مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی اور پاکستانی نقطہ نظر

موجود جیوپولیٹیکل حالات کے تناظر میں ایک مضبوط اور طاقتور فوج کے وجود کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے

ایران اور اسرائیل کے درمیان نظریاتی، مذہبی اور جیوپولیٹیکل وجوہات کی بنا پر پائے جانے والے مسلسل و مستقل اختلافات جو اکثر و بیشتر باہمی جھڑپوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں خطے کے امن کے لیے انتہائی خطرناک نتائج کے حامل ہیں۔

مشرق وسطیٰ کا سیاسی منظر نامہ ابھی تک انھی قدیم دشمنیوں کے زیر و بم سے ترتیب پاتا ہے جو آج بڑھتے بڑھتے سنگین تنازعات کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور یہ امر ان پیچیدگیوں اور مشکلات کو اجاگر کرتا ہے جو اس خطے میں طویل مدتی امن اور سلامتی کے قیام میں حائل ہیں۔

مشرق وسطیٰ 7 اکتوبر 2023سے ایک بار پھر سے شدید سیاسی بحران کا شکار ہے جس میں فلسطین اسرائیل جھگڑے کی وجہ سے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے ذریعے تشدد و بر بریت کا ایک شیطانی چکر چلا ہوا ہے جس کی قیمت فلسطینی جانوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔

دکھ اور تکلیف کا مقام ہے کہ اب تک 33,000 فلسطینی اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں سمیت بے گناہ نہتے شہریوں کی ہے۔ اسرائیل نے شام میں ایرانی سفارت خانے کو فضائی حملے کا نشانہ بنایا جس کے جواب میں ایران نے اسرائیل کے خلاف فضائی کارروائی کی ہے۔ اس حالیہ ایرانی کارروائی نے خطے میں صورت حال کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔

حسین سلامی کی پاسداران انقلاب اسلامی نے اسرائیل کے خلاف اس ایرانی کاروائی کا سہرا اپنے سر سجاتے ہوئے اسے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک نپا تلا ردعمل کہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ایرانی کارروائی سے اسرائیل کا کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہوا جب کہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کے حملوں سے اسرائیلی فوجی تنصیبات بشمول نیواتیم ایئر بیس کو نقصان پہنچا ہے جہاںF-35نامی جنگی طیارے کھڑے کیے گئے تھے۔ تاہم دو بدو لڑائی اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ ایران اور اسرائیل کے مابین صورت حال کس حد تک سنگین ہے اور اس سے خطے کی کشیدگی میں کس حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور بڑھتی ہوئی حالیہ کشیدگی کے جواب میں پاکستان کی سفارتی کوششوں کو واضح اور دوٹوک ہونے کی بنا پر سراہا جا رہا ہے۔ پاکستان نے یکم اپریل کو شروع ہونے والی اس کشیدگی کے ذمے داروں کو انجام تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیلی غیر ذمے دارانہ اور شر انگیز کارروائی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ پاکستان نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ تمام ذمے داروں کا احتساب و تادیب کی جائے۔

علاوہ ازیں، پاکستان کی طرف سے 2 اپریل کو دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ہونے والے اسرائیلی حملے کی مذمت دراصل غیر ذمے دارانہ اور ناقابل قبول اقدامات کے خلاف پاکستان کے غیر متزلزل عزم و حوصلے کا بھی اظہار ہے۔ پاکستان نے واشگاف الفاظ میں عدم استحکام کا شکار اس خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھانے والے اس حملے کی مذمت کر کے خود کو امن و استحکام کے داعی کے طور پر منوا لیا ہے۔

علاقائی مسائل کے حل کے لیے ہمہ جہت اجتماعی تعاون کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو اسرائیلی مہم جوئی کو لگام دینے کے لیے دلچسپی لینے اور آگے آنے کی درخواست کرنا دراصل پاکستان کی طرف سے مسائل کے سفارتی حل پر یقین رکھنے کا ثبوت ہے۔

ایک اور بیان جو 14اپریل 2024کو جاری کیا گیا میں بھی پاکستان نے سیکیورٹی کونسل کی طرف سے ذمے داریاں پوری نہ کرنے کے سنگین نتائج پر زور دیتے ہوئے علاقے میں بڑھتے ہوئے تناؤ پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے اس امر کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا کہ ایسی جارحیتوں کا قلع قمع کرنا کس قدر ضروری ہے جو پورے خطے کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں کیونکہ خطے کا ایک ملک ہونے کی وجہ سے خطے کی امن و سلامتی سے پاکستان کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔

پاکستان نے خطے کے امن کی اہمیت اور بین الاقوامی اداروں کے اس کو بچانے میں ادا کیے جاسکنے والے کردار کی فوقیت کو اجاگر کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے سفارت کاری کو اولین ترجیح دینے کے اپنے دیرینہ عزم کا بھی اعادہ کیا ہے۔


پاکستان کی ہمیشہ یہ حکمت عملی رہی ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور قومی خودمختاری کے احترام پر زور دیا جائے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مشرق وسطیٰ میں امن و تعاون کے لیے بھی ہمیشہ کوشاں رہا ہے اور اسی حکمت عملی پر پاکستان آج بھی کار بند ہے۔ جب سے اسرائیل کی غاصبانہ فوج نے غزہ میں جنگ کے شعلے بھڑکائے ہیں اس وقت سے پاکستان کی یہ کوشش رہی ہے کہ جلد از جلد جنگ بندی ہو جائے۔

پاکستان نے جارحیت کو روکنے اور خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت کو ہمیشہ اجاگر کیا ہے۔ پاکستان نے غزہ سے لے کر شام اور لبنان تک پھیلی اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کر کے خطے کے بڑے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی و آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

غزہ میں جاری نسل کشی اور بدترین انسانی المیے کو بین الاقوامی برادری کے سامنے اولین ترجیح کے طور پر رکھنے کا ہدف آج بھی پاکستان کی ترجیح ہے۔ پاکستان کا غزہ کے المیے پر نقطہ نظر بالکل واضح اور اس کے پائیدار و منصفانہ حل کے لیے عزم مصمم ہے۔

پاکستان ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کا حوالہ دے کر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور جارحیت کے خاتمے کے مطالبے کے تناظر میں ایک اہم آواز بن چکا ہے اور یہ طرز عمل پاکستان کے اس عزم صمیم کا آئینہ دار ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتا ہے اور تنازعات کے پر امن حل پر یقین رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک مضبوط دفاعی و حفاظتی نظام کی اہمیت و ضرورت بارے پاکستان کا مطمع نظر قوم کے جیو پولیٹیکل حقائق اور ضروریات پر مبنی ہے۔

پاکستان اپنی خودمختاری کے دفاع اور عوام کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط دفاعی حیثیت کے حصول کی ضرورت و اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہے بالخصوص اس وقت جب ملک کو ہندوستان سے مسلسل مخاصمت اور بیرونی معاونت و مدد سے ہونے والی دہشت گردی جیسے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان اپنے عوام کے دفاع اور امن و استحکام کے تحفظ بارے اپنے عزم و ارادے میں بے لوث ہے جب کہ دوسری طرف علاقائی امن و استحکام کے لیے مسائل کے باوجود سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے۔

خطے کا استحکام اسرائیل ہندوستان گٹھ جوڑ کی وجہ سے شدید خطرات کی زد میں ہے اور یہ پہلے سے موجود کشیدگی کو ہوا دے کر نئے مسائل اور بدامنی کو فروغ دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کا یہ اشتراک و تعاون ان کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے عزائم کا پتہ دیتا ہے لیکن جیسا کہ یہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کی نیت سے ہے اس لیے یہ امن و امان کی بربادی پر ہی منتج ہو گا۔

موجود جیوپولیٹیکل حالات کے تناظر میں ایک مضبوط اور طاقتور فوج کے وجود کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ خطے کی بحرانی کیفیت میں رہ کر بیرونی خطرات سے نمٹنے اور اپنی خودمختاری کا تحفظ کر سکنے کے لیے مضبوط دفاعی صلاحیت کا ہونا انتہائی اہم ہے۔

سوشل میڈیا اور سیاسی مفادات جھوٹی افواہوں اور سازشوں کو پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں جس سے کسی اور کا نہیں صرف پاکستان کے مفادات کا نقصان ہو رہا ہے اور اس ملک کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ یہ نہایت اہم ہے کہ تمام متعلقہ فریق پاکستان کی بقاء و بہبود کو مقدم رکھیں اور ایسی کہانیوں کو پھیلانے سے باز رہیں جو ملک کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کرنے کا کام کرتی ہیں۔

پاکستان علاقائی منظر نامے کے مسائل اور پیچیدگیوں کا صرف اس صورت میں کامیابی سے سامنا کر سکتا ہے اور ایک پر امن و محفوظ مستقبل تک صرف اس صورت میں پہنچ سکتا ہے جب ہم سب مل کر کام کریں اور قومی و ملکی مفاد کو ہر شے پر مقدم رکھیں۔

(مصنفہ ایک آزاد پیشہ لکھاری ہیں اور قومی و علاقائی سلامتی کے امور پر لکھتی ہیں۔ )
Load Next Story