنے آئے۔ ریاست میں اپنے ناراض شہریوں کو معاف کرنے کا حوصلہ اور ان سے ہتھیار رکھوا دینے کی دانش ہونی چاہیے۔ قارئین کو اس کالم سے کیا حاصل ہوا؟ انھوں نے ایک ناول؟ دو خواتین کے علاوہ تین فلموں کے بارے میں جانا۔ ایک افسانوی اور ایک حقیقی کردار کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی۔ ہمیں آگہی حاصل ہوئی کہ کون تھیں امراؤ جان اور پھولن دیوی۔