شوہر کے مبینہ تشدد کا شکار خاتون کا بھارت جانے سے انکار تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ
خاتون نے کہا کہ ان کے بچے بھوکے ہیں اور اپنے گھر میں قید ہیں،شوہر سے ان کی جان کوخطرہ ہے لہٰذاحکومت سیکیورٹی فراہم کرے
پاکستانی شوہر کے مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی بھارتی خاتون فرزانہ بیگم نے شوہر کی جانب سے طلاق دینے کے دعوے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت نہیں جانا چاہتیں اور فیصلہ ہونے تک انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے فرزانہ بیگم نے کہا کہ وہ واپس بھارت نہیں جانا چاہتیں، ان کے شوہر کی طرف سے طلاق دینے کا دعویٰ جھوٹ ہے، بچے بھوکے ہیں، انہیں اور ان کے بچوں کو اپنے شوہر کی طرف سے جان کا خطرہ ہے اس لیے جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا حکومت انہیں تحفظ فراہم کرے۔
فرزانہ بیگم نے کہا وہ اب رحمان گارڈن میں اپنے گھر میں ہی قید ہیں، یہ گھر اور کچھ جائیداد ان کے بیٹوں کے نام ہے، ان کا اور ان کے بیٹوں کے پاسپورٹس ان کے شوہر کے پاس ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا یہاں کوئی نہیں ہے، ان کے شوہر جھوٹ بول رہے ہیں کہ وہ مجھے طلاق دے چکے ہیں، اگر طلاق دی ہے تو اس کا کوئی سرٹیفکیٹ دکھا دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر اپنی پہلی بیوی اور اولاد کے ساتھ مل کر انہیں زبردستی بھارت بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے بعد جو جائیداد ان کے بچوں کے نام ہے اس پر قبضہ کیا جا سکے۔
فرزانہ بیگم کے وکیل محسن عباس ایڈووکیٹ نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ان کی مؤکلہ کے شوہر کی طرف سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ان کی مؤکلہ کے ویزے کی معیاد ختم ہوچکی ہے حالانکہ ان کی مؤکلہ کا پاسپورٹ ان کے شوہر کے قبضے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پولیس سے کہا کہ ان کی مؤکلہ اور ان کے دونوں بیٹوں کے پاسپورٹ واپس کر دیے جائیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ویزے کا کیا اسٹیٹس ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی خاتون کا ویزا ختم بھی ہوچکا ہے تو وہ ویزے میں توسیع کے لیے قانونی کارروائی کریں گے۔
خاتون فرزانہ بیگم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنے بیٹوں کو چھوڑ کر کبھی بھی واپس بھارت نہیں جائیں گی۔
واضح رہے کہ فرزانہ بیگم کا تعلق بھارت کے شہر ممبئی سے ہے، انہوں نے 2015 میں ابوظہبی میں پاکستانی شہری مرزا یوسف الہٰی سے شادی کی تھی اور 2018 میں دونوں میاں بیوی پاکستان آگئے، ان کے دو بیٹے ہیں جن کی عمریں بالترتیب 6 اور 7 سال ہیں۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے فرزانہ بیگم نے کہا کہ وہ واپس بھارت نہیں جانا چاہتیں، ان کے شوہر کی طرف سے طلاق دینے کا دعویٰ جھوٹ ہے، بچے بھوکے ہیں، انہیں اور ان کے بچوں کو اپنے شوہر کی طرف سے جان کا خطرہ ہے اس لیے جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا حکومت انہیں تحفظ فراہم کرے۔
فرزانہ بیگم نے کہا وہ اب رحمان گارڈن میں اپنے گھر میں ہی قید ہیں، یہ گھر اور کچھ جائیداد ان کے بیٹوں کے نام ہے، ان کا اور ان کے بیٹوں کے پاسپورٹس ان کے شوہر کے پاس ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا یہاں کوئی نہیں ہے، ان کے شوہر جھوٹ بول رہے ہیں کہ وہ مجھے طلاق دے چکے ہیں، اگر طلاق دی ہے تو اس کا کوئی سرٹیفکیٹ دکھا دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر اپنی پہلی بیوی اور اولاد کے ساتھ مل کر انہیں زبردستی بھارت بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے بعد جو جائیداد ان کے بچوں کے نام ہے اس پر قبضہ کیا جا سکے۔
فرزانہ بیگم کے وکیل محسن عباس ایڈووکیٹ نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ان کی مؤکلہ کے شوہر کی طرف سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ان کی مؤکلہ کے ویزے کی معیاد ختم ہوچکی ہے حالانکہ ان کی مؤکلہ کا پاسپورٹ ان کے شوہر کے قبضے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پولیس سے کہا کہ ان کی مؤکلہ اور ان کے دونوں بیٹوں کے پاسپورٹ واپس کر دیے جائیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ویزے کا کیا اسٹیٹس ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی خاتون کا ویزا ختم بھی ہوچکا ہے تو وہ ویزے میں توسیع کے لیے قانونی کارروائی کریں گے۔
خاتون فرزانہ بیگم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنے بیٹوں کو چھوڑ کر کبھی بھی واپس بھارت نہیں جائیں گی۔
واضح رہے کہ فرزانہ بیگم کا تعلق بھارت کے شہر ممبئی سے ہے، انہوں نے 2015 میں ابوظہبی میں پاکستانی شہری مرزا یوسف الہٰی سے شادی کی تھی اور 2018 میں دونوں میاں بیوی پاکستان آگئے، ان کے دو بیٹے ہیں جن کی عمریں بالترتیب 6 اور 7 سال ہیں۔