الفاظ کا سفر نامہ۔کس یا کش
پشتو کسوڑہ فارسی اردو کاسہ اور کیسہ کے ساتھ ساتھ سنسکرت میں بھی’’کیش‘‘ کے معنی محزن اور سرچشمے کے ہیں
''کس'' دراصل اس قدیم ترین زبان کا لفظ ہے جو اس پہاڑی سلسلے میں بولی جاتی تھی۔جو دریائے برہم پترا بلکہ برما(یریما) سے لے کر ایران میں ''کوہ بابا'' تک پھیلا ہوا ہے جو چین اور ہند کے درمیان ایک ہلالی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔
جس کی ایک شاخ خیبر سے مڑ کر بلوچستان سے ہوتی ہوئی کیرتھر تک دراز ہوگئی ہے اس کا قدیم نام کس تھا جو بعد میں کش بھی ہوگیا ہے اور فارسی میں ''کوہ'' پھر آگے قو،قہہ،کاز،قف اور قاف ہو گیاہے اور یہ تو میں کہیں بتا چکاہوں کہ ایرانیوں اور ہندیوں میں دیگر اختلاف کے ساتھ ساتھ ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ جو لفظ ہندی میں (س) سے بولتے ہیں اسے ایرانی(ہ) سے بولتے ہیں۔
جیسے ''دیس'' کو دیہہ ماس کو ماہ۔سیت کو ہیت(ہفت) دس کو دہ،سندھ کو ہند،سوما کو ہوما مسر کو مہر۔اسی طرح کس کو کوہ۔''کس'' کے معنی ہیں وہ بلندی جہاں سے پانی بہتا ہو۔یہاں اردو زبان کے بارے میں بھی تھوڑی سی بات ہوجائے کمال کی زبان ہے۔بلکہ اسے زبانوں کی ''لائیبریری'' کہنا زیادہ موزوں ہے یہ بجائے خود تو معروف معنی میں ''زبان'' نہیں ہے لیکن زبانوں کا سنگم اور مجمع البحرین ہے۔
یہ زبانوں سے الفاظ لے کر کھاتی ہے اور اپنا جزو بدن بناتی ہے۔لیکن ساتھ ہی اتنی دیانت دار کہ ان الفاظ کو محفوظ بھی رکھتی ہے۔چنانچہ اس میں ''کاسہ'' کا لفظ موجود ہے۔جو پانی کے برتن کو کہتے ہیں،کسی پہاڑی نالی کو کہتے ہیں کیسہ جیب کو کہتے ہیں اور کسان جو کھیتوں کو پانی دیتا ہے یہی لفظ''کس'' جب آگے چل کر فارسی میں''کش'' ہوجاتا ہے،کھینچنے کے معنی میں۔تو اردو میں کھینچ بھی ہوجاتا ہے کسنا، کمر کسنا۔ کس کر باندھنا اوزے کسنا بمعنی کھینچنا، کھینچ کر کھڑا ہوا۔ بلکہ فرد کے لیے کس،کسی۔کس کو دوسری طرف اس پہاڑی سلسلے کے اس سرے پر بھی ''کسی غر'' ہے۔اور اکسی قوم۔اور دور مشرق میں بھی کھاسی پہاڑ اور کھاسی لوگ۔چین کی طرف کاشغر۔اور ادھر کاش میر،کشیر کاشر۔لیکن یہ لفظ یہاں سے بھی آگے بہت دور دور تک چلا گیا ہے یہیں کے لوگ وسطیٰ ایشیا میں کاسک کاسکتان اور بحیرہ کاس پین تک پھیلے ہوئے ہیں۔
جہاں انھوں نے اسی پہاڑ کی یاد میں ایک پہاڑ کا نام کوہ قاف رکھاہے،کس،کوہ،قاز،قاف۔کہ یونانیوں نے اپنی تاریخوں میں ای کوہ کاس کو قوقاز لکھا ہے۔سکندر نے اپنے آٹھ سکندریوں میں ایک سکندر کابل کے قریب جبل السراج کے دامن میں بنایا تھا اسی کا نام بھی الیگزینڈر یا کوکازیہ تھا۔مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ اس پہاڑی سلسلے کا نام ''کس'' تھا۔جو ایک لہجے میں''کش'' ہے اور اس کے درمیان کے ایک حصے کا نام''ہندوکش''۔جو اصل میں ''سیدوکس''ہے۔
یعنی دریاؤں کا ''کس'' یہ تو بتا چکا ہوں کہ سنسکرت کا (س) فارسی میں(ہ) ہوجاتا ہے اور اس سرزمین پر لگ بھگ ایک ہزار سال فارسی کی حکومت رہی ہے جس میں ''سیند'' کا ہند ہوگیا۔اور پہاڑ سندوکس سے ہندوکش۔ ''سیند''پشتو میں اب بھی دریا کے لیے کثیرالاستعمال لفظ ہے اور کس بلند زمین۔جہاں سے پانی بہتا ہو۔ چنانچہ پختون خوا میں ایسے بے شمار مقامات اب بھی ہیں جو ''کس''کہلاتے ہیں،کس کلے کس ناکہ۔کس،کس کو رونہ کا گاؤں اب مردان شہر کا حصہ بن گیا ہے، ہزارہ (ہری پور) میں ایک پہاڑی نالے کا نام ''چاری کس'' ہے، زراعت کا ایک آلہ ''کسی'' کہلاتا ہے۔جس سے مٹی کھینچی جاتی ہے کس کی جاتی ہے۔سنسکرت میں سر کے بالوں یعنی چوٹی کو کش(kesh) کہا جاتا ہے۔
پنجابی میں چادر کو کھیس کہتے ہیں جس سے سر اور بدن ڈھانپا جاتا ہے۔پشتو میں ایک لفظ''کسوڑہ'' ہے جو ''تھیلے'' کو کہتے ہیں۔حجام اپنے اوزار ''کسوت'' میں رکھتے ہیں،جسے کسبت بھی کہتے ہیں،دریاؤں، چشموں، پانی اور انسانی حیوانی نسلوں کا سرچشمہ ہونے کی وجہ سے اس میں محزن ومعدن اور سرچشمے کا مفہوم بھی پیدا ہوگیا۔
چنانچہ پشتو کسوڑہ فارسی اردو کاسہ اور کیسہ کے ساتھ ساتھ سنسکرت میں بھی''کیش'' کے معنی محزن اور سرچشمے کے ہیں۔اور انگریزی کے تو بہت سارے الفاظ ہیں ''کیس''،جسے سوٹ کیس،ایٹچی کیس، بریف کیس۔اور پھر لفظ کیش(نقدی) کیشئر نقدی رکھنے والا۔اب تو اس کو''سیند'' کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں سیند یا سین تو دریا کو کہتے ہیں اور اباسین کا مطلب ہے دریاؤں کا باپ یا باپ دریا۔بڑے سمندر کو ''اوشین'' کہتے ہیں جب کہ چھوٹے سمندر کو''سی'' کہا جاتا ہے۔انگریزی ڈکشنری میں جب(s) آتا تو اس کے ساتھ ''لائیک ریور'' بھی اکثر آتا ہے۔
اوشین کا لفظ عربی میں جاکر اوقیانوس ہوجاتا ہے۔یونانی اساطیر میں ''اوشین'' دریاوں کا دیوتا ہے اور ایک ایسا دریا بھی جو ساری دنیا کو محیط ہے۔لیکن غور کیا جائے تو ان ساری زبانوں میں اوشین کا نام یا لفظ تو ہے لیکن اس کے لغوی معنی نہیں ہیں جب کہ پشتو''اباسین''۔بامعنی ہے دریاؤں کا باپ یا باپ دریا۔یہی''سیند'' جس کی شکل دوسری زبانوں میں ''سندھ'' ہوگیا ہے اور فارسی لہجے میں''ہند'' مولانا روم کا شعر ہے
سندیاں را اصطلاح سند مدح
ہندیاں را اصطلاح سیند مدح
جس کی ایک شاخ خیبر سے مڑ کر بلوچستان سے ہوتی ہوئی کیرتھر تک دراز ہوگئی ہے اس کا قدیم نام کس تھا جو بعد میں کش بھی ہوگیا ہے اور فارسی میں ''کوہ'' پھر آگے قو،قہہ،کاز،قف اور قاف ہو گیاہے اور یہ تو میں کہیں بتا چکاہوں کہ ایرانیوں اور ہندیوں میں دیگر اختلاف کے ساتھ ساتھ ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ جو لفظ ہندی میں (س) سے بولتے ہیں اسے ایرانی(ہ) سے بولتے ہیں۔
جیسے ''دیس'' کو دیہہ ماس کو ماہ۔سیت کو ہیت(ہفت) دس کو دہ،سندھ کو ہند،سوما کو ہوما مسر کو مہر۔اسی طرح کس کو کوہ۔''کس'' کے معنی ہیں وہ بلندی جہاں سے پانی بہتا ہو۔یہاں اردو زبان کے بارے میں بھی تھوڑی سی بات ہوجائے کمال کی زبان ہے۔بلکہ اسے زبانوں کی ''لائیبریری'' کہنا زیادہ موزوں ہے یہ بجائے خود تو معروف معنی میں ''زبان'' نہیں ہے لیکن زبانوں کا سنگم اور مجمع البحرین ہے۔
یہ زبانوں سے الفاظ لے کر کھاتی ہے اور اپنا جزو بدن بناتی ہے۔لیکن ساتھ ہی اتنی دیانت دار کہ ان الفاظ کو محفوظ بھی رکھتی ہے۔چنانچہ اس میں ''کاسہ'' کا لفظ موجود ہے۔جو پانی کے برتن کو کہتے ہیں،کسی پہاڑی نالی کو کہتے ہیں کیسہ جیب کو کہتے ہیں اور کسان جو کھیتوں کو پانی دیتا ہے یہی لفظ''کس'' جب آگے چل کر فارسی میں''کش'' ہوجاتا ہے،کھینچنے کے معنی میں۔تو اردو میں کھینچ بھی ہوجاتا ہے کسنا، کمر کسنا۔ کس کر باندھنا اوزے کسنا بمعنی کھینچنا، کھینچ کر کھڑا ہوا۔ بلکہ فرد کے لیے کس،کسی۔کس کو دوسری طرف اس پہاڑی سلسلے کے اس سرے پر بھی ''کسی غر'' ہے۔اور اکسی قوم۔اور دور مشرق میں بھی کھاسی پہاڑ اور کھاسی لوگ۔چین کی طرف کاشغر۔اور ادھر کاش میر،کشیر کاشر۔لیکن یہ لفظ یہاں سے بھی آگے بہت دور دور تک چلا گیا ہے یہیں کے لوگ وسطیٰ ایشیا میں کاسک کاسکتان اور بحیرہ کاس پین تک پھیلے ہوئے ہیں۔
جہاں انھوں نے اسی پہاڑ کی یاد میں ایک پہاڑ کا نام کوہ قاف رکھاہے،کس،کوہ،قاز،قاف۔کہ یونانیوں نے اپنی تاریخوں میں ای کوہ کاس کو قوقاز لکھا ہے۔سکندر نے اپنے آٹھ سکندریوں میں ایک سکندر کابل کے قریب جبل السراج کے دامن میں بنایا تھا اسی کا نام بھی الیگزینڈر یا کوکازیہ تھا۔مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ اس پہاڑی سلسلے کا نام ''کس'' تھا۔جو ایک لہجے میں''کش'' ہے اور اس کے درمیان کے ایک حصے کا نام''ہندوکش''۔جو اصل میں ''سیدوکس''ہے۔
یعنی دریاؤں کا ''کس'' یہ تو بتا چکا ہوں کہ سنسکرت کا (س) فارسی میں(ہ) ہوجاتا ہے اور اس سرزمین پر لگ بھگ ایک ہزار سال فارسی کی حکومت رہی ہے جس میں ''سیند'' کا ہند ہوگیا۔اور پہاڑ سندوکس سے ہندوکش۔ ''سیند''پشتو میں اب بھی دریا کے لیے کثیرالاستعمال لفظ ہے اور کس بلند زمین۔جہاں سے پانی بہتا ہو۔ چنانچہ پختون خوا میں ایسے بے شمار مقامات اب بھی ہیں جو ''کس''کہلاتے ہیں،کس کلے کس ناکہ۔کس،کس کو رونہ کا گاؤں اب مردان شہر کا حصہ بن گیا ہے، ہزارہ (ہری پور) میں ایک پہاڑی نالے کا نام ''چاری کس'' ہے، زراعت کا ایک آلہ ''کسی'' کہلاتا ہے۔جس سے مٹی کھینچی جاتی ہے کس کی جاتی ہے۔سنسکرت میں سر کے بالوں یعنی چوٹی کو کش(kesh) کہا جاتا ہے۔
پنجابی میں چادر کو کھیس کہتے ہیں جس سے سر اور بدن ڈھانپا جاتا ہے۔پشتو میں ایک لفظ''کسوڑہ'' ہے جو ''تھیلے'' کو کہتے ہیں۔حجام اپنے اوزار ''کسوت'' میں رکھتے ہیں،جسے کسبت بھی کہتے ہیں،دریاؤں، چشموں، پانی اور انسانی حیوانی نسلوں کا سرچشمہ ہونے کی وجہ سے اس میں محزن ومعدن اور سرچشمے کا مفہوم بھی پیدا ہوگیا۔
چنانچہ پشتو کسوڑہ فارسی اردو کاسہ اور کیسہ کے ساتھ ساتھ سنسکرت میں بھی''کیش'' کے معنی محزن اور سرچشمے کے ہیں۔اور انگریزی کے تو بہت سارے الفاظ ہیں ''کیس''،جسے سوٹ کیس،ایٹچی کیس، بریف کیس۔اور پھر لفظ کیش(نقدی) کیشئر نقدی رکھنے والا۔اب تو اس کو''سیند'' کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں سیند یا سین تو دریا کو کہتے ہیں اور اباسین کا مطلب ہے دریاؤں کا باپ یا باپ دریا۔بڑے سمندر کو ''اوشین'' کہتے ہیں جب کہ چھوٹے سمندر کو''سی'' کہا جاتا ہے۔انگریزی ڈکشنری میں جب(s) آتا تو اس کے ساتھ ''لائیک ریور'' بھی اکثر آتا ہے۔
اوشین کا لفظ عربی میں جاکر اوقیانوس ہوجاتا ہے۔یونانی اساطیر میں ''اوشین'' دریاوں کا دیوتا ہے اور ایک ایسا دریا بھی جو ساری دنیا کو محیط ہے۔لیکن غور کیا جائے تو ان ساری زبانوں میں اوشین کا نام یا لفظ تو ہے لیکن اس کے لغوی معنی نہیں ہیں جب کہ پشتو''اباسین''۔بامعنی ہے دریاؤں کا باپ یا باپ دریا۔یہی''سیند'' جس کی شکل دوسری زبانوں میں ''سندھ'' ہوگیا ہے اور فارسی لہجے میں''ہند'' مولانا روم کا شعر ہے
سندیاں را اصطلاح سند مدح
ہندیاں را اصطلاح سیند مدح