کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
ان خیر خواہوں کے علاوہ سیما کے پاس ایسے فون بھی آئے جو نہایت غیر شائستہ تھے
مولانا حالی کا یہ شعر اپنے اندر بڑی معنویت اور سچائی رکھتا ہے۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
گزشتہ کالم بعنوان ''سیما کی مدد کیجیے'' کے شایع ہونے کے بعد حسب توقع اس بار بھی بہت اچھا رسپانس ملا۔ خدا کا شکر ہے کہ ایکسپریس کی بدولت سیما کے بچوں نے بھی عید پر نئے کپڑے پہنے، نئے جوتے خریدے، بچوں کے اسکول کے بیگ تین سال میں پھٹ گئے تھے، پہلی فرصت میں انھوں نے اسکول بیگ خریدے اور بقیہ رقم بہت احتیاط سے ایک بینک میں رکھوا دی۔
میں ذاتی طور پر ان تمام خواتین و حضرات کی شکر گزار ہوں جنھوں نے میرا کالم پڑھ کر سیما کو رقم بھیجی۔ کچھ نے رقم غزالہ سعید کے بینک اکاؤنٹ میں بھیج دی، کچھ نے سیما کو '' ایزی پیسہ'' کے ذریعے رقم بھیجی اور اکثریت نے مجھے میرے ای میل پر اطلاع بھی دی۔ اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوا پیسہ آپ کے لیے بند دروازے کھولتا ہے۔
قابل فخر ہیں وہ لوگ جنھوں نے خاموشی سے اپنا فرض نبھایا، آسٹریلیا سے جن صاحب نے پیسے بھیجے میں ان کی صحت کے لیے دعا گو ہوں، خدا انھیں رو بہ صحت کرے۔ سیما بھی ہر نماز میں ان تمام لوگوں کے لیے دعا گو ہوتی ہے جنھوں نے اس کو مصائب اور غربت کی دلدل سے نکالا۔
لیکن بعض ای میل میرے پاس ایسی آئیں جن پر مجھے اور سیما کو بہت حیرت بھی ہے اور تعجب بھی۔ دیکھیے قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ ایک خاتون جو سلائی کرتی ہیں انھوں نے ایک ہزار روپے بھیجے، ایک نے پندرہ سو بھیجے۔ ان کا جذبہ لائق احترام ہے لیکن ایک پوسٹ کا ذکر میں ضرور کروں گی، پہلے تو میرے ای میل پر بڑی لمبی چوڑی تحریر آئی جو کچھ یوں تھی:
''آپ کو یقین ہے کہ سیما واقعی ضرورت مند ہے؟ یہاں تو ہرگلی، محلے اور سڑکوں پر ہزاروں ضرورت مند بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں آدمی محنت کرنے سے گھبراتا ہے، میں ایک بزنس مین ہوں اور میری کمپنی ہے، میں لوگوں کو ملازم بھی رکھتا ہوں، انھیں پنشن بھی دلواتا ہوں، عید کے دنوں میں ڈیلی ویجز پر بھی لوگوں کو ملازم رکھتا ہوں۔''
ان صاحب نے اور بھی بہت کچھ لکھا تھا جوکہ بہت سخت سست تھا، جب میں نے انھیں ای میل کا جواب دیا اور لکھا کہ '' یہ تو بہت اچھی بات ہے، میں سیما کے شوہر کو آپ کے پاس بھیجتی ہوں، نہایت ایمان دار اور محنتی انسان ہیں، بتائیے آپ انھیں کیا تنخواہ دیں گے؟'' بس اس کے بعد ان کی طرف سے خاموشی ہے۔
کسی نے ای میل کرکے پوچھا کہ '' کیا میں سیما کو ذاتی طور پر جانتی ہوں؟'' میرا جواب اثبات میں تھا، سیما سے پہلے لوگوں کی مدد کے لیے جو کالم میں نے لکھے تھے انھیں میں قطعی نہیں جانتی تھی، لیکن کہیں سے پتا چلا تو خود تحقیق کی اور جب مطمئن ہوگئی تب قلم اٹھایا۔
ان خیر خواہوں کے علاوہ سیما کے پاس ایسے فون بھی آئے جو نہایت غیر شائستہ تھے۔ سیما نے ان صاحب کو اچھی طرح لتاڑا۔ مدد کرنے والوں میں مظفر آباد، ملتان، فیصل آباد اور کراچی کے لوگ شامل تھے۔ خود میرے پاس دو ای میل ایسی بھی آئیں جن میں مجھ سے ملاقات کے لیے وقت مانگا گیا اور گھر کا پتا بھی، ایک صاحب انجینئر تھے لاڑکانہ میں رہتے تھے، عید کی چھٹیوں میں کراچی آنے کا پروگرام تھا، وہ پہلے مجھ سے ملنے کے خواہش مند تھے بعد میں سیما کی مدد کے بارے میں سوچیں گے۔ ظاہر ہے ایسی ای میل کا کیا جواب دیا جا سکتا تھا۔ سیما کے پاس ایک فون کوئٹہ سے آیا، جوں ہی انھوں نے اوٹ پٹانگ اور غیر مہذب باتیں شروع کیں تو سیما نے فون اپنے شوہر کو تھما دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا ہوگا آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
اسلام نے گدا گری کی مذمت کی ہے لیکن رمضان ہی سے گداگروں کے قافلے سرائیکی پٹی، خیبرپختونخوا اور اندرون سندھ سے پورے پورے خاندانوں سمیت کراچی میں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں۔ آج کل کراچی میں چلنا محال ہے، ہر دو قدم پر ایک بھکاری مرد یا عورت کندھے پر بچہ ڈالے بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔
سنا ہے کہ بچہ پانچ سو روپے روز پر کرائے پر بھی لیا جاتا ہے، اب یہ بھکارنیں مساجد کے آس پاس ڈیرہ جماتی ہیں۔ کچھ گداگر اپنی پنڈلی پر کوئی دوا لگا کر بیٹھ جاتے ہیں جس سے ان کی ٹانگ ہاتھی کی ٹانگ بن جاتی ہے۔ اس بیماری کو ''فیل پا'' کہتے ہیں لیکن یہ بھکاری جو دوا لگا کر ٹانگ کو موٹا کر لیتے ہیں چند گھنٹوں کے بعد یہ سوجن ختم ہو جاتی ہے۔
اس دفعہ تین ای میل ایسی بھی آئیں جن میں بھیجنے والے نے مدد کی درخواست کی تھی، ایک میل ملتان کی تھی، ایک نواب شاہ کی اور تیسری کراچی سے۔ انھیں پڑھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ سب فراڈ ہے، جنھیں میں جانتی نہیں، ان کے لیے کیا کر سکتی ہوں۔ تحقیق کیے بغیر کسی کی بات کا یقین کیسے کیا جاسکتا ہے۔
لوگوں کی میل پڑھ کر مجھے افسوس بھی ہوا، نئی حکومت کے آتے ہی مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے۔ گیس آتی نہیں لیکن بل کئی کئی سو کا آ رہا ہے۔ حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر ہیں، کسی کو گاڑی کے لیے کروڑوں چاہئیں کہ ''مختار کل'' بن کر عوام کا خون نچوڑ لے۔ اگلے سال مزید مہنگائی کی نوید ہے۔ چوریاں، ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں، بے روزگاری عروج پر ہے۔
ہم خود بھی اپنی تباہی کے ذمے دار ہیں، کم تولنا اور جھوٹ بولنا ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے۔ ناپ تول میں بے ایمانی کی سخت تنبیہ کی گئی ہے۔ آپ ایک لیٹر دودھ منگوائیں، ناپیں تو کم ہی نکلے گا۔ اسی طرح تمام چیزوں کا حال ہے۔ یہ ہے ہمارا قومی مزاج۔ خدا ناراض نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
گزشتہ کالم بعنوان ''سیما کی مدد کیجیے'' کے شایع ہونے کے بعد حسب توقع اس بار بھی بہت اچھا رسپانس ملا۔ خدا کا شکر ہے کہ ایکسپریس کی بدولت سیما کے بچوں نے بھی عید پر نئے کپڑے پہنے، نئے جوتے خریدے، بچوں کے اسکول کے بیگ تین سال میں پھٹ گئے تھے، پہلی فرصت میں انھوں نے اسکول بیگ خریدے اور بقیہ رقم بہت احتیاط سے ایک بینک میں رکھوا دی۔
میں ذاتی طور پر ان تمام خواتین و حضرات کی شکر گزار ہوں جنھوں نے میرا کالم پڑھ کر سیما کو رقم بھیجی۔ کچھ نے رقم غزالہ سعید کے بینک اکاؤنٹ میں بھیج دی، کچھ نے سیما کو '' ایزی پیسہ'' کے ذریعے رقم بھیجی اور اکثریت نے مجھے میرے ای میل پر اطلاع بھی دی۔ اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوا پیسہ آپ کے لیے بند دروازے کھولتا ہے۔
قابل فخر ہیں وہ لوگ جنھوں نے خاموشی سے اپنا فرض نبھایا، آسٹریلیا سے جن صاحب نے پیسے بھیجے میں ان کی صحت کے لیے دعا گو ہوں، خدا انھیں رو بہ صحت کرے۔ سیما بھی ہر نماز میں ان تمام لوگوں کے لیے دعا گو ہوتی ہے جنھوں نے اس کو مصائب اور غربت کی دلدل سے نکالا۔
لیکن بعض ای میل میرے پاس ایسی آئیں جن پر مجھے اور سیما کو بہت حیرت بھی ہے اور تعجب بھی۔ دیکھیے قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ ایک خاتون جو سلائی کرتی ہیں انھوں نے ایک ہزار روپے بھیجے، ایک نے پندرہ سو بھیجے۔ ان کا جذبہ لائق احترام ہے لیکن ایک پوسٹ کا ذکر میں ضرور کروں گی، پہلے تو میرے ای میل پر بڑی لمبی چوڑی تحریر آئی جو کچھ یوں تھی:
''آپ کو یقین ہے کہ سیما واقعی ضرورت مند ہے؟ یہاں تو ہرگلی، محلے اور سڑکوں پر ہزاروں ضرورت مند بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں آدمی محنت کرنے سے گھبراتا ہے، میں ایک بزنس مین ہوں اور میری کمپنی ہے، میں لوگوں کو ملازم بھی رکھتا ہوں، انھیں پنشن بھی دلواتا ہوں، عید کے دنوں میں ڈیلی ویجز پر بھی لوگوں کو ملازم رکھتا ہوں۔''
ان صاحب نے اور بھی بہت کچھ لکھا تھا جوکہ بہت سخت سست تھا، جب میں نے انھیں ای میل کا جواب دیا اور لکھا کہ '' یہ تو بہت اچھی بات ہے، میں سیما کے شوہر کو آپ کے پاس بھیجتی ہوں، نہایت ایمان دار اور محنتی انسان ہیں، بتائیے آپ انھیں کیا تنخواہ دیں گے؟'' بس اس کے بعد ان کی طرف سے خاموشی ہے۔
کسی نے ای میل کرکے پوچھا کہ '' کیا میں سیما کو ذاتی طور پر جانتی ہوں؟'' میرا جواب اثبات میں تھا، سیما سے پہلے لوگوں کی مدد کے لیے جو کالم میں نے لکھے تھے انھیں میں قطعی نہیں جانتی تھی، لیکن کہیں سے پتا چلا تو خود تحقیق کی اور جب مطمئن ہوگئی تب قلم اٹھایا۔
ان خیر خواہوں کے علاوہ سیما کے پاس ایسے فون بھی آئے جو نہایت غیر شائستہ تھے۔ سیما نے ان صاحب کو اچھی طرح لتاڑا۔ مدد کرنے والوں میں مظفر آباد، ملتان، فیصل آباد اور کراچی کے لوگ شامل تھے۔ خود میرے پاس دو ای میل ایسی بھی آئیں جن میں مجھ سے ملاقات کے لیے وقت مانگا گیا اور گھر کا پتا بھی، ایک صاحب انجینئر تھے لاڑکانہ میں رہتے تھے، عید کی چھٹیوں میں کراچی آنے کا پروگرام تھا، وہ پہلے مجھ سے ملنے کے خواہش مند تھے بعد میں سیما کی مدد کے بارے میں سوچیں گے۔ ظاہر ہے ایسی ای میل کا کیا جواب دیا جا سکتا تھا۔ سیما کے پاس ایک فون کوئٹہ سے آیا، جوں ہی انھوں نے اوٹ پٹانگ اور غیر مہذب باتیں شروع کیں تو سیما نے فون اپنے شوہر کو تھما دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا ہوگا آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
اسلام نے گدا گری کی مذمت کی ہے لیکن رمضان ہی سے گداگروں کے قافلے سرائیکی پٹی، خیبرپختونخوا اور اندرون سندھ سے پورے پورے خاندانوں سمیت کراچی میں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں۔ آج کل کراچی میں چلنا محال ہے، ہر دو قدم پر ایک بھکاری مرد یا عورت کندھے پر بچہ ڈالے بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔
سنا ہے کہ بچہ پانچ سو روپے روز پر کرائے پر بھی لیا جاتا ہے، اب یہ بھکارنیں مساجد کے آس پاس ڈیرہ جماتی ہیں۔ کچھ گداگر اپنی پنڈلی پر کوئی دوا لگا کر بیٹھ جاتے ہیں جس سے ان کی ٹانگ ہاتھی کی ٹانگ بن جاتی ہے۔ اس بیماری کو ''فیل پا'' کہتے ہیں لیکن یہ بھکاری جو دوا لگا کر ٹانگ کو موٹا کر لیتے ہیں چند گھنٹوں کے بعد یہ سوجن ختم ہو جاتی ہے۔
اس دفعہ تین ای میل ایسی بھی آئیں جن میں بھیجنے والے نے مدد کی درخواست کی تھی، ایک میل ملتان کی تھی، ایک نواب شاہ کی اور تیسری کراچی سے۔ انھیں پڑھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ سب فراڈ ہے، جنھیں میں جانتی نہیں، ان کے لیے کیا کر سکتی ہوں۔ تحقیق کیے بغیر کسی کی بات کا یقین کیسے کیا جاسکتا ہے۔
لوگوں کی میل پڑھ کر مجھے افسوس بھی ہوا، نئی حکومت کے آتے ہی مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے۔ گیس آتی نہیں لیکن بل کئی کئی سو کا آ رہا ہے۔ حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر ہیں، کسی کو گاڑی کے لیے کروڑوں چاہئیں کہ ''مختار کل'' بن کر عوام کا خون نچوڑ لے۔ اگلے سال مزید مہنگائی کی نوید ہے۔ چوریاں، ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں، بے روزگاری عروج پر ہے۔
ہم خود بھی اپنی تباہی کے ذمے دار ہیں، کم تولنا اور جھوٹ بولنا ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے۔ ناپ تول میں بے ایمانی کی سخت تنبیہ کی گئی ہے۔ آپ ایک لیٹر دودھ منگوائیں، ناپیں تو کم ہی نکلے گا۔ اسی طرح تمام چیزوں کا حال ہے۔ یہ ہے ہمارا قومی مزاج۔ خدا ناراض نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔