ایران کا اسرائیل پر جوابی حملہ
ایران سے سیدھی لکیر کھینچی جائے تو یہ فاصلہ کم و بیش ایک ہزار کلو میٹر بنتا ہے
یکم اپریل2024کو اسرائیل نے ایران کی جانب سے کسی اشتعال انگیزی کے بغیر دمشق میں ایرانی قونصلر سیکشن پر میزائل سے حملہ کیا۔اس حملے میں مرحوم جنرل سلیمانی کے جانشین جنرل رضا اور چند اور افرادابدی نیند سو گئے۔
غزہ پر اسرائیلی حملہ شروع ہونے سے اب تک اسرائیل کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح ایران کو براہِ راست جنگ میں گھسیٹے۔ دمشق میں ایرانی قونصلر سیکشن کی تباہی اور جنرل رضا کی موت نے ایران کو مجبور کر دیاکہ اسرائیل کو اس بلا اشتعال حملے کا جواب دے۔
ایران کو ویسے تو فوری جواب دینا چاہیے تھا لیکن ایران نے اس اہم فوجی کاروائی کے لیے بارہ دن لئے۔ایک خیال یہ ہے کہ ایران جوابی حملے کے لیے مجبور تو ہو گیا تھا لیکن وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ حملے سے اسرائیل کے اندر کم سے کم جانی نقصان ہو اور صورتحال بگڑ کر ہاتھوں سے نہ نکل ہ جائے۔13اپریل کو ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کر دیا اور تین سو تیس ڈرونز،کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل فائر کئے۔ایران نے حملے سے قبل واشنگٹن سمیت کئی دارالحکومتوں کو حملے سے آگاہ کر دیا تھا تاکہ حملے سے بچاؤ کا ممکنہ بندوبست کر لیا جائے۔بظاہر ایران نے جو ڈرون داغے ان میں سے شاید ایک بھی اسرائیل تک نہ پہنچ پایا۔ان ڈرونز کی رفتار 140سے 200کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔
ایران سے سیدھی لکیر کھینچی جائے تو یہ فاصلہ کم و بیش ایک ہزار کلو میٹر بنتا ہے۔ خلیجی سمندر میں موجود امریکی اور ببرطانوی بحری بیڑوں سے پرواز کرنے والے لڑاکا طیاروں نے ان ڈرونز کو انٹرسپٹ کیا۔عراق میں امریکی فوجی اڈے نے بھی یہی کام کیا۔جو ڈرونز ان دونوں کارروائیوں سے بچ نکلے انہیں اردن کی فضا میں اردنی فضائیہ نے مار گرایا۔اسرائیلی کی فضائی حدود دنیا کی سب سے زیادہ محفوظ فضا ہے۔اسرائیل نے اپنے دفاع کے لیے 4تہیFour Layerd بندوبست کر رکھا ہے۔پہلی ڈیفنس لائن لڑاکا طیارے ہیں۔دوسری ڈیفنس لائن Arrow میزائل ہیں۔تیسری ڈیفنس لائن پیٹریاٹ میزائل سسٹم ہے، اگر کوئی میزائل یا جنگی جہاز ان سے بچ نکلے تو پھر مشہور آئرن ڈوم ڈیفنس لائن کے میزائل حرکت میں آتے ہیں۔
ایران کے فائر کیے گئے تین مختلف قسم کے بیلسٹک میزائل اسرائیل تک پہنچے اور مغربی اطلاعات کے مطابق ان میں سے سات اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔چونکہ ایران نے بہت پہلے آگاہ کر دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنائے گا۔
اس لیے مشرقی اسرائیل کی ایئر بیسز اور فوجی تنصیبات کو خالی کرا لیا گیا تھا۔امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر 2اپریل سے اپنے ہیڈ کوارٹر کو چھوڑ کر اسرائیل میں بیٹھ کر حملے کو ناکام بنانے میں مصروف رہے۔اسرائیل نے جس ایئر بیس سے میزائل داغ کر دمشق میں حملہ کیا تھا ، وہ ایرانی میزائل کا نشانہ بنی اور وہاں خاصا نقصان بھی ہوا۔
اس حملے سے ایران کو کیا حاصل ہوا؟سب سے پہلے تو ایرانی ٹیکنالوجی کا امتحان تھا جس میں ایرانی صلاحیت پوری اتری۔کوئی ایرانی میزائل اپنے راستے سے ہٹ کر کہیں اور نہیں گیا۔ ایران نے مشکل حالات میں بہت ہمت کی اور اور اسرائیلی زمین کو براہِ راست نشانہ بنایا۔وہ یہ کریڈٹ لینے میں حق بجانب ہے۔
ایران نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ، برطانیہ سمیت دوسری اتحادی قوتوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران کی فوجی قوت اور حملہ کرنے کی صلاحیت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی ہے، وہ خلیج میں امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایرانی ہتھیاروں کے اسرائیل پہنچ کر اپنے اہداف کو نشانہ بنانے سے اسرائیل کی Invincibility کا بھرم ٹوٹ گیا۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اسرائیل کو امریکا کی مدد حاصل نہ ہوتی تو اسرائیل تباہ ہو جاتا۔
حملے کے فوراً بعد ایرانی افواج کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے بلا اشتعاؒ ل حملے کا جواب دے دیا ہے اس لیے ہماری طرف سے معاملے کو ختم سمجھا جائے جبکہ اسرائیلی افواج کے سربراہ نے کہا کہ اس حملے کا جواب ضرور دیا جائے گا۔ امریکی صدر بائیڈن نے اسرائیل کی مزید کسی بھی جوابی کاروائی کا حصہ نہ بننے کا عندیہ دیا ہے۔چونکہ اسرائیل اور ایران کی سرحدیں متصل نہیں ہیں اس لیے اسرائیل ایران پر اور ایران اسرائیل پر زمینی حملہ نہیں کر سکتے۔
اب اگر اسرائیل ایرانی حملے کا جواب ضرور دینا چاہے تو اس کے پاس تین آپشن ہیں، پہلا آپشن تو یہ ہے کہ وہ ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنائے۔ اسرائیل اگر ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کامیابی کا امکان بہت کم ہے کیونکہ ایران نے جواب میں اسرائیلی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا تو اسرائیل کا بہت نقصان ہو سکتا ہے ۔
چھوٹی سی یہودی آبادی کے پاس آپشنز کم رہ جائیں گے۔دوسرا آپشن ایران سے دور کسی ایرانی کمانڈر پر حملہ ہے،اور اسرائیل کے پاس تیسرا آپشن کسی ایرانی حمایت یافتہ گروپ مثال کے طور پر حزب اﷲپر حملہ کرنا ہے۔ ممکنہ طور پر یہ آپشن زیادہ قابلِ عمل نظر آرہا ہے۔ ایران کو اسرائیل پر حملے سے بہت ڈیٹا اور تجربہ حاصل ہوا ہو گا۔ایران کو یہ خیال رکھنا ہو گا کہ نیتن یاہو کی سیاسی زندگی جنگ میں ہے۔جھگڑے یا جنگ کے ختم ہونے پر نیتن یاہو حکومت سے باہر ہو گا ۔
ایرانی حملے سے وقتی طور پر غزہ کے فلسطینیوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان جھگڑے کا فریق تو نہیں لیکن ایران کا پڑوسی مسلم ملک ہے۔اگر جنگ چھڑتی ہے تو اس کی تپش پاکستان تک پہنچے گی۔پہلے ہی ہم افغانستان میں جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھنی شروع ہو گئی ہیں۔ جس کے پاکستانی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان پر مغربی طاقتوں کا بھی دباؤ ہو گا۔ہمارے جیسے کمزور معیشت والے ملک کے لیے یہ ایک خطرناک صورتحال ہو گی۔خدا کرے یہ جنگ ٹل جائے۔خدا کرے کہ غزہ میں جلد جنگ بندی ہو۔
اسرائیل کے پاس غیر اعلانیہ ایٹمی قوت ہے۔ ممکن ہے کہ ایران بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا ہو۔ ایسے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بہت بھیانک ہو سکتی ہے۔
یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ ایرانی بیلسٹک میزائل اسرائیل کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اسی طرح اسرائیل کے پاس موجود ایٹم بم کو ایران پر داغا جا سکتا ہے اور بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہو گا۔دعا ہے کہ ممکنہ جنگ نہ ہو،دونوں ملک صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنے اپنے لوگوں کو تباہی سے بچائیں۔
غزہ پر اسرائیلی حملہ شروع ہونے سے اب تک اسرائیل کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح ایران کو براہِ راست جنگ میں گھسیٹے۔ دمشق میں ایرانی قونصلر سیکشن کی تباہی اور جنرل رضا کی موت نے ایران کو مجبور کر دیاکہ اسرائیل کو اس بلا اشتعال حملے کا جواب دے۔
ایران کو ویسے تو فوری جواب دینا چاہیے تھا لیکن ایران نے اس اہم فوجی کاروائی کے لیے بارہ دن لئے۔ایک خیال یہ ہے کہ ایران جوابی حملے کے لیے مجبور تو ہو گیا تھا لیکن وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ حملے سے اسرائیل کے اندر کم سے کم جانی نقصان ہو اور صورتحال بگڑ کر ہاتھوں سے نہ نکل ہ جائے۔13اپریل کو ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کر دیا اور تین سو تیس ڈرونز،کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل فائر کئے۔ایران نے حملے سے قبل واشنگٹن سمیت کئی دارالحکومتوں کو حملے سے آگاہ کر دیا تھا تاکہ حملے سے بچاؤ کا ممکنہ بندوبست کر لیا جائے۔بظاہر ایران نے جو ڈرون داغے ان میں سے شاید ایک بھی اسرائیل تک نہ پہنچ پایا۔ان ڈرونز کی رفتار 140سے 200کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔
ایران سے سیدھی لکیر کھینچی جائے تو یہ فاصلہ کم و بیش ایک ہزار کلو میٹر بنتا ہے۔ خلیجی سمندر میں موجود امریکی اور ببرطانوی بحری بیڑوں سے پرواز کرنے والے لڑاکا طیاروں نے ان ڈرونز کو انٹرسپٹ کیا۔عراق میں امریکی فوجی اڈے نے بھی یہی کام کیا۔جو ڈرونز ان دونوں کارروائیوں سے بچ نکلے انہیں اردن کی فضا میں اردنی فضائیہ نے مار گرایا۔اسرائیلی کی فضائی حدود دنیا کی سب سے زیادہ محفوظ فضا ہے۔اسرائیل نے اپنے دفاع کے لیے 4تہیFour Layerd بندوبست کر رکھا ہے۔پہلی ڈیفنس لائن لڑاکا طیارے ہیں۔دوسری ڈیفنس لائن Arrow میزائل ہیں۔تیسری ڈیفنس لائن پیٹریاٹ میزائل سسٹم ہے، اگر کوئی میزائل یا جنگی جہاز ان سے بچ نکلے تو پھر مشہور آئرن ڈوم ڈیفنس لائن کے میزائل حرکت میں آتے ہیں۔
ایران کے فائر کیے گئے تین مختلف قسم کے بیلسٹک میزائل اسرائیل تک پہنچے اور مغربی اطلاعات کے مطابق ان میں سے سات اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔چونکہ ایران نے بہت پہلے آگاہ کر دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنائے گا۔
اس لیے مشرقی اسرائیل کی ایئر بیسز اور فوجی تنصیبات کو خالی کرا لیا گیا تھا۔امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر 2اپریل سے اپنے ہیڈ کوارٹر کو چھوڑ کر اسرائیل میں بیٹھ کر حملے کو ناکام بنانے میں مصروف رہے۔اسرائیل نے جس ایئر بیس سے میزائل داغ کر دمشق میں حملہ کیا تھا ، وہ ایرانی میزائل کا نشانہ بنی اور وہاں خاصا نقصان بھی ہوا۔
اس حملے سے ایران کو کیا حاصل ہوا؟سب سے پہلے تو ایرانی ٹیکنالوجی کا امتحان تھا جس میں ایرانی صلاحیت پوری اتری۔کوئی ایرانی میزائل اپنے راستے سے ہٹ کر کہیں اور نہیں گیا۔ ایران نے مشکل حالات میں بہت ہمت کی اور اور اسرائیلی زمین کو براہِ راست نشانہ بنایا۔وہ یہ کریڈٹ لینے میں حق بجانب ہے۔
ایران نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ، برطانیہ سمیت دوسری اتحادی قوتوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران کی فوجی قوت اور حملہ کرنے کی صلاحیت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی ہے، وہ خلیج میں امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایرانی ہتھیاروں کے اسرائیل پہنچ کر اپنے اہداف کو نشانہ بنانے سے اسرائیل کی Invincibility کا بھرم ٹوٹ گیا۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اسرائیل کو امریکا کی مدد حاصل نہ ہوتی تو اسرائیل تباہ ہو جاتا۔
حملے کے فوراً بعد ایرانی افواج کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے بلا اشتعاؒ ل حملے کا جواب دے دیا ہے اس لیے ہماری طرف سے معاملے کو ختم سمجھا جائے جبکہ اسرائیلی افواج کے سربراہ نے کہا کہ اس حملے کا جواب ضرور دیا جائے گا۔ امریکی صدر بائیڈن نے اسرائیل کی مزید کسی بھی جوابی کاروائی کا حصہ نہ بننے کا عندیہ دیا ہے۔چونکہ اسرائیل اور ایران کی سرحدیں متصل نہیں ہیں اس لیے اسرائیل ایران پر اور ایران اسرائیل پر زمینی حملہ نہیں کر سکتے۔
اب اگر اسرائیل ایرانی حملے کا جواب ضرور دینا چاہے تو اس کے پاس تین آپشن ہیں، پہلا آپشن تو یہ ہے کہ وہ ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنائے۔ اسرائیل اگر ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کامیابی کا امکان بہت کم ہے کیونکہ ایران نے جواب میں اسرائیلی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا تو اسرائیل کا بہت نقصان ہو سکتا ہے ۔
چھوٹی سی یہودی آبادی کے پاس آپشنز کم رہ جائیں گے۔دوسرا آپشن ایران سے دور کسی ایرانی کمانڈر پر حملہ ہے،اور اسرائیل کے پاس تیسرا آپشن کسی ایرانی حمایت یافتہ گروپ مثال کے طور پر حزب اﷲپر حملہ کرنا ہے۔ ممکنہ طور پر یہ آپشن زیادہ قابلِ عمل نظر آرہا ہے۔ ایران کو اسرائیل پر حملے سے بہت ڈیٹا اور تجربہ حاصل ہوا ہو گا۔ایران کو یہ خیال رکھنا ہو گا کہ نیتن یاہو کی سیاسی زندگی جنگ میں ہے۔جھگڑے یا جنگ کے ختم ہونے پر نیتن یاہو حکومت سے باہر ہو گا ۔
ایرانی حملے سے وقتی طور پر غزہ کے فلسطینیوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان جھگڑے کا فریق تو نہیں لیکن ایران کا پڑوسی مسلم ملک ہے۔اگر جنگ چھڑتی ہے تو اس کی تپش پاکستان تک پہنچے گی۔پہلے ہی ہم افغانستان میں جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھنی شروع ہو گئی ہیں۔ جس کے پاکستانی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان پر مغربی طاقتوں کا بھی دباؤ ہو گا۔ہمارے جیسے کمزور معیشت والے ملک کے لیے یہ ایک خطرناک صورتحال ہو گی۔خدا کرے یہ جنگ ٹل جائے۔خدا کرے کہ غزہ میں جلد جنگ بندی ہو۔
اسرائیل کے پاس غیر اعلانیہ ایٹمی قوت ہے۔ ممکن ہے کہ ایران بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا ہو۔ ایسے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بہت بھیانک ہو سکتی ہے۔
یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ ایرانی بیلسٹک میزائل اسرائیل کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اسی طرح اسرائیل کے پاس موجود ایٹم بم کو ایران پر داغا جا سکتا ہے اور بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہو گا۔دعا ہے کہ ممکنہ جنگ نہ ہو،دونوں ملک صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنے اپنے لوگوں کو تباہی سے بچائیں۔