بہارہ کہو وفاقی دارالحکومت کے پہلومیں ایک نیا کراچی
ازبک، عراقی، کویتی، صومالی، افغان بچے مقامی بولی روانی سے بولتے ہیں
سابق حکومت کی طرح موجودہ بھی تمام تر وسائل کے استعمال کے باوجود سیکیوریٹی پر قابو پانے میں مشکلات سے دوچار ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بہارہ کہو، اس لحاظ سے لاوارث ہے کہ کوئی نوٹس نہیں لے رہا کہ کون یہاں پلاٹ خرید رہاہے، کون پلازہ بنا رہاہے اور کون مکان کرایہ پر لے رہا ہے۔ اسلام آباد کی حدود میں لاقانونیت پروان چڑھتی رہی اور جن کے ذمے چوکس رہنا تھا، وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رہے، اس طرح بلی کے لیے شکار مزید سہل ہو گیا اور پتا چلا کہ بہارہ کہو بارود کا ڈھیر بن چکا ہے، شریف آدمی کا مال اور اس کی زندگی ایسوں کے رحم و کرم پر رہ گئی جنہیں انسانیت سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ گزشتہ ایک سال میں یہاں سے جو جو لوگ قانون کی گرفت میںآئے ان میں اور تو اور قانون کا رکھوالا ایک اعلٰے افسر ملوث پایا گیا۔
یہاں آنے جانے والے کے کوائف رکھنے کی کوئی روایت پنپ ہی نہیں سکی، جس کا جی چاہتا ہے، منہ اٹھا کر اس قریۂ ناپرسان میں گھسا چلا آتاہے، آج یہ علاقہ وفاقی دارالحکومت میں ہوتے ہوئے علاقہ غیر کا منظر نام پیش کرتا ہے۔ یہاں آپ کو ازبک مل جائیں گے، عراقی، ایرانی، کویتی، صومالی، افغانی، بنگالی، غرض کوئی بھانت ہی رہ گئی ہوگی۔ یہ لوگ اس قدر آزادی کے ساتھ رہتے ہیں کہ لگتا ہے ہمارے پرکھوں نے ان ہی کے لیے یہ وطن حاصل کیا تھا کیوںکہ کچھ ہی عرصے میں ان کی ایک نسل یہاں جوان ہوجائے گی اور انہیں فرشتے بھی نہ پہچان پائیں گے کہ یہ غیر ملکی ہیں کیوںکہ ان کے بچے بڑی روانی کے ساتھ اردو اور یہاں کے پنجابی لہجے میں بولتے ہیں۔ اس وقت اس علاقے کی حالت یہ ہے کہ کوئی دن جاتا ہے جب یہاں ڈکیتی اور رہ زنی کی واردات نہ ہوتی ہو۔
تھانہ بہارہ کہو کی بغل میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، نوسرباز الگ ہاتھ کی صفائی دکا رہے ہیں۔ بہارہ کہو کا تھانہ جب منہ کھولتا ہے، ناکافی نفری کا رونا روتا ہے۔ تھانے کے ذمہ داران کے مطابق اس وقت مطلوبہ نفری کا 50 فی صد بھی دست یاب نہیں، اس پر حکم رانوں کے چونچلے کہ اس قلیل نفری میں سے بھی سپیشل اور وی آئی پی ڈیوٹیاں لگا دی جاتی ہیں، باقی جو بچتے ہیں، ان کی بھی بلا سے، گشت والے بھی ادھر ادھر موج مارتے ہیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پولیس اور مجرموں کے درمیان خاصے برادرانہ مراسم ہیں۔ اس شبہے کو اس سے شہ ملتی ہے کہ پولیس کی پشت پناہی کے بغیر علاقہ کے اندر واردات ممکن نہیں ہوتی۔
کسی بھی بڑے واقعہ کے بعد آئی جی اسلام آباد سے لے کر ایس ایچ او تک بہت بڑی اصلاحات کا نویدیں سناتے ہیں۔ چند ماہ پہلے یہاں کے پراپرٹی ڈیلروں کو سِمیں مہیا کی گئیں کہ کرایہ داروں کے کوائف اپ ڈیٹ کروائیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ کرایہ دار یا تو براہ راست مالک مکان سے سودا کرلیتے ہیں یا پھر ان ڈیلروں سے مکان حاصل کرلیتے ہیں جن کے دفاتر ہی نہیں ہوتے، سو ٹھن ٹھن گوپال۔
تھانہ بہارہ کہو میں تعینات ہونے والا ہر ایس ایچ او بڑے دعوے کے ساتھ خم ٹھونک کر آتا ہے مگر جرائم پیشوں کے پاس اللہ جانے کیا 'گیدڑ سنگھی' ہے کہ عام آدمی کو تو جرم سامنے ہوتا دکھائی دیتا ہے اور نفاذ قانون کے ادارے کو دکھائی نہیں دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی اسلام آباد میں کوئی واردات ہوتی ہے تو اس کے تانے بانے بہارہ کہو سے ضرور جا ملتے ہیں۔ بہارہ کہو متوسط تنخواہ دار اور غریب لوگوں کا علاقہ ہے، یہاں کی مساجد، امام بارگاہیں اور چرچ ہمہ وقت خطرے کے زد پر ہیں۔ کچھ پتا نہیںکہ اگلے لمحے کیا ہو جائے۔
تھانہ بہارہ کہو کی حدود میں قائم ناکوں نے آج تک کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بس شریفوں کے منہ سونگھتے، فیملیوں کے نکاح نامے چیک کرتے اور نذرانہ وصول کرتے ہیں۔ بہارہ کہو کی حدود میں سپیشل برانچ کا سب ہیڈکوارٹر بھی ہے، اس لحاظ سے یہاں سکیورٹی کے مسائل کم ہونے چاہییں،چوںکہ ہماری اسپیشل برانچ بڑی منظم اور طاقت ور ایجنسی ہے اور یہ لوگ مجرموںتک بڑی آسانی سے پہنچ جاتے ہیں،ماضی میں بھی ان کا کرداربہترین رہا ہے مگر اس کے باوجود سیکیوریٹی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ سینٹروں میںہزاروں لوگ آتے ہیں مگر بہت کم ہیں، جن میں خفیہ کیمرے نصب ہوں یا اپنے گارڈ موجود ہوں۔ بہارہ کہو کے عین درمیان آرمی کاکیمپ بھی ہے جہاں جوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے مگر ان کی اپنی سیکیوریٹی اوراپنا نظام ہے۔
بہارہ کہو کی سیکیوریٹی کے حوالے سے بے شمار مواقع پر بے شمار تجاویز دی گئیں جن میں محلہ کی سطح پرتھانے سے منسلک چوکیدارہ نظام کی تجویز بھی تھی مگرکسی ایس ایچ او نے اس جانب کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ وزیر داخلہ نے خود ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پورے ملک میں سیکیوریٹی کے مسائل ہیں اور اسلام آباد کے مضافات بہارہ کہو میں بھی سیکیوریٹی کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور یوں اس کو بارود کا ڈھیر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہاں رہنے، رہائش، زمین خریدنے، کاروبار اور لین دین کے لیے کسی شناخت کی کوئی ضرورت نہیں۔
ماضی میں جہاں بہت بڑے واقعات ہو چکے ہیں جن میں ایک دفعہ ویگن کرایہ کے لیے چند طالب علموں نے احتجاج کیا اور اس کے بعد تین دن بہارہ کہو کے بازار اور سڑکیں بند کرائیں، شاہ راہ کشمیر مری روڈ بند رکھا گیا، انتظامیہ مذاکرات کرنا چاہتی تھی مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ احتجاج کس نے کیا اور کیوں کیا بالآخر پتا چلا کہ نامعلوم شر پسندوں نے تین دن علاقے کو یرغمال بنائے رکھا اور آخرکار تاجر برادری نے خود آپریشن کرکے سڑکویں، بازار کھلوائے، آج تک یہ معاملہ سوالیہ نشان ہے کہ وہ لوگ کون تھے، کہاںسے آئے، کہاںگئے، سیکیوریٹی اداروں نے بھی آج تک کچھ نہیں بتایا۔ اگر جلد ہی اس مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو خدشہ ہے کہ آئندہ یہ علاقہ حکومت کے ایک نیا کراچی بن جائے گا۔
گزشتہ دو دہائیوں میں اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بہارہ کہو، اس لحاظ سے لاوارث ہے کہ کوئی نوٹس نہیں لے رہا کہ کون یہاں پلاٹ خرید رہاہے، کون پلازہ بنا رہاہے اور کون مکان کرایہ پر لے رہا ہے۔ اسلام آباد کی حدود میں لاقانونیت پروان چڑھتی رہی اور جن کے ذمے چوکس رہنا تھا، وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رہے، اس طرح بلی کے لیے شکار مزید سہل ہو گیا اور پتا چلا کہ بہارہ کہو بارود کا ڈھیر بن چکا ہے، شریف آدمی کا مال اور اس کی زندگی ایسوں کے رحم و کرم پر رہ گئی جنہیں انسانیت سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ گزشتہ ایک سال میں یہاں سے جو جو لوگ قانون کی گرفت میںآئے ان میں اور تو اور قانون کا رکھوالا ایک اعلٰے افسر ملوث پایا گیا۔
یہاں آنے جانے والے کے کوائف رکھنے کی کوئی روایت پنپ ہی نہیں سکی، جس کا جی چاہتا ہے، منہ اٹھا کر اس قریۂ ناپرسان میں گھسا چلا آتاہے، آج یہ علاقہ وفاقی دارالحکومت میں ہوتے ہوئے علاقہ غیر کا منظر نام پیش کرتا ہے۔ یہاں آپ کو ازبک مل جائیں گے، عراقی، ایرانی، کویتی، صومالی، افغانی، بنگالی، غرض کوئی بھانت ہی رہ گئی ہوگی۔ یہ لوگ اس قدر آزادی کے ساتھ رہتے ہیں کہ لگتا ہے ہمارے پرکھوں نے ان ہی کے لیے یہ وطن حاصل کیا تھا کیوںکہ کچھ ہی عرصے میں ان کی ایک نسل یہاں جوان ہوجائے گی اور انہیں فرشتے بھی نہ پہچان پائیں گے کہ یہ غیر ملکی ہیں کیوںکہ ان کے بچے بڑی روانی کے ساتھ اردو اور یہاں کے پنجابی لہجے میں بولتے ہیں۔ اس وقت اس علاقے کی حالت یہ ہے کہ کوئی دن جاتا ہے جب یہاں ڈکیتی اور رہ زنی کی واردات نہ ہوتی ہو۔
تھانہ بہارہ کہو کی بغل میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، نوسرباز الگ ہاتھ کی صفائی دکا رہے ہیں۔ بہارہ کہو کا تھانہ جب منہ کھولتا ہے، ناکافی نفری کا رونا روتا ہے۔ تھانے کے ذمہ داران کے مطابق اس وقت مطلوبہ نفری کا 50 فی صد بھی دست یاب نہیں، اس پر حکم رانوں کے چونچلے کہ اس قلیل نفری میں سے بھی سپیشل اور وی آئی پی ڈیوٹیاں لگا دی جاتی ہیں، باقی جو بچتے ہیں، ان کی بھی بلا سے، گشت والے بھی ادھر ادھر موج مارتے ہیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پولیس اور مجرموں کے درمیان خاصے برادرانہ مراسم ہیں۔ اس شبہے کو اس سے شہ ملتی ہے کہ پولیس کی پشت پناہی کے بغیر علاقہ کے اندر واردات ممکن نہیں ہوتی۔
کسی بھی بڑے واقعہ کے بعد آئی جی اسلام آباد سے لے کر ایس ایچ او تک بہت بڑی اصلاحات کا نویدیں سناتے ہیں۔ چند ماہ پہلے یہاں کے پراپرٹی ڈیلروں کو سِمیں مہیا کی گئیں کہ کرایہ داروں کے کوائف اپ ڈیٹ کروائیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ کرایہ دار یا تو براہ راست مالک مکان سے سودا کرلیتے ہیں یا پھر ان ڈیلروں سے مکان حاصل کرلیتے ہیں جن کے دفاتر ہی نہیں ہوتے، سو ٹھن ٹھن گوپال۔
تھانہ بہارہ کہو میں تعینات ہونے والا ہر ایس ایچ او بڑے دعوے کے ساتھ خم ٹھونک کر آتا ہے مگر جرائم پیشوں کے پاس اللہ جانے کیا 'گیدڑ سنگھی' ہے کہ عام آدمی کو تو جرم سامنے ہوتا دکھائی دیتا ہے اور نفاذ قانون کے ادارے کو دکھائی نہیں دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی اسلام آباد میں کوئی واردات ہوتی ہے تو اس کے تانے بانے بہارہ کہو سے ضرور جا ملتے ہیں۔ بہارہ کہو متوسط تنخواہ دار اور غریب لوگوں کا علاقہ ہے، یہاں کی مساجد، امام بارگاہیں اور چرچ ہمہ وقت خطرے کے زد پر ہیں۔ کچھ پتا نہیںکہ اگلے لمحے کیا ہو جائے۔
تھانہ بہارہ کہو کی حدود میں قائم ناکوں نے آج تک کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بس شریفوں کے منہ سونگھتے، فیملیوں کے نکاح نامے چیک کرتے اور نذرانہ وصول کرتے ہیں۔ بہارہ کہو کی حدود میں سپیشل برانچ کا سب ہیڈکوارٹر بھی ہے، اس لحاظ سے یہاں سکیورٹی کے مسائل کم ہونے چاہییں،چوںکہ ہماری اسپیشل برانچ بڑی منظم اور طاقت ور ایجنسی ہے اور یہ لوگ مجرموںتک بڑی آسانی سے پہنچ جاتے ہیں،ماضی میں بھی ان کا کرداربہترین رہا ہے مگر اس کے باوجود سیکیوریٹی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ سینٹروں میںہزاروں لوگ آتے ہیں مگر بہت کم ہیں، جن میں خفیہ کیمرے نصب ہوں یا اپنے گارڈ موجود ہوں۔ بہارہ کہو کے عین درمیان آرمی کاکیمپ بھی ہے جہاں جوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے مگر ان کی اپنی سیکیوریٹی اوراپنا نظام ہے۔
بہارہ کہو کی سیکیوریٹی کے حوالے سے بے شمار مواقع پر بے شمار تجاویز دی گئیں جن میں محلہ کی سطح پرتھانے سے منسلک چوکیدارہ نظام کی تجویز بھی تھی مگرکسی ایس ایچ او نے اس جانب کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ وزیر داخلہ نے خود ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پورے ملک میں سیکیوریٹی کے مسائل ہیں اور اسلام آباد کے مضافات بہارہ کہو میں بھی سیکیوریٹی کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور یوں اس کو بارود کا ڈھیر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہاں رہنے، رہائش، زمین خریدنے، کاروبار اور لین دین کے لیے کسی شناخت کی کوئی ضرورت نہیں۔
ماضی میں جہاں بہت بڑے واقعات ہو چکے ہیں جن میں ایک دفعہ ویگن کرایہ کے لیے چند طالب علموں نے احتجاج کیا اور اس کے بعد تین دن بہارہ کہو کے بازار اور سڑکیں بند کرائیں، شاہ راہ کشمیر مری روڈ بند رکھا گیا، انتظامیہ مذاکرات کرنا چاہتی تھی مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ احتجاج کس نے کیا اور کیوں کیا بالآخر پتا چلا کہ نامعلوم شر پسندوں نے تین دن علاقے کو یرغمال بنائے رکھا اور آخرکار تاجر برادری نے خود آپریشن کرکے سڑکویں، بازار کھلوائے، آج تک یہ معاملہ سوالیہ نشان ہے کہ وہ لوگ کون تھے، کہاںسے آئے، کہاںگئے، سیکیوریٹی اداروں نے بھی آج تک کچھ نہیں بتایا۔ اگر جلد ہی اس مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو خدشہ ہے کہ آئندہ یہ علاقہ حکومت کے ایک نیا کراچی بن جائے گا۔