بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی چیلنجز
ہمارے پاس نوجوانوں پر مشتمل بھر پور انسانی وسائل اور معدنیات کی دولت موجود ہے
سعودی وفد کے دورے کا بنیادی مقصد پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے منصوبوں کو حتمی شکل دینا ہے۔ پانچ ارب ڈالر پیکیج کے تحت سعودی عرب کو بھاشا ڈیم میں 1.2 ارب ڈالر کی ایکویٹی پارٹنر شپ کی پیش کش کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان آئل ریفائنری میں سعودی سرمایہ کاری کا بھی خواہاں ہے۔
دوسری جانب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد وفاقی حکومت نے اگلے پندرہ روز کے لیے پٹرول کی قیمت میں ساڑھے چار روپے فی لیٹر جب کہ ڈیزل کی قیمت میں آٹھ روپے اضافے کا اعلان کیا ہے، جب کہ نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے۔
بلاشبہ کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ سعودی وژن 2030 سے پاکستان کو معاشی ترقی کے بے پناہ مواقع مل سکتے ہیں، مجموعی طور پرپاکستان میں عرب ممالک کی سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، SIFC نے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو سرمایہ کاری کے لیے اربوں ڈالر کے منصوبوں کی پیش کش کی ہے۔
عرب ملکوں کو جن منصوبوں میں سرمایہ کاری کی پیش کش کی گئی ہے، ان میں دیا مر بھاشا ڈیم، ریکوڈک اور سعودی آئل ریفائنری سمیت متعدد منصوبے شامل ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔
بیرونی سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آزاد معیشت اور نمو سے معیار زندگی بہتر ہوگا، کاروباری ماحول خصوصا چھوٹے کاروبار کو بہتر ماحول چاہیے۔
دوسری جانب توانائی کے ذرایع کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مہنگائی کا گراف مسلسل بلند ہوتا جارہا ہے۔ متوسط طبقے کے معاشی مسائل کم ہونے میں نہیں آرہے۔غربت کی شرح بھی بڑھ رہی ہے ، تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان طبقہ بے روزگاری سے پریشان اور مایوس ہے، کاروباری سرگرمیوں میں کمی آرہی ہے، ٹیکس سسٹم پیچیدہ اور یکطرفہ ہے، جس میں چور دروازوں کی بھرمار ہے۔
اگر ماضی میں حکومتوں نے معیشت کو دستاویزی بنانے اور تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کام کیا ہوتا تو آج کئی مسائل حل ہوچکے ہوتے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور ایک چھوٹا حصہ ملکی معیشت کا سارا بوجھ اٹھا ر ہا ہے۔
برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے مجبوراً قرضے لے رہے ہیں اور یہ اعلانات کہ توانائی کی قیمتوں میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس کا عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جب کہ عوام حیران ہیں کہ وہ عام آدمی کون ہے جس پر مہنگائی کا اثر نہیں پڑے گا؟ جب عوام کو بار بار قربانی کا بکرا بنا یا جائے گا تو ملک کیسے ترقی کیسیکرے گا۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران صرف بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو لے لیں، حقیقت حال سب کے سامنے آجائے گی۔ عوام پریشان ہیں کہ وہ روٹی کھائیں یا یوٹیلٹی بلز ادا کریں۔
گردشی قرضوں میں ناقابلِ برداشت اضافے کی وجہ ملک کی معیشت کی چولیں ہل چکی ہیں اور مشکل سے نکلنے کے لیے حکومت مزید قرضے لے رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب 10کروڑ ڈالر کے قسط کی منظوری اور آیندہ کی حکمت ِ عملی کے تحت آئی ایم ایف سے مزید 6سے 8ارب ڈالر کے طویل المیعاد پروگرام حاصل کرنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ نہ جانے وہ سورج کب طلوع ہوگا جب ہم قرضوں کی مے کو چھوڑ کر اپنے وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کا عملاً پروگرام بنائیں گے۔
ہمارے پاس نوجوانوں پر مشتمل بھر پور انسانی وسائل اور معدنیات کی دولت موجود ہے۔ عوام کی یہ صائب رائے ہے کہ ملک میں سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود غیر ملکی قرضوں کے سہارے ملک معیشت کو چلانے کی کوئی تک نہیں ہے۔ بہرحال پاکستان کو کئی قسم کے خطرات کا بھی سامنا ہے جن میں جغرافیائی، سیاسی کشیدگی، اشیا کی قیمتوں میں اچانک اضافہ اور عالمی مالیاتی شرائط کا مزید سخت ہونا شامل ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے مطالبہ کر رہے ہیں پاکستان کی معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے، گردشی قرضے کم کیے جائیں، اشرافیہ کی مراعات اور حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری کی جائے، امیر پر ٹیکس اور غریبوں کو ریلیف دیا جائے، انرجی اور ٹیکس سیکٹر میں اصلاحات لائی جائیں، اسمگلنگ اور کرپشن پر قابو پایا جائے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس آمدنی کا حصہ جنوبی ایشیائی خطے میں اوسط سے کم ہے۔
قومی آمدنی میں ٹیکس آمدنی کا حصہ بڑھانے کے لیے ٹیکس چوری کو روکنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے معیشت کا دستاویزی ہونا ضروری ہے۔ ملک میں متعدد کاروبار ایسے ہیں جہاں لین دین کا کوئی مصدقہ ریکارڈ حکومتی اداروں کے پاس موجود نہیں،مختلف فلاحی ادارے ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں، ٹیکس چوری کے راستے بھی کھلے ہیں۔
ماضی میں ان شعبوں کی دستاویز سازی کے لیے حکومتوں نے بے دلی سے کام کیا اور ہلکی مزاحمت پر پسپائی اختیار کر لی گئی۔ حکومتیں بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں پر مزید ٹیکس لگا کر وصولیاں بڑھانے میں مصروف رہی ہیں، یوں معیشت کا ایک حصہ ٹیکس سے بدستور محفوظ ہے جب کہ دوسری جانب تنخواہ دار طبقے یا پروفیشنلز پر ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں بر سر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے اگر وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا، غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول کیا ہوتا، آمدن اور اخراجات میں توازن رکھا جاتا، ٹیکس کا نظام بہتر بناتے، سرکاری اداروں کی کارگردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی ریاست کے زیر انتظام پیداواری اداروں کی نجکاری کے بجائے انھیں منافع بخش ادارے بناتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے۔
یہ کسی ایک حکومت کا المیہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بر سر اقتدار رہنے والی کسی بھی حکومت نے ملک کو ایک مستحکم معاشی پالیسی دینے کی جانب توجہ مرکوز نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم قرضوں پر انحصار کرنے والی معیشت بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہو پا رہی۔ قرض کا بوجھ عوام کی کمر پر لاد دیا گیا ہے۔
عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں، حکمران طبقات ان پر سوار ہوکر حکومت کرتے ہیں اور غیرملکی مالیاتی اداروں اور ملکی اداروں سے قرض لے کر شاہانہ لائف اسٹائل انجوائے کر رہے ہیں۔ ارباب اختیار و اقتدار یہ سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ اہم یا مشکل فیصلے محض پٹرول، بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا، عوام کو مختلف مدات میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کرنا اور ٹیکسوں کی بھرمار کرکے غریبوں کی جیبوں سے پیسے نکالنا نہیں ہوتے۔ کسی بھی حکومت کے لیے تو یہ بہت آسان فیصلے ہوتے ہیں۔
مشکل فیصلہ ایک آزاد جامع اور مضبوط و مربوط معاشی پالیسی، قوانین کو شفاف اور غیر مبہم بنانا ہوتا ہے، ملک کی معیشت کی سانسیں آئی ایم ایف کی محدود امداد کے بل بوتے پر چل رہی ہیں جس میں عوامی سہولت کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا ، معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے ۔
پاکستان میں اسٹرکچرل اصلاحات متعارف کرانے ، حکومتوں کے سربراہوں کو حاصل مالی نوعیت کے صوبدیدی اختیارات ختم کرنے ، پارلیمنٹ، مقننہ اور انتظامیہ کے استحاقی قوانین کو متوازن بنانا لازم ہے ۔ یہ اصلاحات کرنے کے لیے ایک قومی پالیسی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے۔
پاکستان کے معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہو نے کے لیے جامع و مربوط حکمت علی کی ضرورت ہے، ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ریگولیٹری ماڈرنائزیشن، ٹیکس اصلاحات، مارکیٹ لیبریلائزیشن، توانائی کے شعبے کو موثر بنانا، زراعت میں بہتری اور بینکنگ سیکٹر میں بہتری کا ایجنڈا شامل ہونا چاہیے ۔
دوسری جانب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد وفاقی حکومت نے اگلے پندرہ روز کے لیے پٹرول کی قیمت میں ساڑھے چار روپے فی لیٹر جب کہ ڈیزل کی قیمت میں آٹھ روپے اضافے کا اعلان کیا ہے، جب کہ نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے۔
بلاشبہ کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ سعودی وژن 2030 سے پاکستان کو معاشی ترقی کے بے پناہ مواقع مل سکتے ہیں، مجموعی طور پرپاکستان میں عرب ممالک کی سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، SIFC نے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو سرمایہ کاری کے لیے اربوں ڈالر کے منصوبوں کی پیش کش کی ہے۔
عرب ملکوں کو جن منصوبوں میں سرمایہ کاری کی پیش کش کی گئی ہے، ان میں دیا مر بھاشا ڈیم، ریکوڈک اور سعودی آئل ریفائنری سمیت متعدد منصوبے شامل ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔
بیرونی سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آزاد معیشت اور نمو سے معیار زندگی بہتر ہوگا، کاروباری ماحول خصوصا چھوٹے کاروبار کو بہتر ماحول چاہیے۔
دوسری جانب توانائی کے ذرایع کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مہنگائی کا گراف مسلسل بلند ہوتا جارہا ہے۔ متوسط طبقے کے معاشی مسائل کم ہونے میں نہیں آرہے۔غربت کی شرح بھی بڑھ رہی ہے ، تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان طبقہ بے روزگاری سے پریشان اور مایوس ہے، کاروباری سرگرمیوں میں کمی آرہی ہے، ٹیکس سسٹم پیچیدہ اور یکطرفہ ہے، جس میں چور دروازوں کی بھرمار ہے۔
اگر ماضی میں حکومتوں نے معیشت کو دستاویزی بنانے اور تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کام کیا ہوتا تو آج کئی مسائل حل ہوچکے ہوتے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور ایک چھوٹا حصہ ملکی معیشت کا سارا بوجھ اٹھا ر ہا ہے۔
برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے مجبوراً قرضے لے رہے ہیں اور یہ اعلانات کہ توانائی کی قیمتوں میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس کا عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جب کہ عوام حیران ہیں کہ وہ عام آدمی کون ہے جس پر مہنگائی کا اثر نہیں پڑے گا؟ جب عوام کو بار بار قربانی کا بکرا بنا یا جائے گا تو ملک کیسے ترقی کیسیکرے گا۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران صرف بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو لے لیں، حقیقت حال سب کے سامنے آجائے گی۔ عوام پریشان ہیں کہ وہ روٹی کھائیں یا یوٹیلٹی بلز ادا کریں۔
گردشی قرضوں میں ناقابلِ برداشت اضافے کی وجہ ملک کی معیشت کی چولیں ہل چکی ہیں اور مشکل سے نکلنے کے لیے حکومت مزید قرضے لے رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب 10کروڑ ڈالر کے قسط کی منظوری اور آیندہ کی حکمت ِ عملی کے تحت آئی ایم ایف سے مزید 6سے 8ارب ڈالر کے طویل المیعاد پروگرام حاصل کرنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ نہ جانے وہ سورج کب طلوع ہوگا جب ہم قرضوں کی مے کو چھوڑ کر اپنے وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کا عملاً پروگرام بنائیں گے۔
ہمارے پاس نوجوانوں پر مشتمل بھر پور انسانی وسائل اور معدنیات کی دولت موجود ہے۔ عوام کی یہ صائب رائے ہے کہ ملک میں سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود غیر ملکی قرضوں کے سہارے ملک معیشت کو چلانے کی کوئی تک نہیں ہے۔ بہرحال پاکستان کو کئی قسم کے خطرات کا بھی سامنا ہے جن میں جغرافیائی، سیاسی کشیدگی، اشیا کی قیمتوں میں اچانک اضافہ اور عالمی مالیاتی شرائط کا مزید سخت ہونا شامل ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے مطالبہ کر رہے ہیں پاکستان کی معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے، گردشی قرضے کم کیے جائیں، اشرافیہ کی مراعات اور حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری کی جائے، امیر پر ٹیکس اور غریبوں کو ریلیف دیا جائے، انرجی اور ٹیکس سیکٹر میں اصلاحات لائی جائیں، اسمگلنگ اور کرپشن پر قابو پایا جائے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس آمدنی کا حصہ جنوبی ایشیائی خطے میں اوسط سے کم ہے۔
قومی آمدنی میں ٹیکس آمدنی کا حصہ بڑھانے کے لیے ٹیکس چوری کو روکنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے معیشت کا دستاویزی ہونا ضروری ہے۔ ملک میں متعدد کاروبار ایسے ہیں جہاں لین دین کا کوئی مصدقہ ریکارڈ حکومتی اداروں کے پاس موجود نہیں،مختلف فلاحی ادارے ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں، ٹیکس چوری کے راستے بھی کھلے ہیں۔
ماضی میں ان شعبوں کی دستاویز سازی کے لیے حکومتوں نے بے دلی سے کام کیا اور ہلکی مزاحمت پر پسپائی اختیار کر لی گئی۔ حکومتیں بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں پر مزید ٹیکس لگا کر وصولیاں بڑھانے میں مصروف رہی ہیں، یوں معیشت کا ایک حصہ ٹیکس سے بدستور محفوظ ہے جب کہ دوسری جانب تنخواہ دار طبقے یا پروفیشنلز پر ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں بر سر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے اگر وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا، غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول کیا ہوتا، آمدن اور اخراجات میں توازن رکھا جاتا، ٹیکس کا نظام بہتر بناتے، سرکاری اداروں کی کارگردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی ریاست کے زیر انتظام پیداواری اداروں کی نجکاری کے بجائے انھیں منافع بخش ادارے بناتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے۔
یہ کسی ایک حکومت کا المیہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بر سر اقتدار رہنے والی کسی بھی حکومت نے ملک کو ایک مستحکم معاشی پالیسی دینے کی جانب توجہ مرکوز نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم قرضوں پر انحصار کرنے والی معیشت بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہو پا رہی۔ قرض کا بوجھ عوام کی کمر پر لاد دیا گیا ہے۔
عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں، حکمران طبقات ان پر سوار ہوکر حکومت کرتے ہیں اور غیرملکی مالیاتی اداروں اور ملکی اداروں سے قرض لے کر شاہانہ لائف اسٹائل انجوائے کر رہے ہیں۔ ارباب اختیار و اقتدار یہ سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ اہم یا مشکل فیصلے محض پٹرول، بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا، عوام کو مختلف مدات میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کرنا اور ٹیکسوں کی بھرمار کرکے غریبوں کی جیبوں سے پیسے نکالنا نہیں ہوتے۔ کسی بھی حکومت کے لیے تو یہ بہت آسان فیصلے ہوتے ہیں۔
مشکل فیصلہ ایک آزاد جامع اور مضبوط و مربوط معاشی پالیسی، قوانین کو شفاف اور غیر مبہم بنانا ہوتا ہے، ملک کی معیشت کی سانسیں آئی ایم ایف کی محدود امداد کے بل بوتے پر چل رہی ہیں جس میں عوامی سہولت کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا ، معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے ۔
پاکستان میں اسٹرکچرل اصلاحات متعارف کرانے ، حکومتوں کے سربراہوں کو حاصل مالی نوعیت کے صوبدیدی اختیارات ختم کرنے ، پارلیمنٹ، مقننہ اور انتظامیہ کے استحاقی قوانین کو متوازن بنانا لازم ہے ۔ یہ اصلاحات کرنے کے لیے ایک قومی پالیسی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے۔
پاکستان کے معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہو نے کے لیے جامع و مربوط حکمت علی کی ضرورت ہے، ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ریگولیٹری ماڈرنائزیشن، ٹیکس اصلاحات، مارکیٹ لیبریلائزیشن، توانائی کے شعبے کو موثر بنانا، زراعت میں بہتری اور بینکنگ سیکٹر میں بہتری کا ایجنڈا شامل ہونا چاہیے ۔