پرائیویسی

ایسا صرف ہمارے ملک میں نہیں ہوتا بلکہ دنیا بھر میں ہوتا ہے، اس معاملے میں کم ہی اخلاقیات کا خیال رکھا جاتا ہے


Shirin Hyder April 21, 2024
[email protected]

قسمت انسان کو کہاں کہاں لے جاتی ہے، ایسی ایسی جگہوں پر کہ جہاں کا کبھی سوچا تک نہیں ہوتا۔ انسان کا پیدا ہونا اور اس دنیا سے جانا بھی ایسے دو اعمال ہیں کہ جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

ایسا ہی واقعہ حال میں ہمارے ساتھ ہوا کہ جس سے حضرت علیؓ کے اس قول کے مستند ہونے کی ایک اور دلیل مل گئی کہ میں نے اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔

اپریل کی پانچ تاریخ کو اچانک بیٹی کی لاہور سے کال آئی اور ہم پچیسویں روزے کی سحری کر کے عازم لاہور ہوئے، جونہی ہم پہنچے تو بیٹی کو آپریشن تھیٹر لے جایا گیا اور اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی، وہ بچہ جسے مئی کے پہلے ہفتے میں آنا تھا اور اسلام آباد میں، ہمارا اندازہ اور منصوبہ جو بھی تھا، اب سارا عمل اللہ کے منصوبے پر ہونا تھا جس نے ہر جاندار کی پیدائش کا وقت اور مقام، لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ رمضان کے اواخر میں اتنی پیاری نعمت پا کر دل خوشی سے شاد تھا۔ عید بھی اس بار لاہور میں ہی ہونا نصیب میں تھی۔

اس بچے کی پیدائش کے بعد چند دن ایک پرائیویٹ ہسپتال میں رہنے کا اتفاق ہوا، وہ ہسپتال جسے ہم نے اس سے قبل دیکھا تک نہ تھا، نہ صرف ہم نے بلکہ ہمارے بچوں نے بھی نہیں جو کہ کئی سالوں سے لاہور میں رہتے ہیں۔ اس پر تو کئی اور کالم لکھے جا سکتے ہیں کہ ہسپتال کی حالت کیا تھی، اس وقت میرے ذہن میں کوئی اور نکتہ آیا ہے۔ وہاں دوسرا دن تھا جب مجھے کسی کے رونے کی آواز آئی، بلاک کا وہ کمرہ سامنے کی طرف تھا اور اس کی کھڑکی بالکل داخلی گیٹ کے سامنے جہاں پر ساری ایمبولینس وغیرہ مریض لے کر آتی ہیں یا جاتی ہیں۔

باہر کچھ لوگوں کا ایک گروپ کھڑا تھا، خاتون بین کر کر کے رو رہی تھی، اس کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا تھا، اس کا بیٹا یا داماد... وہ اسے ساتھ لگا کر تسلی دے رہا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اس کے سر پر برادرانہ شفقت کے ساتھ ہاتھ پھیر رہا تھا۔ دو تین مرد اور بھی کھڑے تھے۔ پھر ایک سٹریچر لایا گیا، اندازہ ہو گیا تھا کہ اس پر کوئی مریض نہیں تھا بلکہ ایک بے جان وجود تھا ، لگ رہا تھا کہ وہ کوئی خاتون تھی۔ اس خاتون کے ساتھ کھڑی ہوئی ایک نوجوان لڑکی نے سٹریچر پر پڑے وجود کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور اپنے فون سے اس کی دوچار تصاویر کھینچیں۔

میرے دل کو کچھ ہوا، میں نے خود کو اس سٹریچر پر پڑے بے جان وجود کی جگہ محسوس کیا۔مجھے یاد آیا کہ چند سال قبل ہمارے گاؤں میں ہمارے ایک عزیز کا انتقال ہوا، ہم بھی وہاں گئے اور مسلسل دیکھنے میں آیا کہ ان کے ہاں مووی بنانے والا میت کی وڈیو فلم بنا رہا تھا، ا س کے علاوہ بھی مرنے والے کی بیٹیاں اور بہوئیں فیس ٹائم پر اس کے بیٹوں کی مسلسل میت سے ''ملاقات'' کروا رہے تھے جو کہ پردیس میں تھے اور اپنے باپ کی میت کو کاندھا دینے کے لئے نہ آ سکے تھے، میت کو وڈیو کال میں دیکھ دیکھ کر بین کر کے رو رہے تھے۔

گاؤں میں تو لوگوں میں جہالت ہے اور انہیں کسی بات پر سمجھانا یوں ہی ہے کہ جیسے بھینس کے آگے بین بجائی جا رہی ہو مگر پڑھے لکھے اور بظاہر سمجھدار لوگ بھی کہاں پیچھے ہیں۔ شہر میں بھی ایک فوتیدگی میں جانا ہوا تو مرنے والی کے بیٹے میت کو فون پر بوسے دے رہے تھے، ماں سے معافیاں مانگ رہے تھے اور رو روکر کہہ رہے تھے کہ ماں ایک بار آنکھیں کھول کر ہمیں دیکھ تو لو۔

جب آپ کو ماں سے یا باپ سے بچھڑے ہوئے اور پردیس کے بکھیڑوں میں پھنس کر وطن واپس آنے کا وقت نہیں ملتا کہ اپنے پیاروں کو زندگی کے آخری چند برسوں میں ملنے کو آئیں تو پھر فیس ٹائم اور کالوں پر ایسارونا دھونا تو ہمیں تمہیں دکھانے کے لئے ہی ہوتا ہے نا۔میت کی تصاویر کھینچی جاتی ہیں، وڈیو بنائی جاتی ہیں، فیس ٹائم کیا جاتا ہے اور بسا اوقات میت کا چہرہ کسی بیماری کی وجہ سے ویسا نہیں رہتا جیسا کہ زندگی میں تھا، کسی کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیں اور اسی حالت میں اس کی وفات ہو جائے تو مرنے والے کا منہ بھی بند نہیں ہوتا، کبھی ناک اور کان یا منہ سے کسی وجہ سے خون بہہ رہا ہوتا ہے۔

ایسے میں کسی کی تصویر کھینچنا، اس کی اجازت کے بغیر... ہر گز مناسب نہیں۔ میں نے اسی طرح ایک موقعے پر کسی نوجوان بچی سے کہا ، ''بیٹا آپ نے اپنی دادی سے اجازت لی ہے کہ آپ ان کی تصویر بنا لیں؟'' حیرت سے بولی، '' دادی تو مر چکی ہیں، وہ کیسے اجازت دیں گی؟''

'' یہی تو میں کہنا چاہ رہی ہوں کہ جو شخص آپ کو اجازت دینے یا روکنے کا اختیار نہیں رکھتا، اس کی تصویر کیوں کھینچی جائے۔'' بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی اس لئے اس نے جان بوجھ کر کئی اور تصویریں کھینچیں، جیسے مجھے کہہ رہی ہو کہ... میری دادی، میری مرضی۔ یہی بات لاگو ہوتی ہے جب کوئی مریض یا مریضہ ہو، اسے علم بھی نہ ہو کہ آپ اس سے پوچھے بغیر اس کی تصاویر کھینچ رہے ہیں۔ ان تصاویر کا مقصد کیا ہوتا ہے اور اسے کس کے لئے کھینچا جا رہا ہوتا ہے، اس مریض کے لئے جو خود کو کبھی اس حالت میں دیکھنا نہیں چاہے گا یا دوسروں کو اس کی بے بسی دکھانے کے لئے ؟

کسی چھوٹے بچے کی تصویر بھی ایسی نہ لیں کہ جس سے اس کی بے پردگی ہوتی ہو، یہ سوچ کر کہ جب وہ بڑا ہو گا، جوان ہو گا تو آپ اسے اس کی وہ تصویر دکھا کر شرمندہ کریں گے۔ بچوں کو تو خود پر بالکل بھی اختیار نہیں ہوتا، اس لئے ان کی بے چارگی سے حظ نہ اٹھائیں۔ دوسروں کے بچوں کو پیار کریں اور آپ کا پیار یہی ہے کہ آپ ان کی کسی حالت میں تصویر نہ کھینچیں جو مناسب نہیں۔

ہم سب... میں اور آپ بھی اکثر ایسا کرتے ہیں کہ کسی مریض کی، کسی میت کی، کسی بچے کی تصویر لیتے ہیں تو ہمیں محسوس نہیں ہوتا کہ ہم ان کی پرائیویسی میں مداخلت کر رہے ہیں، مریض جب وہ ہوش میں نہ ہو، اس حالت میں نہ ہو کہ اس کی تصویر کھینچی جائے، وہ تکلیف میں ہو، اس کا لباس درست نہ ہو، اس کی کسی طور بے پردگی ہو رہی ہو یا وہ اس قابل ہوتا کہ بتا سکتا تو کہتا کہ میری تصویر مت کھینچو۔ اس تصویر کو کھینچنا اورکسی بھی ریکارڈ میں رکھنا اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میری تصویر کھینچ دو تو بھی آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ آپ اسے بتائیں کہ اگر اس کا لباس کہیں سے ٹھیک نہیں یا کوئی بھی اور مسئلہ۔

ان موضوعات پر اکثر ڈرامے اور فلمیں بھی بنتی ہیں کہ کسی نے کسی کے کمزور لمحے کی وڈیو بنائی اور صرف حظ اٹھانے کے لئے اور اسے شرمندہ کرنے کے لئے بے سوچے سمجھے وہ وڈیو اپ لوڈ کر دی۔ کسی کے پاس ایسی وڈیو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا، آپ چاہے سائبر کرائم والوں کو رپورٹ کردیں کہ وہ وڈیو انٹر نیٹ سے ہٹا دی جائے مگر وہ اتنے لوگوں تک پہنچ چکی ہوتی ہے، وہ دیکھ کر نہ صرف خودلطف اندوز ہوئے ہوتے ہیں بلکہ اسے کتنے ہی لوگوں کو آگے بھجوا چکے ہوتے ہیں۔

اسی طرح آج کل یہی غوغا کہ بچوں کی تصاویر اگر آپ کھینچ کر کسی بھی فورم پر لگاتے ہیں خواہ اس میں صرف آپ کا قریبی خاندان اور دوست ہی ہوں مگر اس تصویر کو ہیک کر کے غلط استعمال کرنے والوں کو آپ کہاں روک سکتے ہیں۔ جانے کس کس طرح تصاویر کو فوٹو شاپ کر لیا جاتا ہے یا اپنی مرضی کی کوئی بھی فضول سی ڈبنگ کر کے اسے کچھ سے کچھ بنا دیا جاتا ہے۔

ایسا صرف ہمارے ملک میں نہیں ہوتا بلکہ دنیا بھر میں ہوتا ہے، اس معاملے میں کم ہی اخلاقیات کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ چند لمحوں کے حظ کے لئے کسی کی حرمت کا خیال نہ رکھنا اور اس کی اجازت کے بغیر اس کی تصویر کو کسی بھی طرح استعمال کرنا، قطعی غیر اخلاقی ہے۔

اپنے گھروں میں بھی آپ جب کسی کی بھی تصویر کھینچنا چاہتے ہیں تو آپ پر فرض ہے کہ آپ سب کو متوجہ کریں اور بتائیں کہ آپ ان کی تصویر کھینچنا چاہتے ہیں، بلکہ اس کا اس سے بھی بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ پوچھ لیں کہ کیا میں آپ کی تصویر کھینچ سکتا ہوں/ سکتی ہوں؟ کچھ لوگ تصویر نہیں کھنچوانا چاہتے، کچھ اسے غیر اسلامی سمجھتے ہیں، کچھ کا خیال ہوتا ہے کہ ان کی تصویر اچھی نہیں آتی سو وہ تصویر کھنچوانا پسند نہیں کرتے۔

تصویر اگر آپ نے اجازت لے کر کھینچ لی ہے تو اسے کہاں اور کس کس فورم پر شئیر کرنا ہے اس کا خیال رکھنا بھی آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ تصویر کہیں شئیر کرنا ہو تو اسے پہلے غور سے دیکھیں، بسا اوقات پس منظر میں کھڑا کوئی شخص مناسب نہیں لگ رہا ہوتا، کبھی کبھار آپ جن کی تصویر کھینچتے ہیں ان کا دھیان کسی طرف سے چوک جاتا ہے اور ان کا دوپٹہ یا لباس کا کوئی اور حصہ درست نہیں آتا، اس تصویر کو ڈیلیٹ کر دیں، اپنے ریکارڈ کے لئے بھی نہ رکھیں۔

جس طرح کسی کا راز آپ کے پاس امانت ہوتا ہے، یہ بھی اسی طرح ہے کہ جیسے آپ نے کسی کے راز کی تشہیر کر دی۔ یہ ایک اخلاقی جرم ہے اور دلوںمیں کدورت پیدا کرتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں سے بچیں تا کہ بڑے بڑے جھگڑے نہ پیدا ہوں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں