بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے

8 جون 2014 بروز اتوار رات 11 بجے دہشت گردوں نے کراچی ائیرپورٹ پر حملہ کردیا۔

zb0322-2284142@gmail.com

8 جون 2014 بروز اتوار رات 11 بجے دہشت گردوں نے کراچی ائیرپورٹ پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ پہلی بار نہیں ہوا۔ افغانستان میں امریکی فوج کے داخلے کے بعد سے پاک افغان علاقوں کے ریاستی اداروں پر حملے ہوتے رہے۔ اب تک پاکستانی حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیم سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ طالبان نے اب تک جن 60 ہزار معصوم شہریوں اور 6 ہزار فوجیوں کا قتل کیا، آخر کیوں؟ بہرحال ائیرپورٹ اتھارٹی اور حکومت نے 9 جون دوپہر 12 بجے سب کچھ کلیئر ہونے کا علان کردیا۔

جہازوں کو ٹیک آف اور لینڈنگ کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن جیری داناتا کے کارگو شیڈ میں پھنسے ہوئے 7 مزدوروں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا کسی کو سنائی نہیں دی۔ 9 جون شام ساڑھے چار بجے ایک ورکرز یونین کے آفس سیکریٹری حارث مجید کا راقم کے پاس فون آیا کہ ''ہمارے 7 ساتھی پھنسے ہوئے ہیں، انھیں ریسکیو کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ نہ پولیس، سول ایوی ایشن اور نہ حکومت۔ آپ میڈیا سے رابطہ کریں''۔ میرا بنیادی تعلق ایک مزدور کارکن اور پی ٹی یو ڈی سی کے رکن کا ہے ۔ مگر ساتھ ساتھ ایکسپریس کا کالم نگار ہونے کے ناتے میرا یہ فریضہ بنتا ہے کہ میں اس کام میں مددگار بنوں۔

میں نے روزنامہ ایکسپریس کراچی کے ایڈیٹر طاہر نجمی کو فون کیا۔ انھوں نے ایکسپریس نیوز کے عامر فاروق صاحب سے رابطہ کرنے کو کہا پھر میں نے ورکرز یونین کے آفس سیکریٹری حارث مجید کا فون نمبر فاروق صاحب کو دیا۔ بعد ازاں ایکسپریس نیوز نے اپنا نمایندہ بھیجا اور اس خبر کی کوریج کی۔ اس کے بعد شاہ زیب خانزادہ نے ورکرز یونین کے مزدوروں کے لیے خبروں کی نشر مسلسل جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ جس پر سندھ حکومت اور دیگر اداروں کے کان پر ایک حد تک جوں رینگی اور وہ حاضری دینے ائیرپورٹ پہنچے۔

رات ساڑھے دس کے بعد کارروائی شروع ہوئی، جب بھی کوئی حکومتی یا متعلقہ اداروں کے نمایندے آتے عوام انھیں گھیر لیتے اور مسلسل سوال کرتے، وہ اپنے غصے کا برملا اظہار کررہے تھے۔ ایک مزدور نے کہا کہ 14 گھنٹے ہوگئے، ہمارے مزدور بھائی پھنسے ہوئے ہیں، ہم انھیں بچانے کے لیے دیوار توڑ کر نکالنا چاہتے تھے مگر ہمیں جانے نہیں دیا جا رہا۔ ایک مزدور نے کہا کہ صبح سے یہاں کوئی بھی حکومتی یا سیاسی کارندے نہیں آئے، جب ہم نے شام 5 بجے روڈ بلاک کیا اور دھرنا ڈالا تو کچھ ادارے متوجہ ہوئے، جس میں میڈیا بھی ہے۔ عوام میں بے چینی پھیلی تو کچھ نمایندے فوٹو سیشن کروا کر فوراً واپس چلے گئے۔

ایک صحافی نے گورنر سندھ سے سوال کیا کہ آپ کی جماعت کراچی میں بھاری مینڈیٹ رکھتی ہے، صبح سے کیا کر رہی تھی؟ جس پر انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس کی تحقیق کریں گے۔ گورنر اور ڈاکٹر صغیر نے کہا کہ ہمیں رات 8 بجے اطلاع ملی، جب کہ پھنسے ہوئے مزدوروں کا فون صبح سے ہی آرہا تھا اور آہ و بکا بھی۔ رات 8 بجے کے بعد کوئی فون نہیں آیا۔ ریاست 24 گھنٹے فضا میں معلق تھی۔ لواحقین کو کھانا کھلانا ہو، ریسکیو ٹیموں کی مدد کرنا ہو، میڈیا کو متوجہ کرانا ہو یا اپنا دکھڑا سنانا ہو، یہ سب کچھ عوام ہی کرتے رہے جب کہ یہ سارے کام حکومت اور اربوں روپے کا بجٹ ہڑپ کرنے والوں کی ذمے داری بنتی ہے۔


لواحقین میں ایک پھنسے ہوئے مزدور کے بھائی نے کہا کہ اگر کہیں اہل کار یا مقتدر اداروں کے لوگ کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو فوراً ان کی مدد کی جاتی ہے پھر کراچی جیسے شہر میں ائیرپورٹ جیسے حساس علاقے میں صرف ایک کارگو شیڈ میں پھنسے ہوئے 7 آدمیوں کو نکالنے میں 24 گھنٹے کیوں لگ جاتے ہیں؟ ورکرز یونین کے سیکریٹری نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صبح سے اب تک (رات 8 بجے) کوئی بھی یہاں نہیں آیا، میڈیا کے آنے کے بعد ہی سب لوگ فوٹو سیشن کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔

یہ ہے سرمایہ داری کا طبقاتی نظام اور اس کی مکروہ شکل۔ آج دہشت گردی خود ایک صنعت کی شکل اختیار کرگئی ہے ۔ جہاں دس میں سے 7 آدمی کالے دھن میں سے روزگار حاصل کیے ہوں وہاں کس طرح ان دہشت گردوں کو روکا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے پاس جس قسم کی تربیت، اسلحہ اور کمک ہوتی ہے، وہ ہماری کسی بھی طور کسی سے کم نہیں ہے۔ ان کو حکمراں طبقات کے مختلف دھڑوں اور عالمی سامراج کے مختلف ملکوں کے لے پالکوں کی معاونت بھی حاصل ہے۔ اگر میڈیا نہ ہوتا تو شاید ان 7 مزدوروں کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا جاتا۔

لواحقین میں سے ایک نے کہا کہ اگر کسی حکومتی اہلکار کے بچے ہوتے تو ایک گھنٹے میں ریسکیو شروع ہوجاتا مگر ہم تو مزدور ہیں، ہمارا کون خیال کرتا ہے۔ ریاست تو صرف صاحب جائیداد طبقات کی حفاظت میں مصروف ہوتی ہے نا کہ مزدورں کے لیے۔ ان مزدوروں کی موت غفلت، نااہلیت اور لاپرواہی سے ہوئی ہے۔ دیوار توڑ کر نکالنے کی عوام کے ہجوم نے کئی بار کوششیں کیں لیکن انھیں اجازت نہ ملی۔

یہی صورت حال بلدیہ ٹائون میں مزدوروں کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ایک ٹرک ڈرائیور کی تجویز تھی کہ ٹرک مار کر دیوار کا کچھ حصہ توڑ کر پھنسے ہوئے مزدوروں کو نکالا جاسکتا تھا۔ مگر اسے اجازت نہیں دی گئی۔ ائیرپورٹ پر حملے کے بعد سے کارگو شیڈ میں پھنسے ہوئے مزدور مسلسل فون کرتے رہے لیکن کوئی ذمے دار ادارہ یا ریسکیو ٹیمیں متوجہ نہ ہوئیں۔ ایکسپریس نیوز کا عملہ جب رات 8 بجے آیا تو سارے حکام حرکت میں آگئے۔ اب حرکت میں آنے کا کیا فائدہ؟ ''جب چڑیا چک گئی کھیت''۔

مزدوروں کے ساتھ اس سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہی ہوتا رہے گا جب تک کہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ نہ پھینکا جائے۔ ڈاکٹر چی گویرا کا کہنا تھا کہ ''دنیا کی ساری دولت ایک جانب اور اس سے زیادہ قیمتی ایک انسان کی جان ہے''۔ مزدوروں کے سارے لواحقین، جب حکام سے یہ سوال کررہے تھے کہ صبح سے آپ لوگ کہاں تھے تو کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ ہلاکت اذیت ناک، درد ناک اور انسانیت سوز قتل ہے۔ پاکستان کے محنت کش اسے کبھی بھی بھلا نہیں سکتے۔ حکومت کی جانب سے مرنے والوں کے لواحقین کے لیے کسی معاوضے کا اعلان نہیں کیا گیا۔

سنا ہے کہ مزدوروں کی کمپنی نے فی خاندان کو 7/7 لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے مگر اس کا اعلان کھلے عام نہیں کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ فی خاندان کم از کم 20/20 لاکھ روپے ادا کرے۔ ان مسائل کا مکمل حل ریاست کے خاتمے اور بااختیار اداروں کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ ریاست کے سارے ادارے 14 گھنٹے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہے اور مدد کے بجائے رکاوٹ بنے رہے جب کہ عوام مدد کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ اس مسئلے کا مکمل حل بے ریاستی، امداد باہمی یا اشتمالی سماج کی تشکیل میں مضمر ہے، جہاں کوئی اختیارات اور اقتدار کی نذر ہو کر جان سے نہ جاتا رہے۔
Load Next Story