تاریخ سے معذرت
ہم سب خدا کے بندے ہیں بس طاقت کے نشے کے جھونکے میں بھی آتے ہیں تو پورا اپنا وجود ہی سلگا لیتے ہیں
تاج محل کی ساخت یعنی تاج جو مغل بادشاہوں کے محلات کی زینت بنا، اس کے بارے میں کچھ عجیب سی معلومات سامنے آئیں، ہو سکتا ہے کہ یہ غلط ہی ہو لیکن دلچسپ ضرور ہے اور اس کا تعلق مشہور فاتح امیر تیمور سے ہے۔
چنگیز خان کی نسل سے تیمور کا شوق بھی دنیا کو فتح کر لینے کا تھا اور یہ شوق بھی کیا عجیب تھا۔ موصوف سروں کو گراتے چلے گئے تھے۔ دمشق کو فتح کر لینے کے جنون میں بڑھے یہ 1401 کا زمانہ تھا، پہلی بار ناکام رہا لیکن دوسری بار قابو پا لیا اور پورے شہر کو لوٹ لیا، دمشق اس وقت ایک عظیم الشان مرکز تھا لیکن تیمور نے اسے جلا ڈالا۔
جب دمشق جل رہا تھا تو اسے شعلوں کے پس منظر میں ایک سفید گنبد پسند آگیا اور اس نے اس گنبد کا نقشہ تیار کروایا یہ گنبد دراصل ایک مزار پر تھا اور دور سے نظر آتا تھا۔ اس گنبد کی ساخت گول ابھری ہوئی جو اوپر کی جانب چوٹی پر ختم ہوتی تھی، یہ نمونہ تیموری نسل کو اتنا پسند آیا کہ اس کے بعد ہندوستان میں محلات اور تاج محل کے تاج میں بھی وہی نمونہ نظر آتا ہے۔
اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اصل خیال تو کسی اور کا تھا لیکن تیمور نے اسے اپنا کر اسے ترقی دی اور اس کی نسل نے اسے بڑھاوا دیا، روس میں بھی یہ انداز تعمیرات نظر آتا ہے۔تیمور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں ہاتھوں سے تلوار چلا سکتا تھا اور جب وہ سترہ برس کا تھا تو مسجد کے صحن میں علما کے قریب بیٹھ کر ان کے مباحثے سنتا تھا، جب کہ خطبے کے دوران سامعین کے سب سے پیچھے جہاں جوتے رکھے جاتے تھے وہاں جا کر بیٹھتا۔تیمور لنگ ذرا لنگڑا کر چلتا تھا، اس لیے تاریخ میں اسے تیمور لنگ کے نام سے پکارا گیا ہے۔
انھوں نے آپ بیتی لکھی جس سے اس کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو جاننے کا موقع ملا۔ چودہویں صدی میں دنیا سے کوچ کر جانیوالے تیمور لنگ کی یہ نادر کتاب ملکوں ملکوں کا سفر کرتی رہی یہاں تک کہ اسے فرانس کے ایک مصنف مارسیل بریون نے 1783 میں مرتب کیا اب اس کے دوبارہ لکھنے میں ہی ایسا ہے یا واقعی یوں ہی تھا لیکن کھوپڑیوں کے مینار بنا دینے والے امیر تیمور کی شہرت فاتح کیساتھ ساتھ اس کے دہشت سے بھرپور کارناموں کی وجہ بھی ہے۔
یہ شخصیت آج ظلم، جبر، کامیابی، تعمیرات اور ادب کے حوالے سے مختلف پہلو لیے نظر آتی ہے تو کہیں شکوک و شبہات شدت سے شور مچاتے ہیں۔ تاریخ کبھی حال بھی تھی، دھوئیں، آگ اور چیخوں سے بلکتے ماحول کی دہشت محسوس کرکے بھی انسان لرز اٹھتا ہے کہ وہ زمانہ کیسا خوفناک تھا۔ انسان کیسے زندگی بسر کرتے ہوں گے، وقت کیسے گزرتا ہوگا۔ آج اور خون کا کھیل کیسے انصاف کے تقاضوں کا بھرم رکھتا ہوگا۔ کچھ اور پیچھے جائیں ماضی کے ورقوں پر فرعون کی تصاویر ابھرتی ہے تو انسان ہلکان ہی ہوجاتا ہے ایک کے بعد ایک حالات، واقعات اور حادثات وقت کے صفحات پر اپنی مہر ثبت کرتے چلے جاتے ہیں۔
بات کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے انسان کیا چاہتا ہے اور کیا ہو جاتا ہے۔ دراصل انسان کے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں ہے وہ تو نیکی اور بدی کے حرفوں کا مسافر ہے۔ نیکی کا ساتھ تھامتا ہے تو اختیار کل کائنات کے مالک کیساتھ برکتوں میں ڈھلتے جاتے ہیں۔ بدی کو چمک دار سمجھ کر لپکتا ہے تو دماغ میں گھورے سے دوڑنا شروع ہو جاتے ہیں جو بجلی بن کر سارے وجود کو سلگا دیتے ہیں۔
قدرت نے انسان کو دونوں اختیار تھما دیے ہیں کہ اسے کیا کرنا ہے۔ مشکل نظر آنے والی نیکی یا آسان نظر آنیوالی بدی، اختیارات کی یہ جنگ اس قدر طویل ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو گرا کر حیوان کا روپ دھار لیتا ہے۔ لفظوں میں بیان کرنا اس قدر مشکل تھا کہ جس کیلئے اس قدر کی طویل تمہید بھی کم محسوس ہو رہی ہے۔
فیصل آباد کی اس شاہراہ پر ایک رکشہ آگ کے شعلوں میں لپٹا ہے شاید اس میں کوئی نفس بھی جل بھن رہا ہے اس بھڑکتے شعلوں سے گھرے رکشے سے ذرا دور ایک شخص بیٹھا ہے، ذرا غور سے دیکھیے وہ زندہ شخص آگ سے جھلسا ہوا ہے اس کے جسم کے حصے جلنے سے گلابی نظر آ رہے ہیں، وہ ایک نظر اس مجمع کی جانب دیکھتا ہے جن میں سے کوئی اس سارے حادثے کی ویڈیو بھی بنا رہا ہے، وہ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامتا ہے، مجبوری، بے بسی، بے کسی کی تصویر بنا ان خالی دل والوں کو دیکھتے شاید اپنے رب سے مخاطب ہو، گاڑیاں ، موٹرسائیکلیں اس آگ کے شعلوں سے بھڑکتے رکشے اس مدد کے متلاشی کو یکسر نظر انداز کرتے کچھ اجنبی نظروں سے دیکھتے، کچھ عجیب دکھ بھری نظروں سے لیکن کسی میں اتنی جرأت نہ تھی کہ اس بھڑکتے رکشے پر اپنے ہاتھوں سے ایک مٹھی مٹی کی ہی ڈال دیں کوئی آگے بڑھ کر اس آدمی کو تھام کر کسی رکشے، ٹھیلے پر ڈال کر ہی فوری طور پر اسپتال کی جانب دوڑے۔ وقت گزر گیا صفحات پر ان تمام افراد کے نام تحریر ہوگئے جو کچھ تو کر سکتے تھے پر کرنا ہی نہیں چاہا اور آنکھیں چرا کر گزر گئے۔
ہم سب اسی طرح گزرتے چلے جا رہے ہیں، آنکھیں چرا کر، کانوں میں روئیاں ٹھونس کر، اپنے اجلے کپڑوں کو داغوں سے بچاتے ہوئے، تاریخ کے اوراق پر سب تحریر ہوتا جا رہا ہے، اسے کوئی فرانس یا برطانیہ کا مصنف یا مورخ تحریر نہیں کرے گا کیونکہ تاریخ تو لوگ اپنی مرضی سے تبدیل بھی کر لیتے ہیں لیکن جن صفحات پر یہ تاریخ درج ہو رہی ہے وہاں کسی کی ہیرا پھیری کی جرأت بھی نہیں۔
تیمور لنگ نے ہندوستان کی تاریخ میں بہت کچھ خون سے بھی تحریر کیا ہے تو اس کے کچھ کارنامے یادگار بھی ہیں وہ بھی اپنے آپ کو خدا کا بندہ کہتا تھا لیکن کوشش تو اس کی بھی زمینی خدا بننے کی تھی۔ کبھی کسی گاؤں میں کہیں کسی تحصیل میں کہیں کسی روڈ پر تو کہیں کسی ٹرین پر سب امیر تیمور بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان کی بھلائی میں ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر تکرار کے بجائے مسکرا کر سوری کہہ دے، معذرت کر لے، ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لے۔ اس سے مسئلہ بڑھنے کے بجائے ختم ہو جاتا ہے۔ تھوڑا سا اپنے دلوں کو وسعت دیں مسکرا کر ہلکی سی آواز میں معذرت کر لینے سے سامنے والے کی آنکھوں میں بھی حیا کا رنگ ابھرتا ہے اور اگر سامنے والا صنف نازک ہو تو بات اور بھی حساس ہو جاتی ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں صنف نازک کو بہت عزت بھی دی جاتی ہے۔
ہم سب خدا کے بندے ہیں بس طاقت کے نشے کے جھونکے میں بھی آتے ہیں تو پورا اپنا وجود ہی سلگا لیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کل ہمارے ساتھ اور ہماری آنے والی نسلوں کیساتھ کیا ہوگا تاریخ ہمیں کس نام سے یاد رکھے گی۔ معذرت کرنے میں تھوڑی دقت تو ہوتی ہے لیکن یقین جانیے اس میں راحت بھی بہت ہے۔
چنگیز خان کی نسل سے تیمور کا شوق بھی دنیا کو فتح کر لینے کا تھا اور یہ شوق بھی کیا عجیب تھا۔ موصوف سروں کو گراتے چلے گئے تھے۔ دمشق کو فتح کر لینے کے جنون میں بڑھے یہ 1401 کا زمانہ تھا، پہلی بار ناکام رہا لیکن دوسری بار قابو پا لیا اور پورے شہر کو لوٹ لیا، دمشق اس وقت ایک عظیم الشان مرکز تھا لیکن تیمور نے اسے جلا ڈالا۔
جب دمشق جل رہا تھا تو اسے شعلوں کے پس منظر میں ایک سفید گنبد پسند آگیا اور اس نے اس گنبد کا نقشہ تیار کروایا یہ گنبد دراصل ایک مزار پر تھا اور دور سے نظر آتا تھا۔ اس گنبد کی ساخت گول ابھری ہوئی جو اوپر کی جانب چوٹی پر ختم ہوتی تھی، یہ نمونہ تیموری نسل کو اتنا پسند آیا کہ اس کے بعد ہندوستان میں محلات اور تاج محل کے تاج میں بھی وہی نمونہ نظر آتا ہے۔
اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اصل خیال تو کسی اور کا تھا لیکن تیمور نے اسے اپنا کر اسے ترقی دی اور اس کی نسل نے اسے بڑھاوا دیا، روس میں بھی یہ انداز تعمیرات نظر آتا ہے۔تیمور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں ہاتھوں سے تلوار چلا سکتا تھا اور جب وہ سترہ برس کا تھا تو مسجد کے صحن میں علما کے قریب بیٹھ کر ان کے مباحثے سنتا تھا، جب کہ خطبے کے دوران سامعین کے سب سے پیچھے جہاں جوتے رکھے جاتے تھے وہاں جا کر بیٹھتا۔تیمور لنگ ذرا لنگڑا کر چلتا تھا، اس لیے تاریخ میں اسے تیمور لنگ کے نام سے پکارا گیا ہے۔
انھوں نے آپ بیتی لکھی جس سے اس کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو جاننے کا موقع ملا۔ چودہویں صدی میں دنیا سے کوچ کر جانیوالے تیمور لنگ کی یہ نادر کتاب ملکوں ملکوں کا سفر کرتی رہی یہاں تک کہ اسے فرانس کے ایک مصنف مارسیل بریون نے 1783 میں مرتب کیا اب اس کے دوبارہ لکھنے میں ہی ایسا ہے یا واقعی یوں ہی تھا لیکن کھوپڑیوں کے مینار بنا دینے والے امیر تیمور کی شہرت فاتح کیساتھ ساتھ اس کے دہشت سے بھرپور کارناموں کی وجہ بھی ہے۔
یہ شخصیت آج ظلم، جبر، کامیابی، تعمیرات اور ادب کے حوالے سے مختلف پہلو لیے نظر آتی ہے تو کہیں شکوک و شبہات شدت سے شور مچاتے ہیں۔ تاریخ کبھی حال بھی تھی، دھوئیں، آگ اور چیخوں سے بلکتے ماحول کی دہشت محسوس کرکے بھی انسان لرز اٹھتا ہے کہ وہ زمانہ کیسا خوفناک تھا۔ انسان کیسے زندگی بسر کرتے ہوں گے، وقت کیسے گزرتا ہوگا۔ آج اور خون کا کھیل کیسے انصاف کے تقاضوں کا بھرم رکھتا ہوگا۔ کچھ اور پیچھے جائیں ماضی کے ورقوں پر فرعون کی تصاویر ابھرتی ہے تو انسان ہلکان ہی ہوجاتا ہے ایک کے بعد ایک حالات، واقعات اور حادثات وقت کے صفحات پر اپنی مہر ثبت کرتے چلے جاتے ہیں۔
بات کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے انسان کیا چاہتا ہے اور کیا ہو جاتا ہے۔ دراصل انسان کے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں ہے وہ تو نیکی اور بدی کے حرفوں کا مسافر ہے۔ نیکی کا ساتھ تھامتا ہے تو اختیار کل کائنات کے مالک کیساتھ برکتوں میں ڈھلتے جاتے ہیں۔ بدی کو چمک دار سمجھ کر لپکتا ہے تو دماغ میں گھورے سے دوڑنا شروع ہو جاتے ہیں جو بجلی بن کر سارے وجود کو سلگا دیتے ہیں۔
قدرت نے انسان کو دونوں اختیار تھما دیے ہیں کہ اسے کیا کرنا ہے۔ مشکل نظر آنے والی نیکی یا آسان نظر آنیوالی بدی، اختیارات کی یہ جنگ اس قدر طویل ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو گرا کر حیوان کا روپ دھار لیتا ہے۔ لفظوں میں بیان کرنا اس قدر مشکل تھا کہ جس کیلئے اس قدر کی طویل تمہید بھی کم محسوس ہو رہی ہے۔
فیصل آباد کی اس شاہراہ پر ایک رکشہ آگ کے شعلوں میں لپٹا ہے شاید اس میں کوئی نفس بھی جل بھن رہا ہے اس بھڑکتے شعلوں سے گھرے رکشے سے ذرا دور ایک شخص بیٹھا ہے، ذرا غور سے دیکھیے وہ زندہ شخص آگ سے جھلسا ہوا ہے اس کے جسم کے حصے جلنے سے گلابی نظر آ رہے ہیں، وہ ایک نظر اس مجمع کی جانب دیکھتا ہے جن میں سے کوئی اس سارے حادثے کی ویڈیو بھی بنا رہا ہے، وہ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامتا ہے، مجبوری، بے بسی، بے کسی کی تصویر بنا ان خالی دل والوں کو دیکھتے شاید اپنے رب سے مخاطب ہو، گاڑیاں ، موٹرسائیکلیں اس آگ کے شعلوں سے بھڑکتے رکشے اس مدد کے متلاشی کو یکسر نظر انداز کرتے کچھ اجنبی نظروں سے دیکھتے، کچھ عجیب دکھ بھری نظروں سے لیکن کسی میں اتنی جرأت نہ تھی کہ اس بھڑکتے رکشے پر اپنے ہاتھوں سے ایک مٹھی مٹی کی ہی ڈال دیں کوئی آگے بڑھ کر اس آدمی کو تھام کر کسی رکشے، ٹھیلے پر ڈال کر ہی فوری طور پر اسپتال کی جانب دوڑے۔ وقت گزر گیا صفحات پر ان تمام افراد کے نام تحریر ہوگئے جو کچھ تو کر سکتے تھے پر کرنا ہی نہیں چاہا اور آنکھیں چرا کر گزر گئے۔
ہم سب اسی طرح گزرتے چلے جا رہے ہیں، آنکھیں چرا کر، کانوں میں روئیاں ٹھونس کر، اپنے اجلے کپڑوں کو داغوں سے بچاتے ہوئے، تاریخ کے اوراق پر سب تحریر ہوتا جا رہا ہے، اسے کوئی فرانس یا برطانیہ کا مصنف یا مورخ تحریر نہیں کرے گا کیونکہ تاریخ تو لوگ اپنی مرضی سے تبدیل بھی کر لیتے ہیں لیکن جن صفحات پر یہ تاریخ درج ہو رہی ہے وہاں کسی کی ہیرا پھیری کی جرأت بھی نہیں۔
تیمور لنگ نے ہندوستان کی تاریخ میں بہت کچھ خون سے بھی تحریر کیا ہے تو اس کے کچھ کارنامے یادگار بھی ہیں وہ بھی اپنے آپ کو خدا کا بندہ کہتا تھا لیکن کوشش تو اس کی بھی زمینی خدا بننے کی تھی۔ کبھی کسی گاؤں میں کہیں کسی تحصیل میں کہیں کسی روڈ پر تو کہیں کسی ٹرین پر سب امیر تیمور بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان کی بھلائی میں ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر تکرار کے بجائے مسکرا کر سوری کہہ دے، معذرت کر لے، ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لے۔ اس سے مسئلہ بڑھنے کے بجائے ختم ہو جاتا ہے۔ تھوڑا سا اپنے دلوں کو وسعت دیں مسکرا کر ہلکی سی آواز میں معذرت کر لینے سے سامنے والے کی آنکھوں میں بھی حیا کا رنگ ابھرتا ہے اور اگر سامنے والا صنف نازک ہو تو بات اور بھی حساس ہو جاتی ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں صنف نازک کو بہت عزت بھی دی جاتی ہے۔
ہم سب خدا کے بندے ہیں بس طاقت کے نشے کے جھونکے میں بھی آتے ہیں تو پورا اپنا وجود ہی سلگا لیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کل ہمارے ساتھ اور ہماری آنے والی نسلوں کیساتھ کیا ہوگا تاریخ ہمیں کس نام سے یاد رکھے گی۔ معذرت کرنے میں تھوڑی دقت تو ہوتی ہے لیکن یقین جانیے اس میں راحت بھی بہت ہے۔