ہزار حمد ایک منفرد اضافہ
شاعر علی شاعر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُنھوں نے ایک نیک کام انجام دیا ہے
شاعر علی شاعرکی ایک اورکاوش منظرِ عام پر آگئی ہے۔ ایک ہزار شعراء کی ایک ہزار حمدوں کا انتخاب ''ہزار حمد'' کے نام سے شائع ہوگیا ہے جو 1072 صفحات پر مشتمل ہے۔
شاعر علی شاعر کے کریڈٹ میں ایسی متعدد کتابیں ہیں جنھوں نے دنیائے اُردو ادب میں نام پیدا کیا ہے اور ادب کے دامن کو مالامال کیا ہے۔ شاعر علی شاعر کا اکثر کام تاریخ ِ اُردو ادب کا حصہ بھی بنا ہے۔ یہ کتاب آج تک شائع ہونے والی کتابوں میں حمد کا سب سے ضخیم انتخاب ہے جو حمدیہ و نعتیہ ادب میں ایک طویل مدت یاد رکھا جائے گا اور ایک عالم کو تا دیر منور کرتا رہے گا۔
زاہد رشید کا مقدمہ پیشِ خدمت ہے جو اس کتاب اور مرتبِ کتاب کا بھرپور تعارف ہے۔ اسلام کا تصورِ خدا، وحدانیت پر مبنی ہے۔ ایک کامل اور اکمل رب، ذاتی نام اللہ، دیگر صفاتی نام ہیں۔ یہ نام بہ ذاتِ خود عظیم ہے۔ نہ اُس کی جمع ہے، نہ اُس کی مؤنث۔ یہ کسی فرد کا نام بھی نہیں ہوسکتا۔ اللہ کے ذاتی و صفاتی نام بغیر '' عبد'' لگائے نہیں رکھے جاسکتے۔ گویا اللہ کے ناموں میں بھی عظمت پوشیدہ ہے، خصوصاً اللہ میں۔ اللہ مکمل ہے۔ یکتا ہے۔ پاک اور بے عیب ہے ، ربوبیت میں، اسماء میں، صفات میں، حکم میں ( کن فیکون، وہ کہتا ہے ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے) اور عبادت میں۔ اُس کے علاوہ کوئی بھی لائقِ عبادت و پرستش نہیں۔ نہ اُس کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہے، نہ پکارنا جائز ہے۔
اسلام کی خاصیت، انفرادیت، برتری یہ ہے کہ اسلام دنیا میں پائے جانے والے ایک سے زائد خدا کے تمام تصورات، عقائد اور نظریات کی تردیدکرتا ہے۔ دلائل و برہان سے عقیدہ وحدانیت کو ثابت کرتا ہے اور لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ عقیدہ توحیدکا یہ تصور انسان کی فطرت اور نفسیات ہی نہیں بلکہ اس کے اعلیٰ مقام و مرتبے اور تمام مخلوقات پر برتری کے عین مطابق ہے۔
جدید سائنسی نظریات کے حوالے سے بھی عقیدۂ توحید کی تصدیق ہوتی ہے۔ اسلام کامل غور و فکر اور تفکر و تدبرکو ہی نجات کا ذریعہ بتاتا ہے۔ حق کی تلاش اسی صورت مکمل ہوسکتی ہے کہ اس ذات واحد کو پالیا جائے جو اس کائنات کا تنہا خالق و مالک ہے۔ انسانوں کا رب ہے۔ معبود حقیقی ہے اور جو اِس کائنات کے خاتمے کے بعد بھی تنہا مالک و مختار ہوگا، وہ کل بھی رب الاعلیٰ تھا اور وہ کل بھی رب الاعلیٰ رہے گا۔ تنہا مالک و مختار۔کسی سانجھی و شریک کے بنا۔
اُردو شاعری میں حمد و مناجات کہنے کا سلسلہ کم رہا ہے۔ تقسیمِ برصغیر کے بعد خصوصاً حمد و نعت کی طرف توجہ دی گئی، مگر اس میں بھی '' حمد گو'' شاعر کی اصطلاح آپ نے کبھی نہیں سنی ہوگی، مگر نعت گو شاعرکی اصطلاح بے حد مقبول ہے۔ حمد، عبادت کے درجے پر ہونے کے باوجود ہمارے قدیم شعرا اور دورِ حاضر کے بیشتر شعرا کی توجہ حاصل نہ کرسکی۔ جب کہ ہمارے سامنے قرآن، اللہ کا حکم اور سورۂ فاتحہ موجود ہے۔
سورۂ فاتحہ حمد و مناجات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ اُردو حمد نگاری کی ابتدا سے متعلق وثوق سے کچھ کہنا تو محققین کوہی زیب دیتا ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ حمد اُردو زبان و ادب کے آغاز سے ہی جاری وساری ہے خواہ برکت کے طور پر چند شعر ( یا ایک شعر) ہی کیوں نہ ہو شامل دیوان ضرور ہوتے تھے۔ قصیدوں اور مثنویوں کی ابتدا میں بطور خاص حمدیہ اشعار شامل ہوتے تھے۔
طاہر سلطانی اپنی کتاب '' اُردو حمد کا ارتقا'' میں لکھتے ہیں۔ '' اُردو میں سب سے پہلی حمد لکھنے کا اعزاز فخر الدین نظامی کو حاصل ہوا۔ اُردو کی پہلی مثنوی '' قدم رائو پدم رائو'' 1421ء سے 1435ء کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی۔ اس مثنوی کا آغاز حمدِ باری تعالیٰ سے ہوتا ہے۔''
'' دیوانِ ایزدی'' (اشاعت 1881ء) مفتی محمد سرور لاہوری کا حمدیہ مجموعہ ہے۔ اب تک اسے ہی اوّل حمدیہ مجموعہ سمجھا جاتا تھا، مگر حال ہی میں فرقان ادریسی کا مجموعہ حمد '' ثنائے رب عظیم'' شائع ہوا ہے جس میں طاہر سلطانی لکھتے ہیں۔
'' تازہ تحقیق کے مطابق سعدیہ جعفر نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے '' برصغیر میں حمد و مناجات'' میںلکھا ہے کہ اُردو میں اوّل حمدیہ مجموعہ '' حمد و مناجات'' ہندی شاعرکنہیا لال ہندی (لاہوری) اشاعت 1873ء ہے۔''
شاعر علی شاعر کے کام کے جذبے نے اُنھیں اسی پر اکتفا نہیں کرنے دیا اور اُنھوں نے خود ایک حمدیہ انتخاب کر ڈالا۔ اس انتخاب کے لیے اُنھوں نے یہ پابندی اختیارکی کہ حمد غزل کی ہیئت میں ہوگی۔ ہر حمد کے سات اشعار شامل کیے جائیں گے۔ المختصر شاعر علی شاعر نے تمام ریکارڈ توڑ کر ایک ہزار شعرا کی ایک ہزار حمد کا انتخاب کیا ہے جو کہ ایک حیرت انگیز انتخاب ہے۔ یہ ایک کارنامہ ہے اور شاید اب کسی اور سے ایسا انتخاب کرنا ممکن نہ ہو۔
شاعر علی شاعر، حمد کے صاحبِ مجموعہ شاعر، ناقد اور پبلشر ہیں۔ ان تین صفت کی یکجائی اس بات کی گواہ ہے کہ یہ حمدیہ انتخاب ''ہزار حمد'' شعرا، محققین اور قارئین کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہوگا۔ ایک ہزار شعرا کے ایک ہزار حمدیہ کلام اور پھر اتنی ضخیم کتاب کی اشاعت ایک نہیں دو کارنامے تصور ہوں گے۔
شاعر علی شاعر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُنھوں نے ایک نیک کام انجام دیا ہے۔ '' ہزار حمد'' کی تالیف جیسا کام دنیا میں ایک بڑی کامیابی کے ساتھ ان کے لیے توشۂ آخرت بھی ثابت ہوگا۔ اُردو حمد نگاری کی تاریخ میں یہ ایک منفرد کام کی حیثیت سے سنہرے حرف سے لکھا جائے گا اور تا دیر یاد رکھا جائے گا۔