وقت کی اہم ضرورت
صرف وہی پاک ذات غیب کا علم رکھتی ہے جو کسی طور انسان کے بس کی بات نہیں ہے
ہم سب نے اپنے بڑوں سے سن رکھا ہے، ''ہمیشہ اچھا سوچو اور اچھا بولو'' کیونکہ یہ اس دنیائے فانی کی ایک اہم حقیقت ہے کہ ہماری سوچ اور ہمارے بات چیت کرنے کا انداز ہی دراصل ہماری شخصیت کے مثبت یا منفی ہونے کو طے کرتا ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کو یہ زندگی بطور تحفہ عنایت کی ہے لیکن اس انمول تحفے کو مزید نکھارنے کی ذمے داری صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے والے اْس کے بندوں پر ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دنیا میں آپ کے اردگرد سب کچھ اتنا برا اور ناخوشگوار ہورہا ہو تو بندہ اس مشکل دور میں اپنے اندر مثبت سوچ کیسے بیدارکر سکتا ہے اور جب سوچ ہی منفی راستوں پر رواں دواں ہو تو شیریں زبانی کس طرح ممکن ہے؟
ان دو سوالات کے جوابات چند الفاظ میں دینا کسی بھی زبان میں ممکن نہیں ہے، کیونکہ مسئلے کے حل کو تلاش کرنے کے لیے ہمیں ان سوالات کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونا ناگزیر ہے۔ موجودہ زمانے کے حالات و واقعات ماضی سے یکسر مختلف ہیں، زندگی اور اْس کو گزارنے کا طریقۂ کار دونوں ہی بالکل تبدیل ہوچکے ہیں۔
ہمارے چاروں جانب ایک بے ہنگم دوڑ لگی ہوئی ہے، سب سے آگے نکل جانے کی اور سب کو پیچھے چھوڑ جانے کی۔ نئی دنیا کا نیا ڈھانچہ اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ انسان اس دوڑ میں خود کے جیتنے سے زیادہ دوسروں کے ہارنے پر خوشی محسوس کرتا ہے اور یہیں سے منفی سوچ کی ابتداء ہوتی ہے۔
درحقیقت نئے دنیاوی سسٹم میں منفی سوچ کا پہلا قدم انسان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے، چونکہ جدید دور کا سانچہ اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ اگر آپ نے اپنے مخالف کوکامیابی کی سیڑھی پر خود سے آگے نکل جانے کے لیے راستہ فراہم کیا تو سامنے والا تشکر کا اظہار کرنے کے بجائے آپ کو بیوقوف تصور کرنے لگتا ہے۔ زمانہ ٔ حال میں ہر سو چھائی مطلب پرستی انسانی وجود میں خودغرضی کے جرثومے کی پیداوار میں بڑی حد تک کارفرما ہے۔
اس انتہائی مشکل دور میں فقط ایک چیز انسان کے قابو میں ہے کہ وہ اپنے اندر منفی سوچ کی ننھی کونپلوں کو کسی صورت بھی تناور شجر میں تبدیل نہ ہونے دے۔انسان کا اپنے اس اختیار کو بہترین طریقے سے استعمال کرنا اگر سہل نہیں تو اتنا دشوار بھی نہیں ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ امتحان کٹھن ہے اور اس میں کامیابی اْن ہی افراد کو میسر آتی ہے جو سنجیدگی کے ساتھ منفی سوچ کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہیں۔
اس بِنا ہتھیاروں والی جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے جس عادت کو اپنانے کی انسان کو اشد ضرورت ہے اور جس کو اپنائے بغیر اْس کا سرخرو ہونا ناممکن ہے وہ اپنے پیارے خالق کی شکر گزاری ہے۔ شکرِ الٰہی اپنے ساتھ اطمینان لاتا ہے جو انسان میں خود اعتمادی پیدا کرتا ہے اور وہی خود اعتمادی انسان کی زندگی میں ٹہراؤ کا سبب بنتی ہے۔ایک بارکسی انسان کی زندگی میں ٹہراؤ آجائے تو پھر اْس کے اطراف میں نفسا نفسی کا طوفان کتنی بھی شدت سے ٹھاٹے مارے اْس کی سوچ کو منفی ڈگر پر کبھی نہیں دھکیل سکتا ہے۔
آپ کا موجودہ وقت اچھا ہے یا بْرا، حالات آپ کے حق میں ہیں یا آپ کے مخالف، زندگی آپ کی بنائی ہوئی منصوبہ بندی کے تحت گزر رہی ہے یا نہیں۔ آپ کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے شرفِ قبولیت بخشا جا رہا ہے یا واپس لوٹایا جا رہا ہے، اللہ تعالی سے مانگی گئی مطلوبہ شے آپ کی جھولی میں ڈالی جارہی ہے یا اْسے کسی اور کے نصیب میں لکھا جارہا ہے۔ آپ کو ہر حال میں صبر، شکر اور اْمید کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دینا ہے۔
انسان کو کامل یقین ہونا چاہیے کہ جو کچھ ربِ کائنات نے اْس کو عطا نہیں کیا ہے اور جو دے کر واپس لے لیا ہے اْس میں ضرور کوئی نہ کوئی مصلحت رہی ہوگی۔ صرف وہی پاک ذات غیب کا علم رکھتی ہے جو کسی طور انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہر بند دروازے کے پیچھے انسان کے لیے خیر ہے جس کا نہ کھلنا ہی اْس کے حق میں بہترین ہے۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کرم، فضل اور عطا کردہ ہر نعمت پر اْس پاک ذات کا شکر ادا کریں۔ ساتھ اس امر پر بھی اپنے اندر احساسِ تشکر پیدا کریں کہ ربِ کریم نے ہمیں بہت لوگوں سے بہتر اور کافی اچھے حال میں رکھا ہوا ہے۔
آخر میں ہمیں خالقِ حقیقی سے یہ اْمید رکھنی چاہیے کہ آج جو حالات ہمارے حق میں بہتر نہیں ہیں یا ہمارا کوئی فیصلہ ہماری مرضی اور منشا کے مطابق نتائج فراہم نہیں کر پا رہا ہے وہ آنے والے وقتوں میں ہمیں مایوس نہیں کرے گا۔ آج ہمارے اطراف میں اگرگھٹا ٹوپ اندھیرا پھیلا ہوا ہے تو ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ کل اسی تاریکی سے روشنی کی کرن ضرور نمودار ہوگی۔
دورِ حاضر کا انسان جب درج بالا تمام عادات و اطوار، اْمید اور یقین کو کْھلے دل کے ساتھ اپنی زندگی میں خوش آمدید کہے گا تب ہی وہ اپنے وجود سے منفی سوچ کی زہریلی جڑوں کو اْکھاڑکر باہر پھینکنے میں کامیاب ہوگا اور اْس کی زندگی جنتِ نظیرکا منظر پیش کرے گی۔