خیبرپختونخوا میں سال بھر کے جرائم

جرائم کے حوالے سے پشاور ٹاپ پر رہا جب کہ مردان پولیس کی کاکردگی دیگر اضلاع کے مقابلے میں اچھی رہی


عمیر محمد زئی June 16, 2014
جرائم کے حوالے سے پشاور ٹاپ پر رہا جب کہ مردان پولیس کی کاکردگی دیگر اضلاع کے مقابلے میں اچھی رہی۔ فوٹو: فائل

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت کے 13ماہ میں خیبر پختون خوا میں مختلف واقعات میں 3700 کے لگ بھگ افراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا ہے جب کہ اتنی ہی تعداد میں زخمی ہوگئے ہیں۔

اس عرصہ کے دوران پولیس اور دیگر سرکاری اہل کاروں پر 340کے قریب حملے بھی کئے گئے ہیں، جن میں درجنوں شہید ہوئے۔ جرائم کے حوالے سے پشاور ٹاپ پر رہا جب کہ مردان پولیس کی کاکردگی دیگر اضلاع کے مقابلے میں اچھی رہی۔ گزشتہ کئی ماہ سے حکومت اور عسکریت پسندوں کے مابین سیز فائزکے بعد پولیس کی توجہ جرائم کو کنٹرول کرنے پر ہونی چاہیے تھی تاہم سیز فائز کے باجود جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے جو پولیس کے لئے سوالیہ نشان ہے۔

محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یکم مئی 2013 سے لے کر یکم جون 2014 تک جرائم کی شرح 2012 کے مقابلے میں 20 فے صد زیادہ رہی۔گزشتہ ایک سال کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں 160افراد جن میں اکثریت امن لشکر یا حکومت کے حامی تھے، جن کو قتل اور 100سے زیادہ کو زخمی کیا گیا۔ 130خواتین کے ساتھ (مبینہ) زیادتی کی گئی جب کہ 220 سے زیادہ بدفعلی کے واقعات ہوئے، جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں سے 1ہزار سے زیادہ افراد کو اغوا کیا گیا، جن میں 270 کے قریب اغوا برائے تاوان کی وارداتیں تھیں اور سینکڑوں افراد کو اغوا کاروں نے تاوان لے کر رہا کیا۔ 8 بینکوں کو ایک سال میں لوٹ لیا گیا، 950 کے قریب ڈکیتی اور رہ زنی کے واقعات رونما ہوئے، جن میں لوگوں سے کرڑوں روپے نقد اور اتنی ہی مقدار میں قیمتی اشیا لوٹی گئیں تاہم اس ضمن میں گرفتار جرائم پیشہ افراد کی تعداد انتہائی کم ہے۔

130 فراد کو رہ زنی کے دوران گاڑیوں سے جب کہ 160 افراد کو موٹرسائیکلوں سے محروم ہونا پڑا، 1100چوری کے واقعات ہوئے، جن میں چور 330 موٹرکاریں، 90 دوسری گاڑیاں جب کہ 370 کے قریب موٹر سائیکلیں لے اڑے۔ ساڑھے تین ہزار افراد دشمنی، رہ زنی ، ڈکیتیوں، دھماکوں اور دیگر واقعات میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ اسی طرح 3700 افراد کو فائرنگ کے نتیجے میں زخمی کیا گیا۔ ٹریفک کے 16 ہزار سے زیادہ حادثات رونما ہوئے جن میں 940 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 2200 افراد زخمی ہوئے۔ اس عرصہ کے دوران پولیس نے بڑے پیمانے پر منشیات اور اسلحہ برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے تاہم اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

اسی طرح ایک سال کے دوران 17خودکش حملوں اوربم دھماکوں میں 670 سے زیادہ افراد شہید ہوگئے ہیں جن میں 200 کے لگ بھگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار بھی شامل ہیں۔ دہشت گردی اور جرائم کے حوالے سے پشاور پہلے نمبر پررہا، جہاں 8 خودکش اور 146 بم دھماکے ہوئے۔ پشاور پولیس نے دھماکے کرنے والے تقریبا 60 سے زیادہ افرادکو گرفتار کیا۔ محکمہ داخلہ خیبر پختون خوا کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق یکم مئی 2013 سے لے کر یکم جون 2014 تک صوبے میں مجموعی طور پر 17خودکش حملے ہوئے جن میں پشاور میں 8، مردان میں ایک، ہنگو میں 3، ڈیرہ اسماعیل خان میں 2 اور بنوں میں بھی دو حملے ہوئے۔

ایک سال کے دوران صوبے میں500 آئی ڈی دھماکے (جن میں ریمورٹ اور نصب بم دونوں شامل ہیں) ہوئے، جن میں پشاور میں 200، چارسدہ 22، صوابی 22، ہنگو38، مردان 18، ڈیرہ اسماعیل خان 20، ٹانک 16جب کہ بنوں میں 60 دھماکے ہوئے۔ مختلف اضلاع میں 200 کے قریب مارٹر گولے فائر کئے گئے، 116ہینڈ گریینڈ حملے ہوئے تاہم سرحد کے اس پار سے کسی قسم کی دراندازی نہیں ہوئی، مجمعوعی طور پر ان حملوں میں 670 سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں جب کہ 1200 افراد ان حملوں میں زخمی ہوئے ہیں، جن میں 440 سیکیوریٹی اہل کار بھی شامل ہیں۔ پشاور میں سب سے زیادہ 21 افراد کو ٹارگٹ کرکے قتل کردیا، باقی پورے صوبے میں یہ تعداد 26 ہے، جن میں پولیس، سرکاری افسر، امن لشکر کے حامی اور اہل تشیع بھی شامل ہیں۔

سیکیوریٹی اداروں کے مطابق صوبے میں روزانہ 15سے 20 ہزار افغانی داخل ہورہے ہیں جب کہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد اس کے علاوہ ہیں تاہم ان افراد کی نہ تو شہر میں داخل ہوتے وقت چیکنگ کی جاتی ہے اور نہ بعد میں ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جاتی ہے جس سے صوبے اور بالخصوص پشاور میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایس ایس پی آپریشن پشاور نجیب الرحمٰن نے ایکسپریس کو بتایاکہ جرائم پیشہ اور عسکریت پسندوں کے لیے یہ سب سے آسان طریقہ ہے کہ چہرے دیکھے بغیر لوگوں سے بھتا وصول کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایاکہ بھتا خوری اور بم دھماکوں میں مبینہ طور پر ملوث 60 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا اور تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ یہ لوگ چند ہزار روپے کے عوض گھروں کے باہر بم نصب کرتے ہیں یا ہینڈ گرینیڈ پھینکتے ہیں مگر چوںکہ ان کی لیڈر شپ قبائلی علاقوں میں موجود ہے اس لیے یہ کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ ایک شخص ضلعی انتطامیہ سے بارود کا پرمٹ لیتا ہے تاہم بعد میں اس کی تصدیق نہیں کی جاتی ہے کہ کس بندے نے کہاں سے اور کتنا بارود خریدا اور کہاں پر استعمال کیا ہے جوکہ انتہائی افسوس ناک امر ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق کئی قبائلی علاقوں میں افغان سموں پر پی سی اوز چلائی جار ہی ہیںاور ان نمبروں سے لوگوں کو بھتا اور دیگر کاموں کے لیے ٹیلی فونزکئے جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان سارے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک مکمل میکنزم بنانے کی ضرور ت ہے تاکہ شہر میں داخل ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا اکٹھا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |