من پسند ایجنڈا اور آئینی روک
عدالتی فیصلے سے قبل صحافتی تجزئیے اور مباحثے بہت سی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا کرتے ہیں
سپریم کورٹ کے حکم پر فیض آباد دھرنا کے اصل کرداروں کی نشاندہی کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کردہ تین رکنی کمیشن کی رپورٹ کے مختلف نکات گزشتہ دنوں اخبارات کی خبروں کی زینت بنے۔
ان خبروں کے نکات پر ہمارے قومی میڈیا پر اپنی پسند کے تجزیے اور تبصروں سے عوام کو درست صورتحال یا حقائق بتانے سے اب تک دورکی کوڑی لانے والے اینکر اور تجزیہ کار صرف ٹامک ٹوئیاں مارکر رہی سہی صحافتی سنجیدگی کو بھی رگیدنے کا خوب کام کررہے ہیں اور خواہشات کا تاثر دینے میں جتے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب عوام ان تبصروں اور تجزیوں سے بے اعتنائی برتتے ہوئے ان '' علامائوں'' کو مسلسل یہ احساس دلا رہے ہیں کہ وہ تنگ دستی اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہو کر کیوں ان کے بے سروپا اور خاص مشن کی تکمیل کے تجزیوں اور اینکری پر ان کا ساتھ دیں؟
عوام کی سیاسی اور ملک کے اعلی طبقاتی نظام میں عدم دلچسپی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ملک کے طاقتور طبقے کے مفادات کا ساتھ دینے والے صحافیوں یا تجزیہ کاروں کے ساتھ کم ازکم عوام نہیں کھڑے ہوتے ،کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ پچھتر برسوں میں مخصوص طبقات عوام کے سیاسی اور جمہوری حقوق کو مل بانٹ کر کسی نہ کسی بہانے ڈکار رہے ہیں اور عوام کو سیاسی شعور دینے کے مقابلے میں انہیں چند مفاد حاصل کرنے یا شخصیت کا پجاری کرنے میں مصروف ہیں، جس کا لازمی نتیجہ ملک میں اقتصادی گرائوٹ اور عوام کی معاشی، سیاسی اور اخلاقی ترقی کا نہ ہونا ہے، جس میں 80 کی دہائی کے بعد آنے والے خاص ایجنڈے کے صحافتی '' سورما '' اور ایک خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آمر جنرل مشرف کی ''الیکٹرانک میڈیائی آزادی'' کے متوالے ہیں جو آج عالیشان گاڑیوں کے علاوہ پر تعیش زندگی '' عوام کو حقوق'' کی قیمت پر گزار رہے ہیں۔
اس مر حلے پر عوام کا اہل صحافت سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ ''شہری آزادیوں کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنے والے جھونپڑ پٹی میں رہنے پر فاخر انسانی آزادی اور عوام کے جمہوری حقوق کی جدوجہد کرنے والے وہ صحافی کہاں ہیں ،جو قہرکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بغیر خوف '' عوام کے شہری اور سیاسی حقوق حاصل کرنے میں کبھی ایوانوں کے در کے رسیا نہ ہوئے'' دو وقت کی روٹی ملنے پر بھی شہری آزادیوں کے رسیا صحافی اپنے فرائض کی بجاآوری میں کھٹارا بسوں میں سفر کرنے یا خبر کی تلاش میں بھوک و پیاس سے بے پرواہ با پیادہ چلنے میں بھی صحافتی وقارکو قائم رکھتے تھے اور شہری تقریبات میں دعوتوں کے باوجود شریک ہونے سے گریز کرتے تھے کہ کہیں ان کا صحافتی وقار اور شخصیت متاثر نہ ہوجائے۔
فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ کے چند رپورٹ شدہ نکات پر رائی کا پہاڑ کرنے والے تجزیہ کار یا اینکر، کیوں اپنی پسند کا '' گمراہ کن'' پروپیگنڈہ کررہے ہیں یا اس سیاسی انتشار پسند صورتحال میں دھرنا کمیشن پر حتمی رائے یا فیصلہ کن تبصرہ آخر کارکس کو فائدہ پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں، اس کا جائزہ لینا اور عوام کے سامنے اصل صورتحال رکھنا ضروری ہے کہ نشر ہونے والی رپورٹ کے چند نکات کیا کہہ رہے ہیں یا کہ کمیشن کی مکمل رپورٹ سپریم کورٹ پہنچنے سے پہلے کیسے ان تبصرہ نگاروں تک پہنچ سکتی ہے جنہوں نے ''دھرنا کمیشن '' رپورٹ پر واویلا مچا رکھا ہے۔
مثال کے طور پر دھرنا کمیشن رپورٹ کے چند نکات جب منظر عام پر آئے تو ملک کے تمام اینکرز اور تجزیہ نگاروں نے جو کہا وہ متعلقہ رپورٹ میں کہیں نہیں لکھا ۔ سوال یہ ہے کہ اینکرز اور تجزیہ کار پھر صرف تاثر کی بنا پر یا کسی مخصوص ایجنڈے کی تکمیل میں '' کلین چٹ،کلین چٹ'' کا شور و غوغا کیوں کر رہے؟
دوم کہ کمیشن رپورٹ میں تفصیل سے ذکرکیا گیا ہے کہ سول انتظامیہ میں ایجنسیزکا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے ، لٰہذا ملک کی ایجنسیز کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ دھرنا کمیشن کی رپورٹ کے شائع شدہ نکات کی روشنی میں یہ بات کیونکر منظر عام یا تواتر کے ساتھ نہیں دھرائی گئی کہ جو رپورٹ سپریم کورٹ میں حتمی فیصلے کی منتظر ہے، اس پر فیصلے سے پہلے حتمی نتیجہ کس طرح نکالا جا سکتا ہے ۔
ہمارے مہان اینکرز حضرات نے یہ سوال تجزیہ کاروں کے سامنے کیوں نہ رکھا کہ غیر آئینی اقدامات کا کوئی بھی مجرم ہو اسے آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لانے سے یہ ریاست، اس کے طاقتور عناصر یا ملک کی سیاسی قوتیں کیوں زور نہیں دیتی، ان وجوہات کو کیسے تلاش یا ختم کیا جا سکتا ہے جو ملک کے آئینی و جمہوری نظام کو بار بار نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں؟
فیض آباد دھرنے کے مشکوک اور ملوث حضرات کو رپورٹ کے مندرجات بچاتے ہیں یا نہیں، یہ بات تو سپریم کورٹ کے معزز جج طے کریں گے، مگر سپریم کورٹ اس بات کی ضرور مجاز ہے کہ اگر ملک کا کوئی وزیراعظم اپنے ماتحت کو غیر آئینی حکم دے اور اس غیر آئینی حکم کو ادارے کا کوئی فرد مان کر آئین شکنی کا مرتکب ہوجائے تو ان دو یا اس سے زیادہ آئین شکنی کرنے والوں کی سزا کیا ہونی چاہیے؟
جب کسی کمیشن پر بے لاگ اور غیر منطقی تبصرے ہونے لگیں تو اس سے یہ تاثر پیدا ہونا یقینی امر ہوتاہے کہ میڈیا کے ایسے متعلقہ افراد بھی اقتدارکے بالا طبقات کے '' مٹی پائو'' قسم کے ارادوں کو تقویت دے کر عوام میں آئین اور قانون کو بے اثر کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ اس ساری غیر سیاسی،ِ غیر سنجیدہ اور غیرآئینی سوچ کو نہایت سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے آئین کے تحفظ کی سب سے بڑی ضامن سپریم کورٹ ہی ہے، جو ملک کو انتشار سے بچانے کے علاوہ طاقتوروں کے من پسند ایجنڈے پر آئینی روک لگا سکتی ہے یا سخت قانون سازی کا حکم دے سکتی ہے۔
جب تک عدالت مکمل فیصلہ نہ دے دے تب تک اس پر عوامی یا میڈیا کی سطح پر بحث کرنے اور من مانے نتائج اخذ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عدالتی فیصلے سے قبل صحافتی تجزئیے اور مباحثے بہت سی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا کرتے ہیں۔یہاں کچھ افراد کو خود کو بڑا دانشور اور تجزیہ نگار ثابت کرنے کا جنون ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے تجزئیے اور تبصرے ہی فائنل قوت ہیں اور تمام معاملات ان کے اخذ کردہ تجزئیوں کے مطابق ہی چلنے چاہیے۔ایسے نام نہاد دانشور بہت سے مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔عدالتی فیصلوں کا ہر ممکن احترام کیا جانا ناگزیر ہے اور کسی بھی قوت کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہو۔
ان خبروں کے نکات پر ہمارے قومی میڈیا پر اپنی پسند کے تجزیے اور تبصروں سے عوام کو درست صورتحال یا حقائق بتانے سے اب تک دورکی کوڑی لانے والے اینکر اور تجزیہ کار صرف ٹامک ٹوئیاں مارکر رہی سہی صحافتی سنجیدگی کو بھی رگیدنے کا خوب کام کررہے ہیں اور خواہشات کا تاثر دینے میں جتے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب عوام ان تبصروں اور تجزیوں سے بے اعتنائی برتتے ہوئے ان '' علامائوں'' کو مسلسل یہ احساس دلا رہے ہیں کہ وہ تنگ دستی اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہو کر کیوں ان کے بے سروپا اور خاص مشن کی تکمیل کے تجزیوں اور اینکری پر ان کا ساتھ دیں؟
عوام کی سیاسی اور ملک کے اعلی طبقاتی نظام میں عدم دلچسپی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ملک کے طاقتور طبقے کے مفادات کا ساتھ دینے والے صحافیوں یا تجزیہ کاروں کے ساتھ کم ازکم عوام نہیں کھڑے ہوتے ،کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ پچھتر برسوں میں مخصوص طبقات عوام کے سیاسی اور جمہوری حقوق کو مل بانٹ کر کسی نہ کسی بہانے ڈکار رہے ہیں اور عوام کو سیاسی شعور دینے کے مقابلے میں انہیں چند مفاد حاصل کرنے یا شخصیت کا پجاری کرنے میں مصروف ہیں، جس کا لازمی نتیجہ ملک میں اقتصادی گرائوٹ اور عوام کی معاشی، سیاسی اور اخلاقی ترقی کا نہ ہونا ہے، جس میں 80 کی دہائی کے بعد آنے والے خاص ایجنڈے کے صحافتی '' سورما '' اور ایک خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آمر جنرل مشرف کی ''الیکٹرانک میڈیائی آزادی'' کے متوالے ہیں جو آج عالیشان گاڑیوں کے علاوہ پر تعیش زندگی '' عوام کو حقوق'' کی قیمت پر گزار رہے ہیں۔
اس مر حلے پر عوام کا اہل صحافت سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ ''شہری آزادیوں کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنے والے جھونپڑ پٹی میں رہنے پر فاخر انسانی آزادی اور عوام کے جمہوری حقوق کی جدوجہد کرنے والے وہ صحافی کہاں ہیں ،جو قہرکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بغیر خوف '' عوام کے شہری اور سیاسی حقوق حاصل کرنے میں کبھی ایوانوں کے در کے رسیا نہ ہوئے'' دو وقت کی روٹی ملنے پر بھی شہری آزادیوں کے رسیا صحافی اپنے فرائض کی بجاآوری میں کھٹارا بسوں میں سفر کرنے یا خبر کی تلاش میں بھوک و پیاس سے بے پرواہ با پیادہ چلنے میں بھی صحافتی وقارکو قائم رکھتے تھے اور شہری تقریبات میں دعوتوں کے باوجود شریک ہونے سے گریز کرتے تھے کہ کہیں ان کا صحافتی وقار اور شخصیت متاثر نہ ہوجائے۔
فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ کے چند رپورٹ شدہ نکات پر رائی کا پہاڑ کرنے والے تجزیہ کار یا اینکر، کیوں اپنی پسند کا '' گمراہ کن'' پروپیگنڈہ کررہے ہیں یا اس سیاسی انتشار پسند صورتحال میں دھرنا کمیشن پر حتمی رائے یا فیصلہ کن تبصرہ آخر کارکس کو فائدہ پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں، اس کا جائزہ لینا اور عوام کے سامنے اصل صورتحال رکھنا ضروری ہے کہ نشر ہونے والی رپورٹ کے چند نکات کیا کہہ رہے ہیں یا کہ کمیشن کی مکمل رپورٹ سپریم کورٹ پہنچنے سے پہلے کیسے ان تبصرہ نگاروں تک پہنچ سکتی ہے جنہوں نے ''دھرنا کمیشن '' رپورٹ پر واویلا مچا رکھا ہے۔
مثال کے طور پر دھرنا کمیشن رپورٹ کے چند نکات جب منظر عام پر آئے تو ملک کے تمام اینکرز اور تجزیہ نگاروں نے جو کہا وہ متعلقہ رپورٹ میں کہیں نہیں لکھا ۔ سوال یہ ہے کہ اینکرز اور تجزیہ کار پھر صرف تاثر کی بنا پر یا کسی مخصوص ایجنڈے کی تکمیل میں '' کلین چٹ،کلین چٹ'' کا شور و غوغا کیوں کر رہے؟
دوم کہ کمیشن رپورٹ میں تفصیل سے ذکرکیا گیا ہے کہ سول انتظامیہ میں ایجنسیزکا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے ، لٰہذا ملک کی ایجنسیز کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ دھرنا کمیشن کی رپورٹ کے شائع شدہ نکات کی روشنی میں یہ بات کیونکر منظر عام یا تواتر کے ساتھ نہیں دھرائی گئی کہ جو رپورٹ سپریم کورٹ میں حتمی فیصلے کی منتظر ہے، اس پر فیصلے سے پہلے حتمی نتیجہ کس طرح نکالا جا سکتا ہے ۔
ہمارے مہان اینکرز حضرات نے یہ سوال تجزیہ کاروں کے سامنے کیوں نہ رکھا کہ غیر آئینی اقدامات کا کوئی بھی مجرم ہو اسے آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لانے سے یہ ریاست، اس کے طاقتور عناصر یا ملک کی سیاسی قوتیں کیوں زور نہیں دیتی، ان وجوہات کو کیسے تلاش یا ختم کیا جا سکتا ہے جو ملک کے آئینی و جمہوری نظام کو بار بار نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں؟
فیض آباد دھرنے کے مشکوک اور ملوث حضرات کو رپورٹ کے مندرجات بچاتے ہیں یا نہیں، یہ بات تو سپریم کورٹ کے معزز جج طے کریں گے، مگر سپریم کورٹ اس بات کی ضرور مجاز ہے کہ اگر ملک کا کوئی وزیراعظم اپنے ماتحت کو غیر آئینی حکم دے اور اس غیر آئینی حکم کو ادارے کا کوئی فرد مان کر آئین شکنی کا مرتکب ہوجائے تو ان دو یا اس سے زیادہ آئین شکنی کرنے والوں کی سزا کیا ہونی چاہیے؟
جب کسی کمیشن پر بے لاگ اور غیر منطقی تبصرے ہونے لگیں تو اس سے یہ تاثر پیدا ہونا یقینی امر ہوتاہے کہ میڈیا کے ایسے متعلقہ افراد بھی اقتدارکے بالا طبقات کے '' مٹی پائو'' قسم کے ارادوں کو تقویت دے کر عوام میں آئین اور قانون کو بے اثر کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ اس ساری غیر سیاسی،ِ غیر سنجیدہ اور غیرآئینی سوچ کو نہایت سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے آئین کے تحفظ کی سب سے بڑی ضامن سپریم کورٹ ہی ہے، جو ملک کو انتشار سے بچانے کے علاوہ طاقتوروں کے من پسند ایجنڈے پر آئینی روک لگا سکتی ہے یا سخت قانون سازی کا حکم دے سکتی ہے۔
جب تک عدالت مکمل فیصلہ نہ دے دے تب تک اس پر عوامی یا میڈیا کی سطح پر بحث کرنے اور من مانے نتائج اخذ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عدالتی فیصلے سے قبل صحافتی تجزئیے اور مباحثے بہت سی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا کرتے ہیں۔یہاں کچھ افراد کو خود کو بڑا دانشور اور تجزیہ نگار ثابت کرنے کا جنون ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے تجزئیے اور تبصرے ہی فائنل قوت ہیں اور تمام معاملات ان کے اخذ کردہ تجزئیوں کے مطابق ہی چلنے چاہیے۔ایسے نام نہاد دانشور بہت سے مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔عدالتی فیصلوں کا ہر ممکن احترام کیا جانا ناگزیر ہے اور کسی بھی قوت کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہو۔