پاکستان ایک نظر میں آپریشن ضرور کیجیے مگر ساتھ ہی امن کا وعدہ بھی کریں

دعا ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ ہمیشہ کیلیے ہوجائے اور پھر دہشتگردوں کو کبھی اپنی کارروائیاں کرنے کی مجال نہ ہو


اِس ملک کے شہری ہونی کی حیثیت سے فوج سےمطالبہ کرنا چاہتا ہوں کہ ضرور وزیرستان آپریشن کیجیے مگر اِس بار وعدہ کرکے چاہیے کہ جب آپ کی واپسی ہوگی تو آپ کے ہاتھوں میں امن کی چابی ہوگی۔ فوٹو: فائل

آخرکار پاکستان کی فوج نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کردیا جس کو ضرب عضب کا نام دیا گیا ہے ۔ جس کا مقصد ملکی اور غیر ملکی دہشتگردوں پر کڑی ضرب لگانا ہے اور وزیرستان کی وادی کو اس سے پاک کرنا ہے ۔اور یہ آپریشن اس لحاظ سے بھی باقی گزشتہ آپر یشنز سے قدرے مختلف ہے کہ اس آپریشن کو شروع کرنے سے پہلے مذاکرات کا طویل عمل شروع کیا گیا تاکہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کر لیا جائے مگر مذاکرات کی نا کامی اور کراچی ائر پورٹ پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد اس کا حتمی فیصلہ کیا گیا جس پر فوجی اور سولین حکومت اور بیشتر سیاسی جماعتوں میں مکمل ہم آہنگی نظر آرہی ہے ماسوائے جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے ، جو اس آپریشن پر کچھ تحفظات کا اظہار کررہی ہیں جس کی شاید ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ان کی خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت ہے اور جس پر اس آپریشن کے اثرات زیادہ ہو نگے۔

اب اگر ٹھنڈے دماغ اور تنہائی میں بیٹھ کر سوچا جائے تو محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ آپریشن کا راستہ جو اختیا ر کیا گیا وہ مذاکرات کی ناکامی اور پورے ملک میں کالی آندھی کی طرح بڑھتی دہشتگردی کے بعد سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کے پاس یہ ا یک آخری راستہ تھا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا کرے کہ ہماری فوج اس حالیہ آپریشن میں کامیاب ہو جا ئے اور اگر اللہ نہ کرے اس میں ناکام ہوتی ہے تو اس کے اثرات کیا ہو نگے اور کتنے خطرناک ہو نگے شاید اِس کا تصور بھی محال ہے۔

ایک اور اہم بات یہ کہ اگر یہ آپریشن باقی سابقہ آپریشنزمثلاً راہ راست، راہ نجات اور کوہ سفید جو کہ سوات اور مالا کنڈ، جنوبی وزیرستان اور کرم ایجنسی میں بالاترتیب کیے گئے تھے ، ان سے کس حد تک مختلف ہو گا اور کیا سوات، ملا کنڈ ڈویزن، جنوبی وزیرستان اور کرم ایجنسی میں کیا واقعی امن قائم ہو گیا ہے؟ اور اس کے بعد ان دہشتگردوں کا حقیقی صفایا ہو گیا ہے؟۔ مگرشاید افسوسناک معاملہ تو یہ ہے کہ ایسا اب تک نہیں ہوسکا ہے۔ محض سوات کے علاوہ کہیں بھی کامیابی حاصل نہٰیں ہوسکی اور اگر سوات کی بھی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب یہاں پر آپریشن کیا گیا تو ملا فضل اللہ جو یہاں پر طالبان کا سربراہ تھا جو کہ اپنے ساتھیوں سمیت یہاں سے غائب ہو گیا اور اس کے بعد دہشتگردی کا ایساسلسلہ شروع ہو ا جس نے ملک کےدرو دیوار کو ہلا کے رکھ دیا اور محفوظ سے محفوظ قلعہ بھی ان کی گرفت سے نہ بچ سکا۔اور سوات کے بارے میں تو اب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہاں امن جب تک ہےجب تک وہاں پر افواج پاکستان کے جواب پہرہ دے رہے ہیں اور جس دن وہاں سے فوج نکل گئی شاید پھر دہشت گرد وہاں سر اُٹھاسکتے ہیں۔

اب اس آپریشن کو شروع کرنے سے پہلے ایک با ت کو سبجھ لینا ضروری تھا وہ یہ ہے کہ امریکی فوج جو اس وقت افغانستان میں موجود ہے اور وہ جولائی کے بعد اس ملک سے چلی جائے گی اگر تواس کی موجودگی کے دوران یہ آپریشن اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے اور تو اس کے مثبت نتائج آسکتے ہیں اور اگر اللہ نہ کرے یہ آپریشن طویل ہوتا ہے تو ہماری فوج کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن میری ذاتی طور پر تو خواہش یہی ہے کہ یہ آپریشن جلد سے جلد ختم ہو اور امن کی فاختہ کو آزادی کے ساتھ اُڑھتا ہوا دیکھ سکوں۔

بس میں یہاں مسلح افواج سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے پہلے بھی آپریشنز کیے اُس وقت بھی ہم نے آپ کی حمایت کی اور اِس بار بھی آپ نے آپریشن کا فیصلہ کیا ہم اِس بار بھی آپ کی حمایت کرنے کو تیار ہیں لیکن اِس ملک کے شہری ہونی کی حیثیت سے آپ سےمطالبہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ جائیے ضرور وزیرستان جائیے مگر اِس بار اِس مملکت خدادا میں رہنے والوں سے یہ وعدہ کرکے چاہیے جب آپ کی واپسی ہوگی تو آپ کے ہاتھوں میں امن کی چابی ہوگی اور پھر کبھی اِس ملک میں دہشتگردوں کو اپنی کارروائیاں کرنے کی مجال نہیں ہوگی ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ دعا ہے کہ ہماری فوج نے جو آخری راستہ اختیا رکیا ہے اس میں اس کو کامیابی نصیب ہو اور ا س وطن پاک سے دہشتگردی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفایا ہو جا ئے اور جس مقصد کے لے یہ سرزمین حاصل کی گئی وہ مقصد بھی پورا ہو جائے اور دنیا کے نقشے پرپاکستان تا قیامت دمکتا اور چمکتا رہے اور اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے خود ہی نیست و نا بود ہو جائیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں