بلوچستان میں امن ومکالمے کی ضرورت
لوگوں میں خوشحالی آئے گی تو ان کی وفاق سے شکایات بھی ختم ہوتی جائیں گی
بلوچستان قدرتی ومعدنی وسائل سے مالامال اور اسٹرٹیجک طور پر نہایت اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔
سی پیک کے آغاز سے اس کی خطے میں اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، بلوچستان پاکستان کی ترقی کا گیٹ وے ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں پرپاکستان کے دشمن ممالک نے بھی اپنی سازشوں کا جال بچھایا ہوا ہے، صوبہ جن مسائل سے دوچار ہے وہ اظہر من الشمس ہیں۔
اس دل کش خطے کے بار بار سلگنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمراں طبقوں نے اسے مسلسل نظرانداز کیا،پاکستان میں عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت قائم ہوچکی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ وفاقی حکومت نے سن دوہزار آٹھ سے تیرہ تک آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کا آغاز کیا تھا، ایک بار پھر ملک کے ہر فرد کی یقینا یہ خواہش ہو گی کہ بلوچستان میں امن قائم ہو، بلوچستان کے عوام دستیاب ذرائع سے اپنی صلاحیتوں کے مطابق فائدہ اٹھاسکیں۔
بلوچستان کے عوام ایک ایسی جنگ میں پس رہے ہیں کہ جس میں وہ شامل نہیں، گزری دو دہائیوں کے دوران دنیا کے لوگوں و ممالک نے ذاتی و اجتماعی حوالے سے جو ترقی کی ہے، اُن سے آج کا ہر شخص تقریباََ واقف ہے۔ اور اس دوران جو مواقعے بلوچستان میں امن کی خراب صورتحال کے باعث ضائع ہوئے ہیں، وہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں۔ درحقیقت صورتحال کو بگاڑنے والے نہ صرف امن کے عمل کو تباہ کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے سرپرستوں کو بھی ناکام بناتے ہیں اور مفاہمت اور ہم آہنگی کی کسی بھی کوشش کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔
دیرینہ شکایات کے باعث بلوچستان کی بڑھتی ہوئی بے اطمینانی نے مصالحت کی بار بار کی جانے والی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ ریاستی ادارے بحران سے نمٹنے کے لیے بہت سے اقدامات کر رہے ہیں جن میں عام معافی بھی شامل ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرناضروری ہے کیونکہ اپنے پیاروں کی گمشدگی پر احتجاج کرنے والے بلوچ خاندان گمشدگیوں کے خاتمے اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے سوا کچھ نہیں مانگتے۔
مختلف حکومتوں نے مختلف اقدامات اور کمیشنوں کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ عدالتوں نے بھی نوٹس لیا ہے، لیکن ان چیلنجوں کا کوئی حتمی حل اب بھی ممکن نہیں۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی حقوق کا ایک سنگین بحران بن چکا ہے۔ کیا ہوتا اگر بلوچ مظاہرین کے لیے مذاکرات کے دروازے کھل جاتے۔کیا یہ کئی دہائیوں سے شورش، دہشت گردی، خراب طرز حکمرانی اور معاشی بحران کا شکار صوبے کے لیے اعتماد سازی کا خاطر خواہ اقدام نہیں ہوتا؟
بلوچستان ملکی تاریخ میں کئی بار خراب حالات اور پرتشدد صورت حال سے دوچار رہا ہے۔ اگر اپنی سیاسی ضرورتوں کے لیے نوازا بھی گیا تو اس صوبے کی طاقتور شخصیات کو، لیکن بلوچستان کے افلاس زدہ عوام کی زندگی بہتر بنانے اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے کم کم ہی کچھ کیا گیا۔
فرسودہ خیالات جنھیں ترقی یافتہ دنیا سالوں پہلے ترک کر چکی ہے، تعلیم یافتہ لوگوں کے قتل کا سبب بھی یہی فرسودہ خیالات ہیں۔ ہزاروں ٹیچرز اور ڈاکٹرز، جن کا تعلق بلوچ سوسائٹی سے بھی تھا اور دوسروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد بھی اس فہرست میں شامل ہیں، انہی فرسودہ سوچ رکھنے والوں کی اندھی نفرت کا نشانہ بنے ہیں۔ اغوا و قتل کی وجہ سے بلوچستان میں سیاسی عمل شدید متاثر ہوا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ان کے خدشات، تحفظات اور غلط فہمیاں دور کر کے اور اس مقصد کے لیے خاطرخواہ اقدامات یقینی بنا کر انھیں قومی دھارے میں لائیں۔ اس وقت جب افغانستان کے حالات بے یقینی کا شکار ہیں اور ہمارے اس ہمسائے ملک کے حوالے سے مختلف اندیشے سر اٹھائے کھڑے ہیں، ہمیں ملک کے اندر مکمل امن وامان اورسیکیورٹی کے معاملات کو مزید بہتر بنانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
ایسے میں بلوچستان کی صورت حال اسی مفاہمت اور بات چیت کے ذریعے مسئلے حل کرنے کے عمل کا تقاضا کر رہی ہے جس کے لیے وزیراعظم شہبازشریف اور صدرمملکت آصف علی زرداری نے قدم بڑھا دیا ہے۔دعا ہے کہ یہ قدم تیزرفتاری سے اپنا سفر طے کریں اور تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے بلوچستان کو امن کی منزل تک لے جائیں۔
بلوچستان کی محرومی دور کرنے کیلئے ایک قومی مکالمے کیلئے مناسب ترین جگہ بلوچستان ہی ہے تاکہ بے چینی کا شکار نوجوانوں کو اس مکالمے میں شامل کیا جائے، ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان کے یہ باصلاحیت افراد ملک بھر سے ایسے دانشوروں کو اکٹھا کرینگے جو صرف ملک اور ریاست پر بات کریں۔ ریاستی ادارے ان کی گفتگو پر کان دھریں۔ پالیسی معاملات پر وہ سب کو رہنمائی مہیا کریں،یہ کام سیاسی رہنما ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔
بلوچستان میں نہ صرف پائیدار اور مستقل امن ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے بلکہ اس صوبے کی ترقی اور خوشحالی بھی ملک و قوم کے مستقبل کے لیے لازمی ہے۔ بلوچستان کے ناراض عناصر بھی ہمارے اپنے لوگ ہیں۔بلوچستان کے وسائل کی بہتر استعمال کے لئے لازم ہے کہ وہاں کے لوگوں کو ہنر سکھائے جائیں ،انھیں ٹیکنیکل تعلیم دی جائے، لوگوں کو کسی بھی شعبے میں جتنی مہارت حاصل ہو گی صوبہ اتنا ہی ترقی کرے گا اور روزگار کے اتنے ہی زیادہ مواقع پیدا ہوں گے۔
وہاں موجود سرداری نظام بھی صوبے کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، سردار اپنے علاقے میں ترقیاتی کام نہیں ہونے دیتے،وہ لوگوں کو غریب، بے ہنر اور جاہل رکھنا چاہتے ہیں۔ لوگ جتنے زیادہ جاہل اور پسماندہ ہوں گے سردار نظام اتنا ہی مضبوط ہو گا۔لہذا سرداری نظام کی بقا اسی میں ہے کہ وہاں کے لوگ جاہل اور پسماندہ رہیں۔ وہاں موجود ایک گروپ لوگوں کے ذہنوں میں وفاق کیخلاف زہر انڈیلتا رہتا ہے،اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کے صوبے کی بدحالی کا ذمہ دار وفاق ہے، یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے لوگوں میں صوبائیت کا زہر پھیلاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ وفاق کی طرف سے ایک بڑا بجٹ صوبے کو ملتا ہے ،جس کا ایک بڑا حصہ وہاں کی صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔اگر وہاں کرپشن کو روکا جائے اور بجٹ کا درست استعمال کی جائے تو صوبے میں ترقی کا عمل دوگنا زیادہ ہو جائے گا۔
لوگوں میں خوشحالی آئے گی تو ان کی وفاق سے شکایات بھی ختم ہوتی جائیں گی، دوسرا وہاں موجود سرداری نظام کا خاتمہ کیا جائے، ترقی کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ یہی سردار ہیں۔جن کی ایک تعداد اقتدار میں آجاتی ہے اور یہ اپنے علاقے میں ترقیاتی کام نہیں ہونے دیتے اور اپنے علاقے میں ترقیاتی کام کے نام پرفنڈ حاصل کرکے اسے ہڑپ کر جاتے ہیں اور وفاق کے خلاف غلط اور نفرت انگیز پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔
سی پیک کے آغاز سے اس کی خطے میں اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، بلوچستان پاکستان کی ترقی کا گیٹ وے ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں پرپاکستان کے دشمن ممالک نے بھی اپنی سازشوں کا جال بچھایا ہوا ہے، صوبہ جن مسائل سے دوچار ہے وہ اظہر من الشمس ہیں۔
اس دل کش خطے کے بار بار سلگنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمراں طبقوں نے اسے مسلسل نظرانداز کیا،پاکستان میں عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت قائم ہوچکی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ وفاقی حکومت نے سن دوہزار آٹھ سے تیرہ تک آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کا آغاز کیا تھا، ایک بار پھر ملک کے ہر فرد کی یقینا یہ خواہش ہو گی کہ بلوچستان میں امن قائم ہو، بلوچستان کے عوام دستیاب ذرائع سے اپنی صلاحیتوں کے مطابق فائدہ اٹھاسکیں۔
بلوچستان کے عوام ایک ایسی جنگ میں پس رہے ہیں کہ جس میں وہ شامل نہیں، گزری دو دہائیوں کے دوران دنیا کے لوگوں و ممالک نے ذاتی و اجتماعی حوالے سے جو ترقی کی ہے، اُن سے آج کا ہر شخص تقریباََ واقف ہے۔ اور اس دوران جو مواقعے بلوچستان میں امن کی خراب صورتحال کے باعث ضائع ہوئے ہیں، وہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں۔ درحقیقت صورتحال کو بگاڑنے والے نہ صرف امن کے عمل کو تباہ کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے سرپرستوں کو بھی ناکام بناتے ہیں اور مفاہمت اور ہم آہنگی کی کسی بھی کوشش کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔
دیرینہ شکایات کے باعث بلوچستان کی بڑھتی ہوئی بے اطمینانی نے مصالحت کی بار بار کی جانے والی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ ریاستی ادارے بحران سے نمٹنے کے لیے بہت سے اقدامات کر رہے ہیں جن میں عام معافی بھی شامل ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرناضروری ہے کیونکہ اپنے پیاروں کی گمشدگی پر احتجاج کرنے والے بلوچ خاندان گمشدگیوں کے خاتمے اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے سوا کچھ نہیں مانگتے۔
مختلف حکومتوں نے مختلف اقدامات اور کمیشنوں کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ عدالتوں نے بھی نوٹس لیا ہے، لیکن ان چیلنجوں کا کوئی حتمی حل اب بھی ممکن نہیں۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی حقوق کا ایک سنگین بحران بن چکا ہے۔ کیا ہوتا اگر بلوچ مظاہرین کے لیے مذاکرات کے دروازے کھل جاتے۔کیا یہ کئی دہائیوں سے شورش، دہشت گردی، خراب طرز حکمرانی اور معاشی بحران کا شکار صوبے کے لیے اعتماد سازی کا خاطر خواہ اقدام نہیں ہوتا؟
بلوچستان ملکی تاریخ میں کئی بار خراب حالات اور پرتشدد صورت حال سے دوچار رہا ہے۔ اگر اپنی سیاسی ضرورتوں کے لیے نوازا بھی گیا تو اس صوبے کی طاقتور شخصیات کو، لیکن بلوچستان کے افلاس زدہ عوام کی زندگی بہتر بنانے اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے کم کم ہی کچھ کیا گیا۔
فرسودہ خیالات جنھیں ترقی یافتہ دنیا سالوں پہلے ترک کر چکی ہے، تعلیم یافتہ لوگوں کے قتل کا سبب بھی یہی فرسودہ خیالات ہیں۔ ہزاروں ٹیچرز اور ڈاکٹرز، جن کا تعلق بلوچ سوسائٹی سے بھی تھا اور دوسروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد بھی اس فہرست میں شامل ہیں، انہی فرسودہ سوچ رکھنے والوں کی اندھی نفرت کا نشانہ بنے ہیں۔ اغوا و قتل کی وجہ سے بلوچستان میں سیاسی عمل شدید متاثر ہوا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ان کے خدشات، تحفظات اور غلط فہمیاں دور کر کے اور اس مقصد کے لیے خاطرخواہ اقدامات یقینی بنا کر انھیں قومی دھارے میں لائیں۔ اس وقت جب افغانستان کے حالات بے یقینی کا شکار ہیں اور ہمارے اس ہمسائے ملک کے حوالے سے مختلف اندیشے سر اٹھائے کھڑے ہیں، ہمیں ملک کے اندر مکمل امن وامان اورسیکیورٹی کے معاملات کو مزید بہتر بنانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
ایسے میں بلوچستان کی صورت حال اسی مفاہمت اور بات چیت کے ذریعے مسئلے حل کرنے کے عمل کا تقاضا کر رہی ہے جس کے لیے وزیراعظم شہبازشریف اور صدرمملکت آصف علی زرداری نے قدم بڑھا دیا ہے۔دعا ہے کہ یہ قدم تیزرفتاری سے اپنا سفر طے کریں اور تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے بلوچستان کو امن کی منزل تک لے جائیں۔
بلوچستان کی محرومی دور کرنے کیلئے ایک قومی مکالمے کیلئے مناسب ترین جگہ بلوچستان ہی ہے تاکہ بے چینی کا شکار نوجوانوں کو اس مکالمے میں شامل کیا جائے، ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان کے یہ باصلاحیت افراد ملک بھر سے ایسے دانشوروں کو اکٹھا کرینگے جو صرف ملک اور ریاست پر بات کریں۔ ریاستی ادارے ان کی گفتگو پر کان دھریں۔ پالیسی معاملات پر وہ سب کو رہنمائی مہیا کریں،یہ کام سیاسی رہنما ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔
بلوچستان میں نہ صرف پائیدار اور مستقل امن ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے بلکہ اس صوبے کی ترقی اور خوشحالی بھی ملک و قوم کے مستقبل کے لیے لازمی ہے۔ بلوچستان کے ناراض عناصر بھی ہمارے اپنے لوگ ہیں۔بلوچستان کے وسائل کی بہتر استعمال کے لئے لازم ہے کہ وہاں کے لوگوں کو ہنر سکھائے جائیں ،انھیں ٹیکنیکل تعلیم دی جائے، لوگوں کو کسی بھی شعبے میں جتنی مہارت حاصل ہو گی صوبہ اتنا ہی ترقی کرے گا اور روزگار کے اتنے ہی زیادہ مواقع پیدا ہوں گے۔
وہاں موجود سرداری نظام بھی صوبے کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، سردار اپنے علاقے میں ترقیاتی کام نہیں ہونے دیتے،وہ لوگوں کو غریب، بے ہنر اور جاہل رکھنا چاہتے ہیں۔ لوگ جتنے زیادہ جاہل اور پسماندہ ہوں گے سردار نظام اتنا ہی مضبوط ہو گا۔لہذا سرداری نظام کی بقا اسی میں ہے کہ وہاں کے لوگ جاہل اور پسماندہ رہیں۔ وہاں موجود ایک گروپ لوگوں کے ذہنوں میں وفاق کیخلاف زہر انڈیلتا رہتا ہے،اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کے صوبے کی بدحالی کا ذمہ دار وفاق ہے، یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے لوگوں میں صوبائیت کا زہر پھیلاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ وفاق کی طرف سے ایک بڑا بجٹ صوبے کو ملتا ہے ،جس کا ایک بڑا حصہ وہاں کی صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔اگر وہاں کرپشن کو روکا جائے اور بجٹ کا درست استعمال کی جائے تو صوبے میں ترقی کا عمل دوگنا زیادہ ہو جائے گا۔
لوگوں میں خوشحالی آئے گی تو ان کی وفاق سے شکایات بھی ختم ہوتی جائیں گی، دوسرا وہاں موجود سرداری نظام کا خاتمہ کیا جائے، ترقی کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ یہی سردار ہیں۔جن کی ایک تعداد اقتدار میں آجاتی ہے اور یہ اپنے علاقے میں ترقیاتی کام نہیں ہونے دیتے اور اپنے علاقے میں ترقیاتی کام کے نام پرفنڈ حاصل کرکے اسے ہڑپ کر جاتے ہیں اور وفاق کے خلاف غلط اور نفرت انگیز پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔